درخت آدمی ہیں (قسط نمبر4)

April 26, 2020

پودوں، درختوں، جنگلوں کی رومانی اور روح پرور کائنات

خلیل جبران نے کہا تھا ’’درخت وہ نظمیں ہیں، جو زمین آسمان پر لکھتی ہے‘‘ اور جرمن ادیب و فلسفی، ہرمن ہیسے کا کہنا ہے ’’درخت پناہ گاہیں ہیں۔ جب ہم درختوں کی زبان سُننا سیکھ جاتے ہیں تو وہی ہمارا گھر ہوتے ہیں اور وہیں ہمیں خوشی ملتی ہے۔‘‘ درختوں کی عاشقِ صادق، فیوناسٹیفورڈ تویقین سےکہتی ہے ’’درخت انسان کے سارے حواس کو متاثر کرتے ہیں۔ تازہ مہک ، پتّوں کی سرسراہٹ، پرندوں کی نغمگیں چہکار، چھال کے دل کش نقش ونگار اور جنگلوں کی پراسراریت انسان کے پورے وجود میں سما جاتے ہیں۔‘‘ درخت سے اپنے پورے وجود سے محبّت کرنے کی ایک کہانی انیسویں صدی کے اوائل میں جارجیا میں سامنے آئی۔ کرنل ولیم جیکسن جارجیا کے پہاڑی علاقے ایتھنز کی یونی ورسٹی آف جارجیا میں پروفیسر تھا۔ اُس کے گھر کے قریب بلوط کا ایک درخت تھا۔ پروفیسر کو اس درخت سے اتنا لگاؤ ہوگیا کہ اُس کے دل میں خوف جاگزیں ہوگیا کہ کبھی کوئی اس درخت کو کاٹ نہ دے۔ اُس نے اس درخت کے اردگرد آٹھ آٹھ فٹ کی جگہ خریدی اور سرکاری کاغذات میں اُس کی ملکیت باقاعدہ درخت کو دے دی۔

چناں چہ اُس جگہ کا مالک درخت ہوگیا۔ درخت کے چاروں طرف حفاظتی زنجیریں لگا دی گئیں اور اس کے قدموں میں پروفیسر نے تختی لگادی، جس پر لکھا ہے ’’اس درخت کی حفاظت کے پیش نظر میں اِس کی اپنی اور چاروں اطراف پرآٹھ فٹ کی جگہ کی ملکیت اِس درخت کو سونپتا ہوں۔‘‘ آج بھی پہاڑی کی چوٹی پر وہ مقام اہلِ دل کے لیے خصوصی کشش رکھتاہے۔ درختوں کا عالمی دن بھی ایک صاحب ِ دل کی وجہ سے منایا جاتا ہے۔ جولیس اسٹرلنگ ایک اخبار کا مدیر تھا۔1855 میں اس نے امریکا میں نیبراسکا میں ایک سادہ سا چار کمروں کا گھر بنانا شروع کیا۔ وہ گھر کو پھیلاتا اور بڑھاتا گیا۔ یہاں تک کہ وہ باون کمروں پر مشتمل وائٹ ہاؤس نُما شان دار حویلی کی شکل اختیار کرگیا۔

