محافظ روش رفتگاں کوئی نہیں ہے

April 03, 2013

جمہوریت ایک کھلے معاشرے اور مہذب و اصولی طرز زندگی میں جہاں تعلیم عام ہو، تحریر و تقریر کی آزادی ہو، انسانی حقوق کا احترام ہو، وہاں جمہوریت ایک اچھا طرز حکومت ثابت ہوتی ہے، جمہوریت کے اپنے اصول اور اقدار ہیں جس میں قانون کی عملداری اورآئین کی پاسداری کو اولیت حاصل ہے۔ جس معاشرے میں اور ملک میں قانون کی عملداری نہیں ہوگی وہاں جمہوریت قائم نہیں رہ سکتی۔ جیسا آپ اپنے ملک میں ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کو نئے نئے معنی دیئے جاتے ہیں کوئی پوچھے کہ صاحبو! یہ مفاہمت کی جمہوریت کیا ہوتی ہے؟ جمہوریت میں اصولوں پر کوئی مفاہمت نہیں ہوتی آپ برطانیہ میں پارلیمانی حکومت کو دیکھ لیں، امریکا کی صدارتی جمہوریت پر نظر ڈالیں، وہ جمہوری اقدار اور اصولوں کے پابند ہیں۔ درحقیقت پاکستان کی پارلیمانی جمہوریت ویسٹ منسٹر کی پارلیمانی جمہوریت کا انتہائی بھونڈا چربہ ہے، اس منافقانہ رویے کا تو اندازہ لگائیے کہ پاکستان کے آئین میں یہ تحریر ہے کہ جس طرح اسلام نے جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور عدل عمرانی کے اصولوں کی تشریح کی ہے اس پر پوری طرح اس کے مطابق عمل کیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ہو رہا ہے؟ ہر گز نہیں ہو رہا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور اس کے عوام ایک دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور اس سے نکل نہیں پا رہے ہیں اور یہ آج نہیں ہو رہا کئی عشروں سے ہو رہا ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ابھی جس سول حکومت نے پانچ سال کی مدت پوری کی ہے اس نے جمہوری اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر نام نہاد حزب اختلاف سے مفاہمت کی بنیاد پر وقت گزارا حزب اختلاف حزب اقتدار کے ساتھ ان کی برائیوں اور اچھائیوں میں برابر کی شریک رہی۔ جس کو کچھ لوگ مک مکاؤ کی جمہوریت کہتے ہیں۔
یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ مرکز میں اپوزیشن اور حزب اقتدار متفقہ طور پر ایک غیر جانبدار عبوری وزیراعظم نامزد نہیں کر سکے پھر ایسے لوگوں سے یہ امید کس طرح رکھی جا سکتی ہے کہ وہ کوئی بڑا فیصلہ کر سکیں گے اگر ایسا کرنے کی ضرورت پڑ گئی اور ایسا ہوا ایسی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر بہاولپور کو دوبارہ صوبہ بنانا کوئی مشکل اور غیر آئینی کام نہیں تھا یہ انتظامی حکم سے بحال ہو سکتا تھا لیکن اس کو سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ مجھے یاد ہے یحییٰ خان نے بہاولپور کو مارشل لاء آرڈر کے تحت پنجاب میں شامل کیا تھا بہاولپور کا اپنا ریونیو بورڈتھا اور ہائی کورٹ تھا اگر بہاولپور کی مارشل لا آرڈر کے تحت حیثیت تبدیلی کی جا سکتی ہے تو صدر زرداری کیا آرڈیننس کے ذریعے اسے بحال نہیں کر سکتے یہ ایک بہت بڑا فیصلہ ہے ان لوگوں سے تو 18 کروڑ آبادی میں سے ایک غیر جانبدار وزیراعظم نامزد کرنا ناممکن ہو گیا اور یہ کام الیکشن کمیشن کے سپرد کیا گیا اور اس نے جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو کو وزیراعظم کے لئے نامزد کردیا اس پر کئی سیاسی لیڈروں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی