ماہِ صیام اور طبی مسائل...!

April 19, 2020

اسلام دینِ فطرت ہے،جس پر عمل پیرا ہونے اور حدود و قیود کی پابندی کرنے سے مسلمان اُس منزل کو پا سکتا ہے، جو فرشتوں کے مقام و مرتبہ سے بھی بُلند و بالا ہے۔ انسانیت کی معراج کا حصول محبّت و اطاعت ِالٰہی اور اتباعِ سنّتِ نبویﷺ ہی میں ہے،جب کہ فرائض و عبادات میں رمضان المبارک کی اہمیت ایک خاص شان رکھتی ہے کہ اس ماہِ مبارکہ میںرحمتوں، برکتوں اور عنایتوں کا نزول ہمہ وقت جاری رہتا ہے۔اسی لیے ہر مریض اورتوانا کی دِلی خواہش ہوتی ہے کہ روزہ رکھ کر اس کی جزا پاسکیں۔رمضان سے متعلق تمام احکامات اصلاً تو اُن افرادکے لیے ہیں، جو صحت مند ہوں،کیوں کہ مریضوں کو ایک حد تک رخصت دی گئی ہے۔تاہم،بعض ایسے عوارض بھی ہیں،جن میں مبتلا مریض معالج کی ہدایت پر عمل اور احتیاطی تدابیر اختیار کرکے ماہِ رمضان کے فیوض و برکات سے جی بَھر کر مستفیض ہوسکتے ہیں۔یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ایسی معمولی نوعیت کی بیماریاں ،جن سے مریض کی جان کو کوئی خطرہ نہ ہو، لاحق ہونے کی صُورت میں تو روزہ رکھا جاسکتا ہے۔تاہم، وہ مرض جس میں روزہ رکھنے سے جسم کے کسی ایسےعضوکےخراب یا ضایع ہونےکااندیشہ ہو،جو بقائے حیات (Vital Organs) کے لیے ضروری ہیں، جیسےگُردے، دِل، دماغ یا پھیپھڑے و غیرہ تو روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔

روزے کا فدیہ اِسی صُورت دیا جائے، جب مرض سے مکمل صحت یابی کا امکان بہت کم ہو ،جیسے دائمی امراض یا سرطان وغیرہ۔ اگر مریض کسی عارضی بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے تو بعد میں قضاروزے ضرور رکھے۔ بعض اوقات دائمی مرض سے بھی شفا مل جاتی ہے، توایسی صورت میں بھی قضا روزے رکھنا ضروری ہیں، اگرچہ فدیہ بھی دے دیا گیاہو۔اسی طرح اگر مرض ایسا ہے، جس میں دوالینے کے اوقات تبدیل کرنا ممکن ہوں، یعنی سحر اور افطار کے اوقات میں دواتجویز کی جاسکتی ہو اور مریض پر مضر اثرات بھی مرتّب نہ ہوں، تب بھی روزہ رکھا جاسکتا ہے۔

علاوہ ازیں، وہ بیمار جو رُوبصحت ہوں ،لیکن روزہ رکھنے سے صحت دوبارہ خراب ہونے کا قوی امکان ہو، تو بہتر ہے کہ روزہ نہ رکھیںاور مکمل صحت یاب ہونے کے بعد قضا روزے رکھ لیں۔جب کہ بیماری یا سفر کی وجہ سے کوئی فرد اگر روزہ نہ رکھ سکتا ہو، تو اس کے لیے رمضان کے تقدّس کو ملحوظ رکھنا لازم ہےکہ سرِعام کھانے پینے سے اجتناب برتا جائے۔نیز،درد کی شدّت میں بھی روزہ قضا کیاجاسکتاہے،لیکن اس کاتعین مریض خودکرے گا کہ درد کی شدّت کتنی ہے۔فقہاءکی عمومی رائے کے مطابق روزےدار کے آنکھ یا کان میں دوا ڈالنےسے روزہ نہیں ٹوٹتا،البتہ ناک میں دوا ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔تاہم،کان کے اندرونی پردے (Tympanic Membrane) کے صحیح،سالم ہونے کا سوفی صد یقین ہو تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔البتہ شک کی صُورت میں بہتر یہی ہے کہ ناک کان اور گلےکےماہر معالج سے تصدیق کروالی جائے۔روزے کی حالت میںدانت نکلوانے سے گریز کریں،کیوں کہ دانت نکلوانے کے لیے عام طور پر لوکل اینتھیزیا اور پانی کا استعمال کیا جاتا ہے۔اگر پانی حلق میں چلا جائے،تو روزہ ٹوٹ سکتا ہے۔

