مُنا میرا دوست

March 28, 2020

مشاہد رضوی

جب سے جنگل کٹنے شروع ہوئے ہماری تو مصیبت ہی ہوگئی ۔ جنگل میں شکار نہیں ملتا تو شیر اور بھڑیے گاؤں میں گھس آتے ہیں ، جو ملا اسے ہی مار کر کھا جاتے ہیں ، چاہے بچھڑا ملے، بھیڑ، بکری یا کتّا ،بلّی۔ ہمارے گاؤں میں پچھلے کئی دنوں میں بہت ساری اس طرح کی واردات ہوچکی ہے۔ رات میں چپکے سے شیر آیا اور ایک گاۓ کو کھا گیا۔ دوسرے دن ہمارے پڑوسی کی گاۓ کے بچھڑے کو کھاگیا۔ بھڑیے نے ایک رات ہمارے گاؤں کےسرپنچ کے کتّے کو ہی کھا لیا۔ گاؤں والوں کے دلوں میں ڈر بیٹھ گیاکہ شیر اور بھڑیے کسی دن کہیں آدمی کو نہ کھالیں اور آدم خور بن کر بڑا نقصان پہنچائیں۔

گاؤںکے لوگ اس مسئلے کو لے کر سرپنچ کے گھر پہنچے ۔ وہاں پہنچ کر سب اپنی اپنی ہی بولی بول رہے تھے کوئی کہہ رہا تھا،’’ اس سال بارش کم ہوئی تمام تالاب سوکھ گئے۔‘‘ کوئی کہہ رہا تھا،’’ جنگل میں اب درخت نہیں بچے ہیں ۔ہم پکانے کے لیے لکڑیاں کہاں سے کاٹ کر لائیں؟‘‘ وغیرہ ۔

سرپنچ نے تب ہی بیچ میں کہا کہ،’’ پانی کی تلاش میں ہی شیر اور بھڑیے گاؤں میں آرہے ہیں اور جنگل میں درختوں کی لگاتار کٹائی ہونے سے چھوٹے چھوٹے جنگلی جانور گاؤں کی طرف آکر اپنے پیٹ کی آگ بجھا رہے ہیں ۔ شیر اور بھیڑیے کو شکار نہ ملنے کی وجہ سے وہ بھی گاؤں کی طرف رُخ کرتے ہیں ایسے حادثات کے ذمہ دار تو ہم ہی ہیں ۔‘‘

شرفو بابا نے کہا،’’کالو لوہار سے ایک جال بنوالیتے ہیں،تاکہ شیر اور بھڑیا اس میں پھنس جائیں۔‘‘

سب کویہ بات ٹھیک لگی۔ کالو لوہار نے کہا کہ،’ ایساجال بناؤں گا کہ شیر ہو یا بھیڑیا، پیر رکھتے ہی پھنس جائیں گے۔‘‘ لوگوں نے کہا کہ یہ بھی طَے کرلیا جائے کہ شیر اور بھیڑیے کو پھنسانے کے لیے کیا کِیا جائے ؟ کوئی بھیڑ، بکری جال کے پاس باندھنی پڑے گی، تب ہی توشیراور بھیڑیا وہاں آئیں گے۔

’’ بکری میں دے دوں گا۔‘‘ سر پنج نے کہا۔

میں کھونٹے سے بندھی یہ سب سُن رہی تھی ۔ میرے تو پیروں کے نیچے کی زمین کھسک گئی ۔ میرا سر چکرانے لگا ۔ مجھے سر پنچ کے اوپر غصہ آنے لگا ۔ ٹامی نے اپنی جان دے کر میری جان بچائی تھی ۔ وہ زور زور سے بھونکتا رہا۔ کسی نے دھیان ہی نہیں دیاآخر کار بھیڑیے نے اسی کو اپنا شکار بنالیا۔

مُنّا بھی چار پائی پر بیٹھا لوگوں کی باتیں سُن رہا تھا۔ وہ بول پڑا،’’ میںاپنی بکری نہیں دوں گا۔ گاؤں میں کئی لوگوں کے یہاں کئی کئی بکریاں ہیں۔ہم ہی کیوں اپنی بکری دیں؟‘‘… اُسے اِس طرح بیچ میں بولتا دیکھ کراس کے باپ نے اسے ڈانٹ کر کہا،’’ بچے اِس طرح بڑوں کے بیچ میں نہیں بولا کرتے۔‘‘

