کورونا وائرس۔ نیا عالمی و اقتصادی ضابطہ؟

March 15, 2020

کورونا وائرس پوری دنیا میں پھیل چکا ہے اور عالمی ادارئہ صحت نے اسے عالمی وبا قرار دے دیا ہے۔ اس وائرس سے روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں افراد متاثر ہورہے ہیں اور درجنوں ہلاک ہو رہے ہیں لیکن اس وائرس سے عالمی معیشت پر جو اثرات مرتب ہو رہے ہیں، ان کے حوالے سے ماہرین اقتصادیات اور سیاسیات اور دنیا کے بڑے بڑے تھنک ٹینکس سمیت صاحب الرائے حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ اب دنیا کا سیاسی اور اقتصادی منظرنامہ وہ نہیں رہے گا، جو کورونا وائرس سے پہلے تھا۔ اگر دنیا واپس پرانے دھارے پر آبھی گئی تو اسے بہت وقت لگے گا لیکن اس بات کا امکان بہت کم ہے۔ اس تناظر میں یہ سوال بھی کیا جارہا ہے کہ کیا کوئی ایسا نیا عالمی اور اقتصادی ضابطہ بن رہا ہے، جس کے بارے میں ہم نے کورونا سے پہلے سوچا ہی نہیں تھا یا کورونا سے قبل مشرق کی ابھرتی ہوئی معیشتوں سے جو عالمی اور اقتصادی ضابطہ بننے جارہا تھا، کیا اس کی تشکیل پذیرائی کو روک دیا گیا ہے؟

یہ حقیقت ہے کہ کورونا وائرس سے پہلے دنیا پر چین کی اقتصادی بالادستی کے لیے غیرمعمولی پیش قدمی جاری تھی اور مشرق کی دیگر ابھرتی ہوئی معیشتیں اس پیش قدمی میں معاون کے طور پر کردار ادا کررہی تھیں۔ اسی بنیاد پر دنیا میں نئی سیاسی اور اقتصادی صف بندی ہورہی تھی، جو خاص طور پر ایشیا میں نئے بلاکس کی تشکیل ہورہی تھی، جو بظاہر غیرجانبدار لیکن حقیقت میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے راستے الگ کرتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ چین کی دنیا پر اقتصادی بالادستی کی پیش قدمی اور عالمی سطح پر نئی صف بندی کو روکنا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے بہت مشکل تھا کیونکہ چین اور اس کے اتحادی تصادم کے روایتی سامراجی طریقوں سے گریز کررہے تھے اور اقتصادی تعاون کو ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے تھے۔ اس ہتھیار نے امریکہ اور اس کے حواریوں کو بے بس کردیا تھا۔ ان کے دانشور 21ویں صدی کو چین اور مشرق کی صدی قرار دے رہے تھے۔

چین کے علاوہ باقی دنیا پر بھی اگرچہ کورونا وائرس کے معاشی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ کئی ممالک یا کئی ملکوں کے مختلف علاقوں کو لاک ڈائون کردیا گیا ہے۔ ایئر لائن انڈسٹری تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ سرحدیں بند ہونے سے بین المملکتی تجارت ختم ہو گئی ہے۔ دنیا کی اسٹاک مارکیٹیں گزشتہ چار عشروں کے دوران سب سے بڑے کریش سے دوچار ہیں۔ تیل اور گیس کی درآمد وبرآمد رکنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے، جس سے بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے۔ پاکستان جیسی معیشتیں زیادہ عرصے تک ایسی صورتحال کی متحمل نہیں ہو سکتی ہیں لیکن پھر چین سب سے زیادہ تباہ ہوا ہے۔ اس کے بعد جنوبی کوریا اور دیگر مشرقی معیشتیں متاثر ہوئیں۔ بھارت چین کو سب سے زیادہ سولر پینلز کا برآمد کنندہ تھا۔ اس کی یہ صنعت بھی بحران کا شکار ہوگئی ہے۔ مغرب میں اٹلی اور اسکینڈے نیویا کے ممالک زیادہ متاثر ہوئے ہیں، جو امریکی سامراجی ایجنڈے کا حصہ نہیں تھے۔ اگرچہ امریکہ اور اس کے بعض یورپی اتحادیوں کی معیشت کو بھی بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اب تک عالمی معیشت کو ہونے والے نقصان کا تخمینہ 3ٹریلین ڈالرز لگایا گیا ہے، جس میں امریکہ اور اس کے قریبی حواریوں کا حصہ 0.5ٹریلین ڈالرز سے کم ہے۔ چین کی معیشت کو 1.3ٹریلین ڈالرز کا نقصان ہوا ہے، جو سب سے زیادہ ہے۔ باقی 1.2ٹریلین ڈالرز کا نقصان ان ممالک کا ہے، جو نئی عالمی صف بندی میں اپنی سابقہ پوزیشن سے شفٹ ہورہے تھے۔

اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کورونا وائرس سے پہلے تک عالمی سیاست اور معیشت میں جو طاقت کا توازن تھا یا جو ’’تجارتی جنگ‘‘ کی شکل میں جو وقتی توازن (EQUILIBRIUM)بن رہا تھا، وہ اب نہیں رہا۔ اس کی بنیاد پر جو نیا عالمی اور اقتصادی ضابطہ بنتا، اس کے لیے حالات نہیں رہے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ وہ حالات دوبارہ پیدا ہوں گے یا نہیں لیکن ہمیں تاریخ یہ بتاتی ہے کہ گزشتہ سات صدیوں سے مغرب کی سامراجی بالادستی والا ایک نیا عالمی اور اقتصادی ضابطہ نئی شکلوں کے ساتھ سامنے آنے کے حالات پیدا ہو گئے ہیں۔ مغرب کی اس بالادستی کو سات صدیوں میں پہلی مرتبہ چیلنج کیا گیا تھا۔ چیلنج کرنے والے اب کورونا وائرس سے پہلے والی پوزیشن میں اب نہیں ہیں۔اگرچہ چین یہ کہہ رہا ہے کہ امریکہ نے اپنے فوجیوں کے ذریعہ چین میں کورونا وائرس پھیلایا۔ مغرب اسے سازش کی تھیوری قرار دے رہا ہے۔ حقیقت کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کورونا سے پہلے والے عالمی اور اقتصادی حالات نہیں رہے۔