اُس نے بہت لگن اور شوق سے اپنا گھر تو مکمل کرلیا، مگر اُسے کسی کمی کا احساس مسلسل پریشان کرتا رہا۔ آخر کار اُس نے اُس کمی کی وجہ پالی۔ درحقیقت وہ علاقہ درختوں سے محروم، گھاس کا وسیع خطّہ تھا، جس پر ویرانے کا گمان ہوتا۔ اُس نے مجنونانہ طور پر وہاں بےشمار درخت لگانے شروع کردیے۔ ابتدا میں وہ تنہا ہی اس کام میں جُتا رہا۔ ایک روز اُسے ایک خیال آیا۔ اُس نے اپنے اخبار کے ذریعے لوگوں کو تجویز پیش کی کہ کسی بھی دن تعطیل کا اعلان کردیا جائے اوراس علاقے کے تمام باشندے اُس روز درخت لگائیں۔ ریاستی زرعی بورڈ کو یہ تجویز پسند آئی اور10 اپریل 1872کو ایک ہی دن میں نیبراسکا کے باشندوں نے دس لاکھ سے زیادہ درخت لگائے۔ یہ تجربہ اتنا کام یاب رہا کہ 1885میں ’’آربرڈے‘‘ کو (آربر لاطینی زبان میں درخت کو کہتے ہیں) قانونی طور پر تعطیل قرار دے دیا گیا اور اس کی تاریخ 26 اپریل مقرر کی گئی، جو جولیس کی سال گرہ کا دن تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ روایت پوری دنیا میں پھیل گئی اور آج دنیا ایک اخباری مدیر کی سال گرہ کے روز درخت لگا کر یہ دن مناتی ہے۔

پاک وہند پر توجّہ مرکوز کی جائے تو معلوماتی، تحقیقی اور غورطلب عمومی دل چسپی کےحقائق کاتذکرہ کرنےسے پہلے تین واقعات۔ بھارت میں یادو پائنگ ایک ہیرو کا درجہ رکھتا ہے۔ وہ ایک عام آدمی تھا مگر اپنی قوتِ ارادی اور جہدِ مسلسل سے اُس نے تنِ تنہا وہ کارنامہ سرانجام دے دیا جو شاید کئی حکومتی ادارے مل کربھی نہ دے پاتے۔ وہ شمالی ہندوستان کے دریائے برہم پُترا میں واقع جزیرئہ ماجولی کاباسی ہے۔ اس جزیرے کی آبادی ڈیڑھ لاکھ نفوس پرمشتمل ہے۔1917 سے وہ جزیرہ دریا کے تیز پانی کی وجہ سے اپنی آدھی زمین دریا برُد کر بیٹھا تھا۔ وہی صورتِ حال رہتی اور زمین اس تیزی سے پانی کے سامنے کٹاؤ کا شکار رہتی تو جزیرہ صفحۂ ہستی سے مٹ جاتا۔ مقامی لوگ مایوسی سے جزیرے کو پانی میں گُھلتا دیکھ رہے تھے۔ ان دیکھنے والوں میں یادو بھی شامل تھا۔

اس نے1979میں وہاں درخت لگانے شروع کیے۔ درختوں کی جڑوں نے زمین کو تھامنا شروع کیا اور زمین جمنا شروع ہوگئی۔ پہلے ہی برس اس نے سیکڑوں درخت لگائے۔ نتیجتاًنہ صرف وہاں کٹاؤ تھم گیا بلکہ جنگلی حیات میں بھی خاطرخواہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اب تک وہ وہاں بے شمار درخت لگاچُکا ہے۔ مقامی لوگ بھی اُس کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ جزیرہ نہ صرف قائم دائم ہے بلکہ ایک خُوش نما گھنے جنگل کی صُورت اختیار کرگیا ہے۔ اس جنگل کا حجم نیویارک کے سینٹرل پارک کے چارمربع کلومیٹر سے زیادہ ہے اور وہاں کئی جان وَر قدرتی ماحول میں مزے سے پِھرتے ہیں۔ یہ 1898کے برطانوی راج کاواقعہ ہے۔ درہ خیبر کی فوجی چھاؤنی کے میس میں جیمزاسکوئڈ نامی افسر ٹھیراہواتھا۔ چھاؤنی کی بغل سے افغانستان کی حدود شروع ہوجاتی تھیں۔

