قصہ حکومت پنجاب کی بریفنگ کا اور وفاقی کابینہ کی رخصتی!

March 19, 2013

قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ ”دستوری عمر“ پوری کر کے ہفتہ کی رات بارہ بجے تاریخ کے گھپ اندھیروں میں ڈوب گئی ہیں۔ 63 وزیر، وزیر مملکت، معاون خصوصی اور مشیر جب صبح بیدار ہوئے تو اقتدار و اختیار سوہانے یا ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہو گئے تھے۔ اب جناب پرویز اشرف راجہ وزیر اعظم سمیت 63 عہدوں کے انچارج بن کر مہاراجہ یعنی ”63 اِن ون“ ہو گئے ہیں۔ چند دنوں کی یہ مہاراجیت انہیں مبارک ہو۔ اب صوبائی اسمبلیوں اور کابینہ کی باری ہے۔ خادم پنجاب کے بقول وزیر اعظم اور چاروں وزرائے اعلیٰ کے درمیان ملاقات میں اس بات پر اتفاق ہو گیا ہے کہ وفاقی و صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات ایک ہی دن ہونگے۔ وزیر اعظم نے قوم سے الوداعی خطاب میں وزرائے اعلیٰ سے اس ملاقات کو خوشگوار قرار دیا جبکہ شہباز میاں نے اسے ”رسمی ملاقات“ کہا جس میں نگران وزیر اعظم، تین صوبوں کے نگران وزرائے اعلیٰ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکا جبکہ جمہوری اقدار و روایات کا ہی نہیں ملک کے سنگین حالات کا یہ تقاضا ہے کہ افہام و تفہیم سے اسے حل کیا جائے۔ یہ گھر کی بات ہے گھر میں رہے تو بہتر ہے کیونکہ جمہوریت کی بلند و بام عمارت کی فصیل کے باہر ”ان دیکھے نان ایکٹرز“ موجود ہیں۔ کچھ افواہیں اور آوازیں ہیں جو اب بھی بلند ہو رہی ہیں۔ حکومت اور سیاسی جماعتوں کو اس کا بجا طور پر کریڈٹ جاتا ہے کہ آپس میں شدید اختلافات کے باوجود جمہوریت کی گاڑی کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا۔ حکومت پنجاب پانچ سالہ کارکردگی رپورٹ کے دوران شہباز شریف نے اس بات پر دکھ کا اظہار کیا۔ ان پانچ سالوں کے دوران وفاق کی جانب سے پنجاب کو ایک پائی کی بھی مالی امداد نہیں ملی ”جو کچھ کیا اپنے وسائل سے ہی کیا“ اس کے باوجود تمام بڑی چھوٹی سیاسی جماعتوں خصوصاً وفاق، سندھ، خیبر پختونخوا اور پنجاب کی حکمران جماعتوں کا یہ آئینی فرض ہے کہ وہ نگران حکومتوں کا قیام افہام و تفہیم سے کریں اور بات پارلیمانی کمیٹی یا الیکشن کمیشن تک نہ پہنچے تو بہتوں کا بھلا ہو گا لیکن اب ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ وزیر اعظم نے ہفتہ کی رات اپنے الوداعی خطاب میں حکومتی کارکردگی کی ایک طویل فہرست پیش کی اور دعویٰ کیا کہ عوام کو بہت سی مراعات اور سہولتیں دی گئی ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ وہ اس کی نشاندہی بھی کر دیتے۔ چند لاکھ افراد کو بے نظیر انکم پروگرام کے تحت چند ہزار روپے کی مالی امداد دے کر یہ کہنا ہم نے غربت کم کر دی ہے، ایک مذاق ہی تو ہے۔ عوام کے مصائب میں کمی تو دور کی بات ہے ان میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے وہ تو گرانی، لوڈشیڈنگ، بے روزگاری کے عذاب سے دوچار ہیں اور سارا ملک دہشتگردی اور کرپشن کی زد میں ہے۔ بات وزیر اعلیٰ پنجاب کی بریفنگ کی ہو رہی تھی۔ تو اس کا وقت تبدیل کر کے سوا چھ بجے کر دیا گیا۔ ماڈل ٹاؤن میں مسلم لیگ ن نے میڈیا سیل کی ایک خوبصورت عمارت بنائی ہے، جسے تمام تر جدید سہولتوں سے آراستہ کیا گیا ہے۔ بریفنگ کا دوسری منزل کے ایک خوبصورت کانفرنس ہال میں اہتمام کیا گیا تھا۔ گزشتہ ماہ لاہور میں صدر مملکت نے صحافیوں کو ایک عشائیہ پر مدعو کیا تھا۔ اس بڑے گھر کی چاروں طرف دھوم ہے۔ یقین کیجئے بلاول ہاؤس کا ہال میڈیا سیل کے خوبصورت ہال کے مقابلہ میں کچھ نہیں۔ وزیر اعلیٰ کی آمد میں کچھ دیر تھی اس لئے ”سنیک اور چائے“ پہلے ہی سرو کر دی گئی۔ میاں شہباز شریف نے بریفنگ سے قبل وزیر اعظم سے ملاقات کے حوالے سے ایک مختصر بیان دیا۔ جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ پنجاب حکومت جب تک تمام امور افہام و تفہیم سے حل نہیں ہوتے پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ چیئرمین پی این ڈی نے سلائیڈز اور ایک دستاویزی فلم کے ذریعہ مختلف شعبوں میں حکومت کے ”اچھے کاموں“ پر بریفنگ دی اور وزیر اعلیٰ نے متعدد سوالات کے جواب بھی دیئے۔ یہ درست کہ پنجاب وہ صوبہ ہے جہاں امن و امان کی صورتحال دوسرے صوبوں کی نسبت بہت بہتر رہی اور چند کام ایسے بھی ہوئے جن کو سر پر اٹھا کر اعزاز بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ان میں میٹرو بس پراجیکٹ، لیپ ٹاپ اور سولر لیمپ کی تقسیم خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ جناب وزیر اعلیٰ ایک اچھے منتظم تو ہیں ہی، اب جہاندیدہ سیاستدان بھی بن گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے انہوں نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سے ان تینوں پراجیکٹ کی شفافیت کا سرٹیفکیٹ بھی لے لیا تاکہ انتخابات میں ”وقت ضرورت“ کام آ سکے۔ ان کا یہ دعویٰ بھی درست ہے کہ صوبہ میں اوپر کی سطح پر کوئی کرپشن نہیں کی گئی۔ ”ہم نے شفافیت کو مدنظر رکھا ہے اور ہمارے دونوں ہاتھ صاف ہیں۔ تمام امور ”میرٹ“ کے مطابق طے کئے گئے ہیں“۔ تاہم انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ تھانہ کلچر ہو یا نچلی سطح پر کرپشن، یہ موجود ہے اور اس پر قابو پانے کیلئے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن ساری بریفنگ میں عوام کے مسائل اور ان کے سدباب کیلئے کئے گئے اقدامات کا کوئی ذکر نہ تھا۔
ایک قابل توجہ بات یہ تھی کہ محکمہ تعلقات عامہ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ سینئر صحافیوں کو مدعو کیا گیا ہے لیکن بہت سے نامور سینئر صحافی ”غیر حاضر“ تھے۔ ان میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا دونوں شامل ہیں۔ وہ خوبصورت چہرے بھی نظر نہیں آئے جنہیں ”مزاج شناسِ شہباز“ کہا جاتا ہے۔ برادرم عطاء الحق قاسمی آئے ضرور لیکن چائے پیئے بغیر یہ کہہ کر چلے گئے کہ میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
موضوع کے اعتبار سے اس بریفنگ کی ایک اہمت یوں ہے کہ صوبہ میں پانچ سال کے دوران مختلف شعبوں میں جو کام ہوئے ہیں ان سے صحافی برادری کو آگاہ کیا گیا اور بہت سے جاری منصوبوں کا ذکر ہوا کہ جنہیں آنے والوں نے مکمل کرنا ہے۔ ایک ”اپنے صحافی“ کا کہنا تھا کہ جناب نے جس خوش اسلوبی سے 16وزارتوں کی نگرانی کر کے یہ کام کئے ہیں آپ کے بعد کیا کوئی اور ایسا کر پائے گا تو شہباز شریف نے اپنے ساتھ بیٹھے دیرینہ رفیق سردار ذوالفقار کھوسہ اور دوسری جانب اپنے معاون خصوصی جناب پرویز رشید کی طرف دیکھا کہ ”سولہ وزارتیں“ کہاں ہیں۔ یہ دونوں حضرات مسکرا دیئے۔ ان کا جواب تھا کہ ”ایسی کوئی بات نہیں“۔ بریفنگ کے دوران شعیب بن عزیز نے ایک چٹ ان کے سامنے رکھی تو انہوں نے عینک لگا کر اس پر نظر ڈالی اور کہا کہ وزیر اعظم کا فون آیا ہے ”آپ بات کریں“۔ بریفنگ کے بعد بہت سے غیر صحافیوں اور صحافیوں نے انہیں گھیرے میں لے لیا۔ سینئر صحافی پرویز بشیر نے کہا کہ وزیر اعظم سے بات کے حوالے سے میں آپ کو 11بجے فون کر لوں تو شہباز شریف نے محبت بھرے انداز سے انہیں دیکھا اور کہا کہ ہاں فون کر لیں، کہ پرویز بشیر کا کام بن گیا۔ میں جناب خادم پنجاب سے بات کرنا چاہتا تھا لیکن ایک عظیم صحافی نے ایسا نہیں کرنے دیا جو شہباز میاں کو انتخابی مہم کو انقلابی انداز میں چلانے کا انتہائی قیمتی مشورہ دے رہے تھے۔ برادرم عزیز زعیم قادری میری مدد کو بھی آئے اور آخر میں یہ بات کہ نہ جانے کیوں مجھے یوں محسوس ہوا کہ یہ بریفنگ ایک سابق وزیر اعلیٰ کی ہے۔