قیادت ناکام ہو گئی ہے اور انہوں نے ایک حکمت عملی کے تحت ملبہ الیکشن کمیشن پر ڈالا ہے یہ بات نظر آرہی ہے کہ الیکشن کمیشن کے لئے زیادہ مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ شفافیت کا تقاضا یہ ہے کہ فخر الدین جی ابراہیم کو عوام کو وہ وجوہات بتانی چاہئیں کہ جن کی وجہ سے انہوں نے دوسرے لوگوں پر کھوسو صاحب کو فوقیت دی یہ بہت اہم فیصلہ ہے اور عوام کو یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ اس فیصلے کے بنیادی عناصر کیا ہیں ورنہ جن تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے ان میں شدت آتی جائے گی اور آج میڈیا اور پریس آزاد ہے اس لئے معاملات کی حقیقیت کھل جائے گی۔
اب کئی سیاست داں یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں الیکشن کمیشن پر اعتماد نہیں ہے ان میں الطاف حسین ، طلال بگٹی بھی شامل ہیں۔ حلقہ بندیوں کی تبدیلی کے بارے میں چیف الیکشن کمشنر نے اپنے موٴقف سے ہٹ کر سیاستدانوں کو تنقید کا موقع فراہم کردیا ہے۔ پہلے ان کا موقف یہ تھا کہ مردم شماری سے پہلے حد بندیاں نہیں ہو سکتیں آئین یہی کہتا ہے پھر تبدیلیاں کر دی گئیں۔ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم ایک بااصول آدمی ہیں مجھے یاد ہے معراج خالد کی عبوری حکومت میں وہ وزیر قانون تھے اور وزیراعظم اور صدر سے آئینی اختلاف کی بدولت انہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا لیکن ان اختلافات کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ ہو سکتا ہے کہ اس وقت اگر آج جیسا میڈیا ہوتا تو عوام کو معلوم ہو جاتا کہ اس وقت اختلافات کی بنیاد کیاتھی جس (ر) میر ہزار کھوسو سے پہلے پانچ نگراں وزیراعظم بنے جناب غلام مصطفیٰ جتوئی، بلخ شیر مزاری، معین قریشی، ملک معراج خالد اور میاں محمد سومرو یہ کوئی قابل قدر کام نہیں کر سکے یا ان کو کرنے نہیں دیا گیا۔
اگر مرکز میں کھوسو صاحب کے وزیر سیاسی لوگ ہوں گے تو وہ اکیلے کیا کر سکیں گے اور کس طرح الیکشن شفاف ہوں گے اگر شفاف انتخابات ممکن ہو سکتے ہیں تو اس وقت جب کابینہ کے وزیر بھی غیر جانبدار ہوں۔ جب سیاست دان ایک غیر جانبدار وزیراعظم نامزد نہیں کر سکے تو غیر جانبدار وزیر کہاں سے آئیں گے؟ خبروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب تک 180 سے زیادہ سابق ارکان اسمبلی نے ڈگریوں کی تصدیق نہیں کرائی اور الیکشن کمیشن کے احکامات کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ 55 ارکان ایسے ہیں جو نااہل قرار دیئے جا چکے ہیں۔ اس وقت برطانیہ، امریکا اور یورپی ملکوں کی نظریں پاکستان کے الیکشن پر ہیں الیکشن کمیشن کیلئے آنے والا وقت سخت ہے ایسا لگتا ہے کہ حالات مزید پیچیدہ ہو جائیں گے ملک کی سلامتی کو پہلے ہی خطرات درپیش ہیں اور بیرونی مفادات اور ان کے اثرات حالات کو سبھلنے نہیں دیں گے عمران خان نے کہا ہے کہ اگر وہ وزیراعظم ہوئے تو وہ موجودہ صدر سے حلف نہیں لیں گے۔ اگر الیکشن پرامن ہو جاتے ہیں تو کوئی سیاسی پارٹی اکیلے حکومت نہیں بنا سکے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ الیکشن سے صحیح جمہوریت اور اسلامی تصور حکمرانی کا دور آسکے گا اور گڈ گورننس کا خواب پورا ہو گا یا حکومت پہلے سے ابتر ہو گی!!