گویا یہ برطانوی ہند کا آخری کنارا تھا۔ ایک روز اُس نے سرشام ہی شراب پینی شروع کردی اور رات تک نشے میں ڈوبا میس کے باغ میں نکل آیا۔ وہاں ایک برگد کا درخت لگا ہوا تھا۔ اُسے محسوس ہوا کہ وہ جہاں بھی جاتا ہے، درخت اُس کی جانب چلا آتا ہے۔ اُس نے فوجی اہل کاروں کو حُکم دیا کہ وہ درخت کو زنجیروں میں جکڑ کر گرفتار کرلیں۔ حکم کی تعمیل میں درخت پر زنجیریں ڈال دی گئیں۔ آج اس واقعے کو قریباً سوا سو برس ہو چلے ہیں، مگر برگد کا وہ درخت آج بھی درئہ خیبر کے فوجی میس کے باغ میں حلقۂ زنجیرمیں ہے۔ تقسیمِ برصغیرکے بعد اُسے ایک یادگار کے طور پرزنجیروں میں رکھا گیا ہے۔ چند لوگوں کا خیال ہے کہ برطانوی فوجی افسر نے نشے کے بہانے سے درخت کو پابند ِزنجیر کر کے مقامی لوگوں کو پیغام دیا تھا کہ اگر وہ برطانوی استعمار کے تابع نہیں رہیں گے تو انھیں بھی ایسی ہی سزا دی جائے گی۔ بعد میں اس فوجی میس میں بےشمار عمائدِ مملکت اور غیر ملکی مہمان آکر ٹھیرتے رہے ہیں، جن میں لیڈی ڈیانا نے بھی وہاں ایک رات قیام کیا تھا۔ وہ سب اس درخت میں خاص دل چسپی لیتے رہے ہیں۔

ماضی قریب ہی میں پاکستان میں ایک اوردل چسپ واقعہ ہواجسے بین الاقوامی سطح پر خاصی شہرت حاصل ہوئی، لیکن ملکی ذرائع ابلاغ میں اس کا سرسری تذکرہ ہوا۔ جولائی 2010 میں سندھ اور جنوبی پنجاب میں طوفانی بارشوں نے نظامِ زندگی تہ وبالا کردیا۔ برطانیہ کا ادارہ برائے قدرتی آفات دنیا بھر میں زلزلوں، طوفانوں اورسیلابوں میں گِھرے ترقی پذیر ممالک کے ضرورت مند لوگوں کی امداد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ اُس کی رپورٹ کے مطابق ان طوفانی بارشوں اورسیلاب کی وجہ سےقریباً دو کروڑ افراد متاثر ہوئے۔ ایک ہفتے میں دس سال کے برابر مینہ برس گیا۔ بارشیں تھم گئیں توپانی کی سطح نیچے آنا شروع ہوئی۔

قریباً چار ماہ کی مدّت میں پانی کی سطح اس حد تک بیٹھی کہ دلدلیں اور کیچڑ آلود زمین نظر آنا شروع ہوئی۔ پانی چڑھا ہوا تھا تو لاکھوں مکڑیاں خشکی کی تلاش میں درختوں کی بلند چھتریوں پر براجمان ہوگئیں۔ وہاں انھوں نے مکڑی جال بننے کا کام جاری رکھا۔ پانی کی سطح زمین تک اُتری تو ایک عجیب نظارہ سامنے آیا۔ ہفتوں، مہینوں پرمحیط مدّت کے دوران مکڑیوں نے اپناجال بُننےکا عمل اَن تھک طور پر جاری رکھا تھا۔ نتیجتاًدرختوں کی شاخیں، ڈالیاں اور پتّے پوری طرح مکڑی جال میں گِھرے ہوئے تھے۔ اس مقام کے درخت دُور سے یوں نظر آرہے تھے، جیسے کپاس کی ڈنڈیوں پرسفید پھولوں کے ریشوں کے گُچّھے رکھے ہوں۔ ماہرین کے مطابق ایسے غیرمعمولی واقعات خال خال ہی وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ماہرینِ صحت کے مطابق ان ریشوں کے گُچّھوں کی وجہ سے بارش کے رُکے ہوئے پانی پرمعمول سے بہت کم مچھروں کی افزایش ہوئی تھی۔

