تھری پیس سوٹ میں درویشی رقص

March 26, 2020

میری زندگی کے شب و روز میں بہت نشیب و فراز آئے ہیں اور میں نے اونچ نیچ دونوں کا لطف اُٹھایا ہے، ہم میاں بیوی دونوں کالج میں لیکچرار تھے، میری اضافی آمدنی ٹی وی ڈراموں، شاعروں کے ’’اعزازیوں‘‘ اور کالموں کے اعزازی نما معاوضوں کی مرہونِ منت تھی۔ ایک موٹر سائیکل ہوتا تھا، جس پر ہم پانچ افرادِ خانہ مَیں، اہلیہ اور تین بیٹے سوار ہوتے اور سیریں کرتے! ہم چھٹی کے روز علامہ اقبال ٹاؤن کے گلشن اقبال پارک یا کبھی چڑیا گھر چلے جاتے، جب میں ’’چھڑا چھانٹ‘‘ تھا، میرے پاس لمبریٹا اسکوٹر ہوتا تھا جسے قومی سطح پہ شہرت حاصل ہوئی، اس کے گم ہونے پر میں نے کالم ’’محترم چور صاحب‘‘ کے زیر عنوان لکھا، تو میرے اس کالم پر احمد ندیم قاسمی، ابن انشا، انتظار حسین، منو بھائی نصر اللہ خان اور دوسرے بہت سے کالم نگاروں کے علاوہ پی پی پی کے ترجمان اخبار ’’مساوات‘‘ کے سہیل ظفر (مرحوم) نے بھی کالم باندھا اور یوں اس کی شہرت چار دانگ عالم تک پھیل گئی، جس پر چور گھبرا گیا اور اسکوٹر واپس کر گیا، میں نے اسکوٹر کی واپسی پر ’’محترم چور صاحب کا شکریہ‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا اور ان تمام کالم نگاروں کا حوالہ دے کر اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ چور کس کالم سے متاثر ہو کر اسکوٹر واپس کر گیا اور نتیجہ میں نے یہ نکالا کہ اس نے پیپلز پارٹی کے روزنامہ ’’مساوات‘‘ میں سہیل ظفر کا کالم پڑھا اور اسے ’’پارٹی کا حکم‘‘ سمجھ کر اسکوٹر واپس کر دیا۔ یہ اچھا دور تھا، سہیل ظفر سے ملاقات ہوئی تو اس نے بےتحاشا ہنستے ہوئے میرے اس جملے کی داد دی!

اُن دنوں علامہ اقبال ٹاؤن کے 452جہانزیب بلاک میں میرا ڈیرہ تھا۔ میں نے یہ گھر 9مرلے 63فٹ کے پلاٹ پر تعمیر کیا تھا جو 1980ء کی دہائی میں رائٹرز ہاؤسنگ سوسائٹی کی طرف سے سترہ ہزار روپے میں مجھے ملا تھا۔ ایک لاکھ روپیہ میں نے ہاؤس بلڈنگ فنانس سے قرض لیا، کچھ پیسے پلے سے ڈالے اور یہ گھر ایک لاکھ چالیس ہزار میں تعمیر ہو گیا۔ قرض کی قسطیں 16سال تک ادا کیں، میں نے اور میری فیملی نے اپنی زندگی کے بہترین اور خوش و خرم سال اس گھر میں گزارے، آج میں اس سے کہیں بڑے گھر میں رہتا ہوں لیکن مجھے یہ گھر بہت یاد آتا ہے۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ:رائٹرز گلڈ کے ذیلی ادارے یعنی رائٹرز ہاؤسنگ سوسائٹی کے آفس سیکرٹری حبیب کیفوی تھے، ممتاز دانشور اور میرے دیرینہ دوست فخر زمان کے خسر، نہایت شریف انسان اور پرانی روایات کے حامل بزرگ! یہ مکان بنانے سے پہلے کی بات ہے، میں ایک دفعہ ان کے پاس گیا اور کہا ’’سوسائٹی کی رکنیت کیلئے میں نے جو دو سو روپے جمع کرائے تھے! براہِ کرم میری رکنیت منسوخ کرکے یہ رقم مجھے واپس کر دیں، مجھے پیسوں کی سخت ضرورت ہے‘‘۔ حبیب صاحب نے اپنے سامنے دھرے حقے کا ایک لمبا کش لیا اور کہا ’’اگر اتنی ہی ضرورت ہے تو کسی دوست سے ادھار لے کر کام چلا لو‘‘ میں نے عرض کی ’’میرا کوئی دوست اتنا مالدار نہیں کہ دو سو روپے کی خطیر رقم مجھے ادھار دے سکے‘‘ اس پر انہوں نے حقے کا ایک اور کش لیا اور کہا ’’اگر تم نے یہ پیسے واپس لے لیے تو تم اور تمہارے بچے کبھی اپنی چھت تلے نہیں رہ سکیں گے… یہاں سے بھاگ جاؤ اور آئندہ اس کام کیلئے کبھی میرے پاس نہ آنا‘‘، ﷲ تعالیٰ ان کی قبر کو ہمیشہ نور سے بھرا رکھے، وہ سچ کہہ رہے تھے۔