کئی لوگوںنے ایک ساتھ مڑ کر مُنّا کی طرف دیکھا وہ سب کو گھور رہا تھا۔

مجھے بہت اچھا لگا چلو کوئی تو ہے جو میرے بارے میں سوچتا ہے۔ میری جان میں جان آئی۔ مُنّا ضدی ہے، وہ میرے لیے کچھ بھی کر سکتاہے۔ ہمارے خاندان میں صرف تین جانور ہیں ۔ میری ماں، میری بہن چھوٹی اور مَیں … ماں کو جال کے پاس باندھا جائے گا تو شیر یا بھیڑیا کھا جائے گا۔ میری بہن چھوٹی ابھی بہت چھوٹی تھی وہ چارا کم کھاتی تھی ۔ روز وہ ماں کا دودھ پیتی تھی۔ ماں کے بغیر وہ پل بھر نہیں رہ سکتی تھی ۔

اب صرف میں بچی تھی ۔ کالو لوہار نے لوہے کا جال بنا دیا ، گاؤں کے کنارے والے راستے پر باندھنے کے لیے مجھے لے کر گئے ۔ مُنّا نے بہت ہائے توبہ کی ،بہت رویا ، گڑگڑایالیکن اس کی بات کسی نے نہ سُنی مجھے ایک کھونٹے سے باندھ دیا گیا۔ میرے سامنے ہری ہری گھاس ڈال دی گئی ایک بالٹی میں میرے لیے پانی بھی رکھ دیا گیا ۔ میں ڈری سہمی تھی، کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ مجھے اس جگہ کیوں باندھا گیا ہے۔ میںنے چارا تو نہیں کھایا، ہاںتھوڑا سا پانی ضرور پِیا۔

سورج ڈوب چکا اور رات ہو چکی تھی جو بھی اس راستے سے گذرتا وہ یہی کہتا کہ سر پنچ کی یہ بکری تو گئی جان سے۔ شیر اسے کھا جائے گا یا بھیڑیا چٹ کر جائے گا۔ چاروں طرف سناٹا چھانے لگا ۔ میرے تو ہوش اُڑ گئے۔ مجھے ماں کی یاد آنے لگی اور بہن چھوٹی کے ساتھ کھیلنا کودنا بھی یاد آنے لگا۔ میں سوچنے لگی ہاے! اب کیا ہوگا۔ جنگل سے طرح طرح کی ڈراونی آوازیں آرہی تھیںمَیں نے رونا اور چلا نا چاہا پھر میں نے سوچا کہ کہیں میری آواز سُن کر شیر نہ آجائے ۔ اچانک کسی کا سایا نظر آنے لگا اور کوئی میری طرف بڑھنے لگا میں ڈرگئی لیکن کیادیکھتی ہوں کہ وہ اُچھلو خرگوش ہے۔ اس نے مجھ کو بندھا دیکھااور خود ہی دور بھاگ گیا ۔ مَیں تھوڑی دیر تک اور کھڑی رہی اور پھر نیچے بیٹھ گئی۔

رات اور گہری ہوتی گئی ، مجھے بار بار ہر آہٹ پر یہ لگتا تھا کہ شیراب آیا ، شیراب آیا۔ مجھے کسی کے دھیرے دھیرے چلنے کی آہٹ محسوس ہوئی ۔ بس مَیں سمجھ گئی کہ اب میرا کام تمام ہوجائے گا۔ میں نے ڈر کے مارے آنکھیں بند کرلیں ۔ مجھے ایسا لگنے لگا کہ اب مجھے شیر یا بھیڑیا بس دبوچنے ہی والے ہیں اچانک کسی نے میرے گلے پر ہاتھ رکھا میں بہت زیادہ ڈر گئی اور کانپنے لگی۔ میںنے محسوس کیا کہ یہ ہاتھ تو بہت زیادہ نرم و ملائم بالکل مُنّے کے ہاتھ جیسا ۔ ہاں! یہ مُنّا ہی تھا اس نے میرے گلے کی رسّی کھول دی اور میرے کان میں کہا،’’ جا جلدی سے گھر کی طرف بھاگ جا۔‘‘

مَیں نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور گھر کی طرف پوری رفتار سے دوڑنے لگی ۔ ماں میرے بغیر زور زور سے مِمیا رہی تھی۔ مجھے واپس آتادیکھ کر میری بہن چھوٹی خوشی سے اُچھلنے کودنے لگی۔ مجھے آج پتا چلا کہ مُنّا مجھ سے کتنا پیار کرتا ہے اور وہ میرا سچا اور اچھا دوست ہے۔دوسرے دن پتا چلا کہ شیر اُدھر سے گذررہا تھا جب اس نے بالٹی میں پانی دیکھا تو اس کو پینے کے لیے آگے بڑھا اور جال میں پھنس گیا لوگوں نے اُسے پکڑ کر چڑیا گھر بھجوادیا ۔ اس طرح مُنے کی مجھ سے دوستی اور پیار کی وجہ سے میری جان بھی بچ گئی اور شیر بھی پکڑا گیا۔​