اگر مچھرمعمول کے مطابق پیدا ہوتے تو بیماریوں کا سبب بنتے۔ درحقیقت یہ گُچّھے مچھروں کو اپنی جانب متوجّہ کرنےکاباعث بنے تھے اور اُن کی کثیر تعداد اِن میں جا آباد ہوئی تھی۔ یہ کثرت مقامی لوگوں کو کاٹنے اور پریشان کرنے کا باعث نہ بنی تھی۔ ریشوں کے یہ گُچّھے مچھروں کے مسکن بن گئے تھے اور اُن کی تیز افزایش تھم گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے وطن کے پھلوں میں ذائقہ ہوتا ہے اور پھول مہک آور ہوتے ہیں، یہ بات بالکل درست ہے۔ ہماری مٹی سے مینہ برسنے کے بعد کی سوندھی خوشبو اور درختوں کے کٹنے کے بعد اُن سے آتی زندگی آمیز مہک بھی غیر زمینوں پر نایاب ہے۔ اس مٹی سےپُھوٹنے والے زیادہ معروف درخت املتاس، جسے ’’اُمید کا پھول‘‘ بھی کہا جاتا ہے، کیکرجو ’’دُکھ سُکھ کاساتھی‘‘ کہلاتا ہے، ریشمی لچّھوں سے سجا سُنبل، اعتماد سے کھڑا سفیدا، کشادہ چہرے جیسے پتوں والا پیپل، مسواک کا مآخذ نیم، لوک گیتوں میں بارہا آنے والا بیر، میٹھے، راحت پہنچاتےپھل والا شہتوت، میدانوں میں باافراط شناسا کنیر، منفرد ذائقےوالا کچنار، ’’باغوں کا محافظ‘‘ ارجن، بھاری بھرکم، دانش مند بزرگ جیسا ’’برگد‘‘ اور دیگر کئی زیادہ تر میدانوں کے درخت ہیں۔ پہاڑی علاقوں، سمندری ساحلوں، دریا کنارے جنگل بیلے، چولستان کے صحراؤں، پوٹھوہار کی سُرخ پہاڑیوں اور زیارت کے خوش نُما جنگلات کے لاتعداد قسموں کے درخت ان کے علاوہ ہیں۔

پاک وہند میں نباتات کی تاریخ دیکھی جائے تو یہ حقیقت سامنےآتی ہےکہ موہن جو دڑو کی تہذیب کے اثرات بھارتی گجرات تک جاتے تھے۔ راجستھان سے لےکرموہن جودڑو کے تہذیبی اثرات والے علاقوں میں چند ہزار برس پہلے تک لامتناہی دلدلی سلسلے تھے، جن میں نرسل اُگتی تھی۔ اُن کےقرب و جوار کےجنگلات میں گینڈے اورمگرمچھ ہوتے تھے، جن کے نشان اُس دور کی مُہروں پر بھی ملتے ہیں۔ اُس دَور کے درختوں کو کاٹنے کے لیے کانسی اور چقماق کی کلہاڑیاں استعمال ہوتی تھیں کہ لوہا تب تک استعمال میں نہ آیا تھا۔ اس تہذیب کےخاتمے کے بعد آریائی نسل کے لوگ اس خطّے میں آئے۔ اُن کی آمد دو ہزار برس قبل مسیح معلوم ہوتی ہے۔ انھی لوگوں نے کلہاڑیوں اور کھیتی باڑی کے ہل کے لیے اس خطّے میں لوہا متعارف کروایا۔ اُس دَور کے بعد آنے والے چینی مسافروں اور تاجروں کے بیان کردہ احوال سےسامنےآتا ہےکہ 326 قبل مسیح میں سکندر اعظم کی آمد تک دریائے سندھ کے اِردگرد طول و عرض میں اتنے گھنے جنگلات موجود تھے، جن میں انسانوں کاجانا بےحد دشوار تھا۔ کوٹلیا کے دَور میں درختوں اور جنگلوں کی حفاظت، پودوں کی نئی اقسام کے اُگانے اورجنگلی حیات کے تحفظ کو اہمیت دی جانےلگی تھی۔

