انسان کی عظمت اور اکیسویں صدی کے تقاضے

April 25, 2020

انسان اس وسیع و عریض کائنات میں فطرت کا سب سے خوبصورت شاہکار ہے، جس طرح کوئی بھی آرٹسٹ یا تخلیق کار اپنے حق یا شاہکار کی رعنائی و عظمت سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح وہ کیسا گریٹ ہوگا جو رحمِ مادر میں اتنے حسین و جمیل، جیتے جاگتے فن پاروں کی تخلیق کا باعث بنتا ہے۔ عظمت ِ انسانی کی اِس سے بڑی دلیل کیا ہو سکتی ہے کہ خالقِ سموات و الارض نے جب پہلا انسان تخلیق کیا تو نہ صرف یہ کہ اسے اپنا خلیفہ قرار دیا بلکہ ملائکہ کو حکم دیا کہ تم سب اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جائو۔ لاریب اس کی وجہ محض ظاہری اسٹرکچر ہی نہیں وہ باطنی و شعوری الوہی خصوصیات تھیں جو اسے فرشتوں سے بھی اوپر لے جاتی ہیں لیکن اگر وہ اپنی منفی سوچ سے انہی اعلیٰ باطنی و شعوری الوہی خصوصیات سے تہی دامن ہو جائے یا اُن کا گلا گھونٹ دے تو پھر وہ اشرف المخلوقات کے مقامِ برتر سے گر کر حیوان بن جاتا بلکہ اس سے بھی نیچے اسفل السافلین تک پہنچ جاتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

دردِ دل کا جائزہ لیا جائے تو یہ انسانی احساس یا حساسیت کے ساتھ جڑا ہوا ہے جو شعوری باریکی کے بغیر ممکن نہیں ہے، دانائی اور نادانی کا باریک سا فرق ہے۔اقبال سے منسوب بھرتری ہری کا یہ شعر کیا خوب ہے:

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر

مردِ ناداں پہ کلام نرم و نازک بےاثر

یہ مردِ ناداں کون ہے؟ یہ کوئی مریخ یا چاند پر رہنے والی مخلوق نہیں ہے، ہماری اسی زمین پر رہتے ہیں ہمارے آس پاس دائیں بائیں موجود ہوتے ہیں، اپنے تہذیب سے گرے الفاظ، دوغلے کردار اور اپنے ریاکارانہ و خود پسندی پر مبنی رویے سے پہچانے جاتے ہیں۔ اُن کے بالمقابل جو مردانِ دانا و بینا ہیں ان کے سروں پر بھی کوئی سینگ ہوتے ہیں نہ مخصوص نوعیت کے تاج، البتہ اپنی دانائی، تدبیر منکسر المزاجی، عاجزی، حلیمی اور خوئے دلنوازی سے جانے جاتے ہیں۔ انسان شناسی فطرت کا ودیعت کردہ وہ حق ہے جس کی کسوٹی پر ہم ہیرے جواہرات یا روڑے بجری کی پرکھ کر سکتے ہیں۔ کسی بھی شعبۂ زندگی میں ہر طرح کے لوگ ہو سکتے ہیں۔ کچھ شعبہ ہائے حیات میں باشعور انسانوں کی فراوانی ہوتی ہے تو کچھ میں جہلا چھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ تسلیم کرنا محال ہے کہ شعور و منطق کی منازل طے کیے بغیر کوئی کیسے فلاسفر بن سکتا ہے۔ افلاطون کی فکر رسا نے تو حکمرانی کے لئے بھی فلاسفر تجویز فرمایا تھا، بھلا ہمارا یہ مقام کہاں کہ ایسی بڑی عظمت ہمیں حاصل ہو جائے۔ ہمارے لئے تو یہی بڑی بات تھی کہ آئین پر چلتے ہوئے عوام اپنی قیادت خود منتخب کرتے اور کوئی عام سی سیدھی سادی ایسی قیادت ہمیں میسر آ جاتی جو عوام کی حقیقی نمائندہ یا معتمد ہوتی۔ اس میں کم از کم یہ وصف ضرور ہوتا کہ وہ آزادیٔ اظہار، جمہوری اقدار اور انسانی وقار کی قیمت پر اسٹیٹس کو کی پرستار نہ بنتی۔ اس شعر میںاسی طرف اشارہ کیا گیاہے ؎

