21ویں صدی کا مستقبل کیا ہے!

May 07, 2020

یوں تو پاکستان میں ہر لکھنے والے نے حسبِ مقدور اپنی یادداشتیں، آپ بیتی، خود نوشت، کبھی ناول کی شکل میں، کبھی افسانوں کے انداز میں اور کبھی تاریخی تناظر کے ساتھ، سیاست، تہذیبی زندگی، ذاتی زندگی میں بچپن سے بڑھاپے تک ہونے والے واقعات بیان کیے ہیں، اکرام اللہ اُن سینئر لکھنے والوں میں سے ہیں جنہوں نے دوسری جنگِ عظیم، بٹوارہ اور پھر کبھی نہ بھولنے والا بچپن جو دونوں پنجاب کے دیہات میں رہتے ہوئے، علم حاصل کرتے ہوئے گزارااور نہیں معلوم حنیفاں کی یاد کیسے بار بار آتی ہے کہ لتا کا نام بھی بھولتا نہیں۔ عورتیں، اماں کے علاوہ بھی ہیں مگر عشق کی منزلیں چھپالی ہیں، شاید کہ اب تو بچوں کے بچے بھی اپنے اپنے گھر کے ہو گئے ہیں۔

پوری کتاب بعنوان جہانِ گزراں 500صفحات پر محیط ہے۔ اس میں 1936سے لے کر 1946کے واقعات و حادثات میں دوسری جنگِ عظیم کا برصغیر پر کیا اثر پڑا،یہ تحریک پاکستان کی رواں تاریخ بھی ہے۔ لاہور اور امرتسر کے مشہور بازاروں کا تذکرہ بالکل ایسے ہے جیسے صوفی تبسم یا پھر امرتا پریتم اپنی یادداشتیں سناتے ہوئے مال بازار اور داس کلچے کا بہت ذکر کرتے تھے۔ بہرحال کتاب میں کھنگال کے آپ تاریخی حصہ الگ کردیں، زندگی کو تو وہ 1947ہی میں چھوڑ گئے مگر وہ جو لوگوں کا چار چار گھروں پر بٹوارے کا قصہ ہے، ہر چند بہت سی کتابوں میں پڑھا ہے پھر بھی چونکہ آپا دھاپی کا قصہ اب تک چل رہا ہے، اس لیے یہ کڑوی باتیں وہ بہت سادہ فقروں میں لکھ دیتا ہے۔ہمارا دوست بلکہ ہم سے بہت چھوٹا ثروت حسین تھا، کالج کے زمانے اس کی اٹھان ہی کمال تھی۔ حیدرآباد میں کالج میں پڑھاتا تھا اور ہر وقت فارغ ہوتے ہی ریلوے اسٹیشن پر پٹریاں دیکھتا رہتا تھا۔ سب دوست اس کی ایسی دیوانگی سے آگاہ تھے۔ وہ اسے اٹھا کر لے جاتے۔ ایک دفعہ باقاعدہ ٹرین کے نیچے آنے کی کوشش کی، پیر کٹ گئے البتہ باقی جسم بچ گیا۔ پھر کئی سال بعد ڈاکٹروں نے اس کو مصنوعی پیر لگا دیے۔ اسلام آباد آیا تو مجھے بڑے فخریہ انداز میں نئے جوتے اور نئے پیر دکھائے۔ یہ خوشی بھی ہوا کا تیز جھونکا ثابت ہوئی۔ شکیب جلالی اور سارا شگفتہ کی طرح ثروت بھی ادب میں بار بار پڑھنے کو کئی کتابیں چھوڑ گیا۔ ایک چھوٹا سا مجموعہ تو آصف نے دوست مطبوعات کے نام سے چھاپا، اس نے جمال احسانی کا مجموعہ بھی چھاپا۔ گزشتہ برس اس کے بیٹے آصف نے ثروت کی کلیات اسی عقیدت کے ساتھ شائع کی جو ایک گہرے شاعر کے بیٹے میں کہیں کہیں مل جاتی ہے۔ کہانی نما طویل نظمیں جو آخر میں بتاتی ہیں کہ چاہے بیل کو گولی مارو یا انسان کو، خون کا رنگ ایک جیسا ہوتا ہے۔

اب میں آپ سے ایک بہت بڑے تاریخ دان فلسفی یوول نوح ہراری کی دو کتابوں کا حوالہ اس لیے دے رہی ہوں کہ پہلی اسپین کے بارے میں جو گزشتہ کی تاریخ، تجارت اور ثقافت کا عالمی سطح پر پرت در پرت مع حوالوں کے دیا ہے اور اتنے دلچسپ انداز میں کہ یہ کتاب 2015میں بھی بیسٹ سیلر بن گئی تھی۔ پہلی کتاب انسانیت کی مختصر تاریخ بھی دنیا بھر کی زبانوں میں ترجمہ ہوئی اور دوسری کتاب مستقبل کی تاریخ بھی اسی طرح مقبول ہوئی۔ افسانہ نگار سعید نقوی نے ان دونوں کتابوں کا کمال سلیقے سے اردو ترجمہ کیا ہے۔ نوح ہراری ابتدا ہی میں بتا دیتا ہے کہ اکیسویں صدی میں ہمیں کیا سکھایا جارہا ہے۔ اکیسویں صدی میں ہم کتنے قدامت پسند ہیں۔ اس کی مثال کے لیے ہمیں بہت دور جانے کی ضرورت نہیں۔ ہندوستان کی برگشتہ صورت حال سن کر دنیا کی ساری قومیں افسوس کررہی ہیں کہ وہاں تو سبزی بیچنے والے کا شناختی کارڈ دیکھ کر، لوگ سودا یہ کہہ کر لیتے ہیں کہ تم ہندو ہو کہ مسلمان۔معاف کیجئے ہراری کی کتاب پہ بات کرتے ہوئے میں کہاں نکل گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ابتدا قحط سے کرتے ہیں جو ہزاروں سالوںسے انسانیت کا دشمن رہا ہے‘‘۔ یہ جو اکیسویں صدی میں کورونا کی وبا کی عالمگیر نحوست کے بعد، آدھی دنیا میں قحط پڑنے کی خبریں آرہی ہیں یہ بھی سچ ہے کہ اکیسویں صدی کے اوائل میں فاسٹ فوڈزیادہ کھانے سے مرنے والوں کی تعداد، قحط، ایبولا اور القاعدہ کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔ وبائیں، جنگ اور دہشت گردی، اکیسویں صدی میں سرفہرست ہیں۔ جی یہ عذاب آئے تو نسل در نسل انسان نے ہر خدا، فرشتے اور صوفی کی عبادت کی، دعائیں بنالیں۔ پھر بھی پیغمبروں کی تعلیمات اور مفکروں کی فکر کا نتیجہ یہ ہے کہ قحط، وبا اور جنگ، ہماری خام دنیا یا کائنات کے بارے میں خدائی منصوبے کا ایک لازمی حصہ ہیں اور قیامت سے پہلے ان سے نجات ناممکن ہے۔ پھر بندے چاہے مغرب کے ہوں کہ مشرق کے جواب دیتے ہیں ’’خدا کی رضا کے سامنے کس کی چلی ہے‘‘۔