اشوکِ اعظم کے دَور میں یعنی قریباً 232قبل مسیح میں اُس دُوراندیش بادشاہ نے جنگلوں میں راہ گزر بنوا کر اُن کے ساتھ دو رویہ درخت اُگانے کا حکم جاری کیا تھا اور طبّی فوائد والے پودے کثرت سے لگوائے تھے۔ شیرشاہ سوری نے دلّی سے پٹنہ کی شاہ راہ کے ساتھ قطاردر قطار درخت لگوائے اور مغل شہنشاہوں نے شان دار اور دل کش باغات ترتیب دیے۔ کشمیر کی علامت، چنار کا درخت اس وادی میں پہلی مرتبہ بادشاہ جہاںگیر لے کر آیا تھا۔ اس سے پہلے کشمیر میں چنار کا نام ونشان نہ تھا۔ آئین اکبری میں مرقوم ہے کہ اِندور تک پھیلےجنگلوں کے سلسلے میں ہاتھی آزادانہ پِھرتے تھے۔ صرف ایک صدی بعد اورنگ زیب نے وہاں فقط جھاڑیاں اور جھاڑ جھنکاڑ پائی تھی۔ مرہٹوں نے اپنی فوجوں کی روایتی گزرگاہوں اور قیام گاہوں پر شیریں اور خوشبودار آموں کے باغ لگوائے تھے۔ پاکستان کے گھنے جنگلات میں وہ مختلف الجثّہ اور رنگ رنگ کےجان وَر رہتےتھے، جن کی نسلیں تک دنیا میں ختم ہو چُکی ہیں۔ ہڑپہ کی تہذیب کی علامت، اُن کی مُہروں پر، سَر پہ ایک وسطی سینگ والا گینڈا بڑی تعداد میں ان جنگلات میں پایا جاتا تھا۔

پاک وہند کے قدیم ادب میں نہ صرف پودوں اوردرختوں کاکثرت سے تذکرہ موجود ہے بلکہ اِنھیں خاص تقدّس بھی حاصل تھا۔ یہاں کے مختلف علاقوں میں بسنے والی اقوام کے عالم، حکیم اور دانش ور آپس میں رابطے میں رہتے تھے اور ایک دوسرے سے دیگر علوم کے علاوہ درختوں اور پودوں کے شفائیہ خواص کے بارے میں سیکھتے بھی رہتے۔ خواتین ماہرین فنون و علوم جیسا کہ میتاراج اورگارجی نے بھی طبّی فوائد والی جَڑی بوٹیوں اور درختوں کے علوم میں خاصا اضافہ کیا۔ پاک وہند کے جن درختوں کو خاص منزلت اور توجّہ حاصل رہی ہے، اُن میں پیپل سرِفہرست ہے۔ بدھ مَت کےماننے والوں کایقین ہے کہ اس درخت کے نیچے بیٹھ کر گیان دھیان میں مصروف مہاتما بدھ کو نروان حاصل ہوا تھا۔ بدھ گیا، بہار میں وہ درخت موجود ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے نیچے مہاتما بدھ کو معرفت کی روشنی ملی تھی۔ ہندو اس درخت کی جڑوں کو براہما (کائنات کا خالق)، تنے کو وشنو(محافظ) اور پتّوں کو شیوا(تباہ کرنے والا) سے علامتی طور پر وابستہ کرتے آئے ہیں۔

