’کورونا وائرس‘ ملازمتوں سے نکالنے پر کارپوریٹ امریکا کی تقسیم

March 30, 2020

نیویارک: اینڈریو ایجکلیف جانسن

امریکا بے روزگاری کے دعوؤں کی تاریخی لہر کیلئے تیاری کررہا ہے کیونکہ اس وبائی مرض جس نے ان کی مصنوعات کی طلب کو گرادیا اور تمام صنعتوں کو ان کے صارفین سے منقطع کردیا،کے خاتمے کی کوشش میں عملے کو کم کررہے ہیں۔

حالیہ دنوں میں تجارتی گروپس نے حکومت کو بتایاکہ ریٹیل میں 17 لاکھ، تیس سے پچاس لاکھ ریستورانوں میں اور ٹریول انڈسٹری میں چھالیس لاکھ ملازمتیں ختم ہوسکتی ہیں۔اس وقت امریکا کی بڑی کمپنیاں اس بحران میں مختلف پیغامات بھیج رہی ہیں کہ قلیل المدتی منافع کے تحفظ کی عمومی کوششوں کے مقابلے میں ملازمتوں کا برقرار رکھنا ان کے طویل المدتی امکانات کیلئے زیادہ اہم ہوگا۔

امریکن ایکسپریس کے چیف ایگزیکٹو اسٹیفن اسکیری نے گزشتہ ہفتے تجزیہ کاروں کو بتایا کہ عمومی طور پر ا نفرادی سطح پر فروخت میں کمی اور کلائنٹ مینجمنٹ ملازمتیں کم ہوجائیں گی، تاہم میں پھر بھی ایسا نہیں کروں گا کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ یہ قلیل المدتی حل ہے۔

انہوں نے پوچھا کہ یہاں تک کہ ہمارے بدترین سال تھے ان میں مالی بحران کے دوران ہم نے بائیس ارب ڈالر کمائے تھے۔ کتنا برا ہوتا اگر ہم نے اٹھارہ ارب ڈالر کمائے ہوتے اور جب کاروبار بحال ہوتا تو اس صورتحال سے باہر نکلنے کیلئے میرے پاس اپنی سیلز آرگنائزیشن تھیں اور میں زیادہ فعال طریقے سے کام کرسکتا تھا۔

مسٹر اسکیری اور ایک سو اسی دیگر سی ای اوز نے واشنگٹن میں کاروباری گول میز کانفرنس کی جانب سے منعقدہ کانفرنس میں ایک خط پر دستخط کیے کہ کورونا وائرس سے متاثرہ امریکی کارپوریٹ جس میں ملازمین سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ شیئر ہولڈرز کے مساوی سلوک کیا جائے۔

دولاکھ مستحکم سروس ایمپلائز انٹرنیشنل یونین کی بین الاقوامی صدر میری کی ہنری نے کہا کہ میں امید کرتی ہوں کہ یہی وہ لمحہ ہے کہ وہ اس اصولی عزم کے پیچھے کارروائی کرسکتے ہیں۔

ایس ای آئی یو نے گزشتہ ہفتے کمپنیوں سے مطالبہ کیا تھاکہ وہ ماضی کا ان کا منافع دیکھتے ہوئے تمام کارکنوں کی صحت،حفاظت اور مالی تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے قائدانہ کردار ادا کریں،تاہم مس ہنری نے فنانشل ٹائمزکو بتایاکہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے اجتماعی اقدامات کی ضرورت نے انہیں امید دی ہے کہ وہ ملازمتوں میں کٹوتی کے غیراختیاری ردعمل کا مقابلہ کرسکیں گی۔

ہارورڈ کی معاشیات کی پروفیسر ریبکا ہینڈرسن نے اس بات کو دہرایا کہ دو ہزار اٹھارہ کے مالی بحران میں ایسا نہ کرنے کا سبق سیکھنے والے وہ چیف ایگزیکٹوز جو اسٹیک ہولڈرز کے نقطہ نظر پر ہمہ جہت تھے ا س بحران میں عملے کو پہلے ڈال رہے ہیں۔تاہم انہوں نے مزید کہا کہ دیگر مستقبل کی سوچ نہ رکھنے والے رویے کی جانب لوٹ رہے تھے۔

یونی لیور کے سابق چیف پال پولمین نے گزشتہ ہفتے لنکڈن پر لکھا کہ ذمہ دار سرمائے کو اس وقت بہت بڑی آزمائش کا سامناہے۔انہوں نے کہا کہ آج کے چیف ایگزیکٹوز ناگوار انتخاب میں گہرائی تک ملوث ہیں، تاہم سب سے زیادہ متاثرہ بڑی کمپنیوں کو اپنے کمزور کارکنوں کی حفاظت کرنے کے قابل ہونا چاہئے۔

اس بحران نے کمپنیوں کے ردعمل میں واضح اختلافات کو بے نقاب کردیا ہے،جو اکثر ان کی بیلنس شیٹس کی صحت کے ذریعے کارفرما ہوتے ہیں۔

ملبوسات کے خوردہ فروش ایلین فشر اور والٹ ڈزنی تھیم پارکس سے لے کر کیسنو چلانے والے لاس ویگاس سینڈز سمیت متعدد گروپس نے کہا ہے کہ ان کے کاروبار بند ہونے کے باجود وہ ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کرتے رہیں گے۔جبکہ دیگر جیسے ٹریول ٹیکنالوجی کمپنی سیبو نے ملازمین کو تنخواہوں میں کتوتی یا عملے سے بغیر تنخواہ چھٹیاں لینے کا کہا ہے۔