تاہم، ایمرجینسی میں افطار سے قبل دانت نکلوایا جاسکتا ہے۔ انجیکشن خواہ جِلد میں لگایا جائے یا نَس میں،اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا،کیوں کہ روزہ ٹوٹنے کے لیے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ کوئی چیز جسم میں Natural Orifices کے ذریعے داخل نہ ہو۔ مثلاً منہ، ناک یا مقعد کے ذریعے۔ غیر مقعد راستے سے کسی چیز کے جسم میں داخل ہونے سے اصولاً روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ اگر کوئی مریض بھوک ،پیاس کی شدّت ختم کرنے کے لیے انجیکشن یا ڈرپ لگواتا ہے، تو یہ روزے کی روح کے خلاف ہے ، لیکن اگر درد یا بخار سے نجات کے لیے لگوائیں، تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ البتہ درد وغیرہ میں انجیکشن کا استعمال کرنا یا نہ کرنا مریض کے اپنے تقویٰ پر بھی موقوف ہے۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ درد افطاری تک قابلِ برداشت ہے اور اجازت کے باوجود انجیکشن نہیں لگواتا ،تو اللہ اُسے یہ تکلیف برداشت کرنے کا اجر عطافرمائے گا۔

آپریشنز کے حوالے سےفقہاءکا کہنا ہے کہ ایسے تمام آپریشنز ،جن میں لوکل اینتھیزیا دیا جائے، جیسےآنکھ یا جسم پر معمولی زخم یا پھوڑے وغیرہ کی سرجری ،تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔جب کہ جوآپریشن دورانِ روزہ ہنگامی صُورت میں کروانا پڑجائے،جیسےاپنڈیکس، کسی فریکچر وغیرہ کی سرجری، تو کروایا جاسکتا ہے،البتہ الیکیٹیو سرجری یعنی ایسا آپریشن،جو کچھ عرصے تک نہ کروایاجائے، تو مریض کی جان کوکوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا،بہتر ہوگا کہ ماہِ صیام کے بعد کروالیں۔ لیکن اگرکوئی مریض ماہِ صیام میں اس نیت سےآپریشن کرواتا ہے کہ اس طرح روزے نہیں رکھنے پڑیں گے، تو یہ روزے جیسی اہم عبادت کے بارے میں ایک بہت غیر محتاط اور ناروا رویّہ ہوگا۔

حاملہ خواتین کی بات کریں، تواگر حاملہ روزہ رکھنے سے تکلیف کی شدّت محسوس کرتی ہو یا حمل کی وجہ سے اپنی کسی موجودہ بیماری سے واقف نہ ہو یا روزےکی وجہ سے دورانِ حمل پیدا ہونے والے متوقع مضراثرات سے لا علم ہو، لیکن ڈاکٹر کو یہ علم ہو کہ روزہ رکھنے سے خاتون یا شکم میں پلنے والا بچّہ کسی طبّی مسئلے سے دوچار ہوسکتا ہے، تو بہتر یہی ہے کہ بعد میں قضاروزے رکھ لیے جائیں۔ اِسی طرح دودھ پلانے والی مائیں بھی معالج کی ہدایت پر عمل کریں۔اگر معالج روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دے،توبعد میں قضا روزے رکھ کر تعداد پوری کرنا فرض ہوگا۔

عارضۂ دَمہ کے وہ مریض، جنہیں سانس کی تکلیف کبھی کبھار ہوتی ہو، جو وقتی طور پر دوا کے استعمال سے ٹھیک ہو جاتے ہوں اور پھر کئی کئی دِن یا ہفتے دوا کی ضرورت پیش نہ آئے، روزہ رکھ سکتے ہیں۔ البتہ جو روزانہ ادویہ اور اِن ہیلر کا استعمال کرتے ہوں اور مرض سے شفا کے امکان بھی کم ہی ہوں تو بہتر ہے کہ بروقت فدیہ ادا کردیں۔ نیز، کرونک آبسٹریکٹیوپلمونری ڈیزیز(Chronic Obstructive Pulmonary Disease)کے مریض جنہیں سینے کی تکلیف اتنی زیادہ ہو کہ سانس مسلسل خراب رہتا ہو اور ادویہ کے بغیر گزارہ ممکن نہ ہو ، اپنی صحت کے پیشِ نظرروزے نہ رکھیں،توبہتر ہے۔