اقبال ٹائون سے پہلے میں نے ماڈل ٹاؤن لاہور اور ونڈسر پارک اچھرہ میں زندگی کے بیشمار ماہ و سال کرائے کے گھروں میں گزارے چنانچہ اقبال ٹاؤن میں اپنا گھر میرے لیے ایک نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہ تھا۔ میں ساری عمر خدا کی چھوٹی سے چھوٹی نعمت کا بھی شکر گزار رہا ہوں، چنانچہ جب میرے پاس موٹر سائیکل تھا تو اس پر سواری کے دوران اس کی کوئی نعمت یاد آ جاتی تھی، تو میں موٹر سائیکل ایک جانب کھڑی کرکے اس کے ’اسٹیئرنگ‘ پر سجدہ ریز ہو جاتا، آج میرے پاس گاڑی ہے اور میرا یہ معمول آج بھی یہی ہے۔ میں کبھی کبھار بابا شاہ جمال کے دربار پر حاضری دیتا ہوں اور وہاں سرور و مستی کے عالم میں پڑنے والی دھمال کا نظارا کرتے ہوئے خود کو بہت مشکل سے اس منظر کا حصہ بننے سے روکتا ہوں۔ سوائے ایک موقع کے، میرے ایک دوست مظفر بخاری (مرحوم) کے گھر ڈیوس روڈ پر ڈنر تھا، وہاں رات کے دو بج گئے، میں موٹر سائیکل پر واپس اپنے گھر جا رہا تھا، پلازہ سینما کے پاس شاہ عنایت قادری کے دربار کے قریب پہنچا تو میں نے دیکھا تین ملنگ درویشی لباس میں ڈھول کی لَے پر رقص کر رہے ہیں، اس وقت سڑکیں ویران پڑی تھیں، دور دور تک آدم نہ آدم زاد، بس تین درویش اور ان کا مستانہ وار رقص! میں موٹر سائیکل سے اتر کر ان کے قریب جا کھڑا ہوا مگر وہ مجھ سے بےخبر اپنے ’’یار‘‘ کو منانے میں لگے رہے۔ یہ منظر آہستہ آہستہ مجھ میں سرایت کرتا چلا گیا اور پھر میں بھی بےخبر رہا جب درویشی لباس میں ملبوس ان تین درویشوں کے ساتھ سوٹ میں ملبوس ایک دنیادار شخص بھی شامل ہو گیا اور اس وقت تک رقص کرتا رہا جب تک صبح کی سپیدی رونما نہ ہوئی اور سڑکوں پہ لوگوں کی آمد و رفت شروع نہیں ہو گئی… تب اس دنیادار شخص نے اپنے موٹر سائیکل کو کک ماری اور دوبارہ مکروہات سے لتھڑی زندگی میں واپس آ گیا۔