متعدد چیف ایگزیکٹوز نے امریکی حکومت کو یہ بتاتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ان کی عملے کو نکالنے کی اہلیت کا انحصار ملنے والی سرکاری امداد پر ہوگا۔

ڈارڈن ریستوراں کے سی ای او جین لی نے تجزیہ کاروں کو بتایا کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ اور کانگریس کے ساتھ رابطے میں تھے کہ وہ ایسا منصوبہ تیار کرنے کی کوشش کریں کہ جس میں ملازمین کو تنخواہ دینے کیلئے سرکاری رقم استعمال کی جائے گی اور ہمارے 190،000 ٹیم ممبروں کے ساتھ علیحدگی اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

یہاں تک کہ عمومی طور پر حکومت کے ساتھ معاملات طے کرنے میں محتاط رہنے والے امریکی چیمبر آف کامرس نے قرضوں کے ساتھ شرائط منسلک کرنے کی تجویز دی ہے کہ یہ چھوٹے کاروباروں تک توسیع دیکھنا چاہیں گے کہ وہ اپنے ملازمین کو کام میں رکھنے کے لئے فنڈز کا استعمال کریں۔

بحران کا پیمانہ اور رفتار سرکاری امداد کی امید پر کچھ کمپنیوں کیلئے جاری رہنا ناممکن بنارہا ہے۔

جنرل الیکٹرک نے پیر کو کہا کہ وہ ایک ارب سے پانچ سو ملین ڈالر تک لاگت میں بچت کے منصوبے کے تحت اپنے ہوابازی یونٹ کے دس فیصد عملے جو تقریباََ چھبیس سو ملازمتیں بنتی ہیں میں کٹوتی کرے گا۔میریٹ نے خبردار کیا کہ اپنے ہوٹلوں سے وہ سیکڑوں ہزاروں ملازمین کو نکالے گا۔ کووین اینڈ کو کے تجزیہ کاروں نے تجویز دی ہے کہ ایئرلائنز کو نقد رقم کے تحفظ کے لئے اپنے تمام ملازمین کو نکال دینا چاہئے جبکہ ڈیلٹا ایئرلائنز نے دھمکی دی ہے کہ اگر اسے بیل آؤٹ نہیں دیا گیا تو اس کے شیڈول میں کمی کےمطابق تنخواہوں میں کٹوتی کی جائے گی۔

چیلنجر،گرے اور کرسمس کے مطابق تفریح اور انٹرٹینمنٹ میں سب سے زیادہ سب سے شدید مندی رہی ہے۔ایک آؤٹ پلیسمنٹ کمپنی جس نے یہ پایا کہ اس سیکٹر میں نو ہزار ملازمتوں میں کٹوتی کے اعلانات سب سے زیادہ رہے جن کا گزشتہ ہفتے سراغ لگالیا گیا تھا۔

دو ایکسرسائز کمپنیوں فلائی وہیل اور سولڈکور نے عارضی طور پر اپنے اٹھانوے فیصد ملازمین کو نکال دیا ہے،جبکہ کینیڈین سرکس طائفےکرک دو سولے نے کہا کہ ان کے پاس اس طوفان کا سامنا کرنے کے لیے اب تک پچانوے فیصد کم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔

ان کا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ اس بحران نے امریکا کی سب سے بڑی کمپنیوں اور اس کے چھوٹے کاروباروں کے مابین خلیج کو وسیع کردیا ہے۔ڈوئچے بینک کے ماہر معاشیات ٹورسٹن سلوک نے بتایا کہ ایس اینڈ پی فائیو ہنڈرڈ کمپنیوں میں صرف سترہ فیصد امریکی افرادی قوت کام کرتی ہے،اور پولس کا مشورہ ہے کہ چھوٹے آجروں کو عملے رکھنا مشکل تر ہے،اسٹیفل کے کیے گئے مڈ مارکیٹ کے چونسٹھ سی ای او کے ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ اکتیس فیصد پہلے ہی عملے کم کرنے پر عملدرآمد کررہے ہیں۔

امریکا کی چند بڑی کمپنیوں میں تنخواہوں میں اضافے اور بونس کا وعدہ کیا جارہا ہے، ایمیزون نے ایک لاکھ اضافی افراد کی خدمات حاصل کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے،سی وی ایس اور ڈالر جنرل نے پیر کو کہاکہ دونوں پچاس پچاس ہزار عملہ بھرتی کریں گے۔سیون گیارہ نے بیس ہزار افراد کی خدمات حاصل کرنے کا وعدہ کیا ہے اور پیپسیکو چھ ہزار افراد بھرتی کررہا ہے۔

کچھ خوردہ فروش بھی خریداری کرنے والوں میں اضافے سے نمٹنے والے اپنے عملے کی تنخواہ میں اضافہ کررہے ہیں،وال مارٹ نے فی گھنٹہ کام کرنے والے کارکنوں کیلئے ڈیڑھ سو ڈالر اور کل وقتی عملے کیلئے تین سو ڈالر بونس کا وعدہ کیا ہے جبکہ مئی کے آغاز تک فی گھنٹہ دو ڈالر اجرت میں اضافے کاہدف ہے۔

کچھ چھوٹی کمپنیوں کے پاس بحران شروع ہونے سے پہلے جتنا عملہ تھا اسے برقرار رکھنے کیلئے وسائل موجود نہیں ہیں۔ ریسٹورنٹ کے مالک ڈینی میئر جنہوں نے اپنے دوہزار سے زائد عملے میں سے اسی فیصد کو نکال دیا ہے،نے کہاکہ اس وقت کی ضروریات کے ساتھ اپنی کمپنی کے اصولوں کا ہم آہنگ کرنا تقریباََ ناممکن تھا، اور یہ مکمل طور پر دل ہلادینے والا ہے۔