اصل میں اِن ہیلر کے ذریعے بالعموم دوا کا زیادہ حصّہ سانس کی نالی کے ذریعے پھیپھڑوں میں داخل ہو جاتا ہے اور عمومی طور پر دوا حلق سے ہوکرمعدے میں پہنچ جاتی ہے، جو روزہ ٹوٹنے کی وجہ بن سکتی ہے۔ یہی معاملہ نبیولائزر کابھی ہے،جس کے استعمال سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔البتہ بعض علماء کی رائے روزہ نہ ٹوٹنے کی بھی ہے۔اگر مرض اتنا شدید ہو کہ دورانِ روزہ بھی اِن ہیلر کا استعمال ناگزیر ہو، تو بہتر یہی ہے کہ بعد میں قضا روزے مکمل کر لیے جائیں یا پھردائمی مرض کی صُورت میں فدیہ ادا کردیا جائے۔

دورانِ روزہ، ایک صحت مندد فرد کے گُردے، خون کی صفائی کے لیے جسم میں موجود پانی پر انحصار کرتے ہیں، لہٰذاگُردے کے عارضے میں مبتلا مریضوں کے لیےبہتر یہی ہے کہ اپنے معالج سے مشورہ کرلیں۔اگر معالج، مرض کی نوعیت دیکھتے ہوئے اجازت دیتا ہے، تو احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے روزہ رکھ لیں،مگر نوعیت شدید ہونے کی صورت میںروزے کی قضا ہی بہتر ہے۔تاہم، گُردے کی پتھری کے وہ مریض، جو پانی نہ پینے کی وجہ سے شدیددرد میں مبتلا ہوسکتے ہیں، تو جب موسم سرد ہو اور دِن چھوٹے ہوں ، قضا روزے رکھ لیں۔اسی طرح ایکیوٹ ہیپاٹائٹس سے متاثرہ مریض چاہے اس کی وجہ کوئی وائرس مثلاً بی، سی یا ای ہو یا پھر ادویہ کے مضر اثرات نمایاں ہوں، دونوں ہی صُورتوں میں ان کے لیےماہِ صیام کے ابتدائی چند دِن یا ہفتہ روزہ نہ رکھنے کی گنجایش ہوتی ہے، کیوں کہ عمومی طور پر ان دِنوں میں مریضوں کو کھانے میں میٹھی اشیا(گلوکوز وغیرہ) کا استعمال زیادہ کرنا پڑتا ہے اور اگر زیادہ دیر تک کھانا نہ کھائیں، تو خون میں شکر کی کمی واقع ہو سکتی ہے، جو صحت کے لیے خطرناک ہے۔البتہ دائمی ہیپاٹائٹس کے مریض،جو بی قسم یا سی میں مبتلا ہوں،روزہ رکھ سکتے ہیں،جب کہ یرقان کے ایسے مریض جن کا وزن زائد ہو ،تو روزے سے ان کی صحت پر مفید اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔البتہ جو مرض کی کسی پیچیدگی کا شکار ہوں،جیسے پیٹ میں پانی بَھرجانا (Ascites) یا جگر کی بیماری کی وجہ سے نیم بے ہوشی (Hepatic Encephalopathy) کی کیفیت طاری ہونا،تو فدیہ دینا ہی زیادہ بہتر ہے۔

ذیابطیس کا عارضہ بہت عام ہے،اسی لیے ماہرین نے علامات کی مناسبت سے ان کی درجہ بندی کی ہے، جس کے مطابق وہ تمام مریض جو انسولین استعمال کرتے ہیں ،ان کے لیے عمومی طور پر روزہ نہ رکھنا ہی بہترہے،کیوں کہ اس بات کا امکان کم ہوتا ہے کہ مریض اتنا ٹھیک ہو جائے کہ اسے انسولین کی ضرورت بھی نہ رہے اور روزہ رکھنے کے قابل بھی ہو جائے۔البتہ ایسے تمام مریض جن کا مرض افطار میں ایک انجیکشن لگانے سے کنٹرول ہو سکتا ہو، تومعالج کے مشورے سے روزہ رکھ سکتے ہیں، تاہم، وہ خون میںشکر کی سطح کم ہونے کی تمام علامات سے آگاہ ہوں،تاکہ ہائپو کے خطرے سے محفوظ رہا جاسکے ۔عام طور پر خون میں شکرکی علامات میں دِل کی دھڑکن تیز ہو جانا، ٹھنڈے پسینے آنا، زیادہ بھوک لگنا اور میٹھی چیز کھانے کی فوری خواہش پیدا ہونا، ذہنی حالت کا متغیر ہونا اور بے ہوشی طاری ہونا شامل ہیں۔