پیپل کے درخت سے ایک حیران کُن حقیقت وابستہ ہے۔ بظاہر نہ تو پیپل کی چھاؤں گھنیری ہوتی ہے اور نہ ہی اُس پر مفید، خوش ذائقہ و خُوشبودار پھل آتا ہے، پھر علامتی ومذہبی روایات کے سوا اس کی اتنی اہمیت کیوں ہے؟جدید سائنس نے ایک چشم کُشا حقیقت دریافت کی ہے کہ عموماً درخت دن میں زندگی آمیز آکسیجن اور رات میں کاربن ڈائی آکسائڈخارج کرتےہیں، مگرپیپل وہ واحد درخت ہے، جو رات میں بھی آکسیجن خارج کرتا ہے۔ حیرت ہے کہ قدیم انسان نے اس حقیقت کے علم کے بغیر بھی اس درخت کو اتنی اہمیت دی۔ یا پھر انسان کو اس کی اس خوبی کا علم ہوگیا تھا مگر وہ بیان کرنےسےقاصر تھا سو اس کےکاٹنےکو ’’بڑاگناہ‘‘ سمجھتاتھا۔برگدکےدرخت کواس کی پھیلی جڑوں اور کثیر شاخوں کی وجہ سے بارآوری، زرخیزی اور زندگی کی علامت کے طور پر لیا جاتا ہے۔

بےاولاد ضعیف العقیدہ غیر مسلم لوگ اس کے وسیلے سے اولاد کےخواہش مند بھی ہوتے ہیں۔ تقدّس کی وجہ سے اسے کاٹا نہیں جاتا اوربعض اوقات یہ سیکڑوں گز کے حساب سے جگہ گھیر لیتا ہے۔ اشوکا درخت سے یہ روایت منسلک ہےکہ مہاتما بدھ اس کے نیچے پیداہوئےتھے۔ اسے بدھ مَت کی عبادت گاہوں اور خانقاہوں میں لگایا جاتا ہے۔ اشوکا کے معنی ’’دُکھ سے بچا ہوا‘‘ یا ’’وہ جو دُکھ نہ دے‘‘ کےہیں۔ وہ پانی جس سےاشوکا کےپھول دھوئے جاتے ہیں، اُسے دُکھ اور غم کے ماروں کی راحت کے لیے بھی استعمال میں لایاجاتاہے۔ ناریل کا درخت عموماً گرم، مرطوب جنگلات اورساحلوں پہ پایا جاتا ہے۔ البتہ ناریل کو نہ صرف ہندوپوجا کےدوران استعمال کرتےہیں بلکہ شگون کےلیےپھوڑا بھی جاتاہے۔ ویسےناریل کے پھل کی گِری پاکستان بھر میں مختلف پکوانوں اور مٹھائیوں میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ آم کادرخت پاک وہند کےباسیوں کامحبوب درخت ہے کہ یہ عوام وخواص کا مرغوب پھل ہے۔

بھارت میں اس کے پتّے ہاروں میں بھی استعمال کیے جات ہیں اور کسی گھر کے داخلی دروازے میں اچھے شگون کے لیے بھی لٹکائے جاتے ہیں۔ کیلے کے درخت کےپتّےبھی ہندومذہبی رسوم وعبادات میں استعمال ہوتےہیں۔ اس کےپتّوں پرپرشادتقسیم کیاجاتاہے۔ نیم کے درخت کےجہاں بےشمار طبّی فوائد ہیں، وہیں اس کی ٹہنیوں سے مسواک بنا کر دانتوں کی صفائی کی جاتی ہے۔ صندل کا عام گفت گو میں تذکرہ کم ہوتا ہے البتہ علم وادب میں اِسےخُوب برتا جاتا ہے۔ اس خوشبودار اورمہکتے درخت سے چندن بنایا جاتا ہے، جو بدن پرملتےہیں۔ اِسی درخت سے ہم مسلمان تسبیح کے دانے بھی تیارکرتے ہیں، جن کی مہک مشامِ جاں معطّر رکھتی ہے۔ (جاری ہے)