قوم کی تقدیر وہ مردِ درویش

جس نے نہ ڈھونڈی سلطان کی درگاہ

اقبال نے تو امامت (یعنی قیادت) کی حقیقت اس سے بھی آگے بڑھ کر بیان کی ہے ؎

تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے

حق تجھے میری طرح صاحبِ اسرار کرے

فتنۂ ملتِ بیضا ہے امامت اس کی

جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے

بار ہا یوں محسوس ہوتا ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورا عالم ِ اسلام اور شاید جہاں بھر میں سیاسی قیادت کا ایک بحران آیا ہوا ہے، زاغوں کے تصرف میں ہیں عقابوں کے نشیمن۔ اس کی بنیادی وجہ جنونیت کے مقابل انسان اور انسانی شعور کی ناقدری ہے۔ سائنس کی ہوشربا ترقی نے توہمات کو بہت پیچھے چھوڑ دیا جس سےایسے قدامت پسند جو یہ امیدیں باندھے ہوئے تھے کہ سیاسی قیادت و امامت بھی پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی جھولی میں گرنے والی ہے، انہوں نے اس نئے ماحول میں ایسے مزاحمتی ہاتھ پائوں مارے کہ دنیا میں ایک نوع کی کھلبلی مچ گئی۔ جن خواتین و حضرات کی بیسویں صدی میں شائع ہونے والے ریڈیکل مذہبی لٹریچر پر نظر ہے وہ اس صورتحال کا نہ صرف یہ کہ بہتر ادراک کر سکتے ہیں بلکہ اس سلسلے میں بڑھے ہوئے موجودہ اشتعال کی جڑوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ دنیا کے مختلف خطوں میںمضبوط ہونے والی شدت پسند مذہبی تحریکوں کا اس پسِ منظر میں مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

حالانکہ اس سلسلے میں اقوامِ عالم کو جو نظریہ سب سے بڑھ کر ابھارنا چاہیے وہ انسان نوازی اور انسانی عظمت کا گیت ہے۔ دنیا کا کوئی بھی نظریہ اگر انسانیت کے بالمقابل کھڑے ہونے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی مذمت و بیخ کنی ہونی چاہئے، یو این ہیومن رائٹس چارٹر کو ہر قوم کے نونہالوں کے تعلیمی نصاب کا لازمی حصہ قرار پانا چاہیے، جو قوم اس سے پہلو تہی کرتی ہے۔ یو ایس کی قیادت میں عالمی ادارے اس پر مختلف النوع پابندیاں عائد کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔ کسی بھی قوم میں ہیومن رائٹس کی پامالی کو ہر مہذب قوم اپنی تذلیل و تضحیک سمجھے۔

افرادِ قوم کی ذہنی نشو و نما اور تربیت کے لئے دنیا کے ہر لٹریچر میں انسانی عظمت و تقدس کی کہانیاں اور گیت لکھے جائیں، اس سلسلے میں ماقبل بھی بہت کام ہو چکا ہے بس اسے اجاگر کرنے اور افرادِ اقوام کے اذہان میں بٹھانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے جنوبی ایشیا میں انیسویں اور بیسویں صدی کے صاحبانِ ادب و دانش نے بہت کام کر رکھا ہے، غالب اور ٹیگور کی سوچ کسی طرح بھی سربرٹرینڈر سل سے پیچھے نہیں ہے:

عجب نہیں کہ خدا تک تری رسائی ہو

تری نگاہ سے ہے پوشیدہ آدمی کا مقام