آخر الذکر ،دو علامات مریض خود نہیں ،بلکہ دیگر افرادہی دیکھ پاتے ہیں،لہٰذا اس صُورت میں آس پاس موجودافراد مریض کو روزے کی حالت ہی میں کوئی میٹھی شےکھلاکر قریبی اسپتال لے جائیں۔ بعدازاں، قضا روزہ رکھ لیے جائیں۔ذیابطیس میں مبتلا وہ مریض جوادویہ استعمال کرتے ہیں، معالج کے مشورے ہی سے روزہ رکھیں،تاکہ سحر و افطار کی مناسبت سے ادویہ تجویز کی جاسکیں۔ علاوہ ازیں، ذیا بطیس کے مریض دورانِ روزہ خاص طور پر اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی میٹھی شے مثلاً چینی، ٹافیاں وغیرہ ضرور رکھیں، تاکہ کسی بھی ہنگامی صورت میں ان کا استعمال کیا جاسکے۔ نیز، اپنے ساتھ ایک کارڈ رکھیں ، جس میںمرض کی نوعیت اور دیگر معلومات درج ہوں، تاکہ بے ہوشی کی صورت میں فوری ابتدائی طبّی امداد فراہم کی جاسکے۔یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ ذیابطیس کے نیم بے ہوش مریضوںکے خون میں شکر کم یا زیادہ ہو سکتی ہے، لیکن اصول یہ ہے کہ اگر کمی یا زیادتی کا فیصلہ کرنے میں شک ہو، تو انتظار کیے بغیر مریض کو روزے کی حالت ہی میں فوری طور پر چینی دی جائے،کیوں کہ ایسا نہ کرنے سے مریض کو زیادہ خطرہ ہوگا اور اگر مریض کا شوگر لیول کم ہے، تو یہ موت کا سبب بن سکتا ہے۔

لیکن اگر مریض کا شوگر لیول زیادہ ہے، تو میٹھی شے کھلانے کے باعث وقتی طور پر شوگر کی زیادتی زندگی کے لیے خطرے کا سبب نہیں بنتی۔طبّی ماہرین کے مطابق روزے کی بدولت معدے سے نکلنے والی رطوبتیں متوازن ہوجاتی ہیں، جس کے باعث تیزابیت نہیں بڑھتی اور معدہ اپنے افعال زیادہ بہتر طریقے سے سرانجام دیتا ہے۔تاہم،وہ افراد، جو معدے کے السر میں مبتلا ہیں، روزہ رکھنے سے قبل اپنے معالج سے مشورہ ضرور کریں۔ویسے بھی معدے کی تیزابیت کم کرنے اور السر کے علاج کےلیے کئی مؤثر ادویہ دستیاب ہیں،جن کا اثر چند گھنٹوں سے لے کر ایک یا دودِن (24سے 48گھنٹے) تک رہتا ہے اور مریض کسی تکلیف سے دوچار ہوئے بغیر روزہ رکھ سکتا ہے۔البتہ "Zolinger Ellison Syndrome" سے متاثرہ مریض روزہ نہ رکھیں،توبہتر ہے۔

عارضۂ قلب میں مبتلا مریضوں کی بات کی جائے تو"Congestive Heart Failure" ایک ایسا مرض ہے، جس میں دِل اپنی پوری قوّت سے خون پمپ نہیں کرسکتا اور دِل کاحجم بڑھ جاتا ہے، جس کے نتیجے میں مریض کو سانس لینے میںسخت ،دشواری ہوتی ہے،سانس بھی جلد پُھول جاتا ہے اور پاؤں بھی متورم ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات اس مرض کی شدّت کم ہوتی ہے اور صبح شام دوا کے استعمال سے مریض ٹھیک رہتا ہے ،اس صُورت میں روزہ رکھا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر وہ محسوس کریں کہ سانس کی تکلیف زیادہ ہے، تو پھر روزہ رکھنے سے اجتنا ب برتیں۔کیوں کہ شدّت کی صُورت میں نہ صرف معمولی کام کرنے سے، بلکہ بعض اوقات بیٹھے بیٹھے یا لیٹنے سے بھی سانس کی تکلیف ہوتی ہے۔ ایسے مریضوں کو دیگر ادویہ کے ساتھ اکثر پیشاب آور ادویہ بھی استعمال کرنا پڑتی ہیں ،جس کی وجہ سے پیاس بھی زیادہ لگتی ہے۔ تاہم،چند صُورتیں ایسی بھی ہیں، جن میں مکمل صحت یا بی کا امکان نسبتاً کم ہوتا ہے مثلاً "Cardiomyopathy" ۔ ایسے مریضوں کے لیے فدیہ دینا ہی بہتر ہے۔

دِل کی ایک اور بیماری، جسے طبّی اصطلاح میںانجائناکہتے ہیں،اس کے شکار مریض اگر درد رفع کرنے کے لیے دِن میں بھی دوا استعمال کررہے ہیں، تو روزہ نہ رکھیں،کیوں کہ دِل کی تکلیف خطرناک صُورت بھی اختیار کرسکتی ہے۔ ایسے مریضوں کو اکثر اوقات ادویہ کے استعمال سے افاقہ ہو جاتا ہے اور یہ بعد میں قضاروزے رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ بصورتِ دیگر فدیہ ادا کرسکتے ہیں۔گھبراہٹ ،اینزائٹی ،ڈیپریشن اور مرگی میں مبتلا مریض اپنے معالج کے مشورے سے روزہ رکھیں۔آج کل کورونا وائرس کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔یہ جان لیوا بیماری ہے۔ اس کی علامات میں تیز بخار، شدید کھانسی اور سانس لینے میں دشواری شامل ہیں۔ ان تمام صورتوں میں روزہ نہ رکھنے کی گنجایش موجود ہےاور بعد میں قضا روزے رکھے جا سکتے ہیں۔ اگر کورونا کا ٹیسٹ مثبت ہو، تو یہ ایک یقینی عذرِ شرعی ہے، لہٰذا مکمل صحت یابی تک روزے نہ رکھےجائیں۔

عمومی طور پرمریض سحری میں متوازن غذا استعمال کریں اور افطاری میں دیر نہ کریں۔ جہاں تک نیند کی بے قاعدگی کا تعلق ہے، مریضوں کو رمضان میں سونے کے لیے نئے معمول پر عمل کی ہدایت کی جاسکتی ہے۔ جیسے تراویح کے فوراً بعد سوجانا اور سحری کے بعد نہ سونا، اس ہدایت پر عمل کرنے سے عبادت کے لیے بھی اچھا خاصا وقت مل سکتا ہے۔ان عوارض میں مبتلا اکثر مریض بغیر کسی مسئلے کے روزہ رکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ تاہم،ا دویہ کی مقدار اور دوا استعمال کرنےکے اوقات کا خیال رکھنا اور اگر ضرورت پڑے توانہیں ازسرِنو متعین کرنا ضروری ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ بعض مریض اپنی بیماری یا علاج کی ضرورت کی وجہ سے روزہ رکھنے پر قادر نہیں ہوتے، تا ہم جہاں تک ممکن ہو، روزہ رکھنے کی خواہش کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ،کیوں کہ روزہ انہیں اپنی خودی ، روزمرّہ معمولات پر دسترس اور دینی فرائض کی ادائیگی کے قابل ہونے کی وجہ سے ایک عظیم مسلم امہّ کا حصّہ ہونے کا احساس دلائے گا، جو ان کی جسمانی اور نفسیاتی صحت کے لیے بھی بہت فائدہ مند ثابت ہوگا۔

(مضمون نگار پروفیسر آف میڈیسن ہیں اور اس وقت پشاور میڈیکل کالج میں بطور ڈین خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن(پیما) کی سینٹرل ایگزیکٹو کاؤنسل کے رکن ہیں اور پیما ،خیبر پختون خوا کے صدر بھی رہ چُکے ہیں)