کیا اس طرح زکوٰۃ ادا ہو جاتی ہے؟

May 23, 2020

میری ایک میمن شناسا سے ملاقات ہوئی تو وہ فیصل ایدھی سے شدید ناراض تھے۔ آخر ہوا کیا، اُس نے آخر ایسا کیا کر دیا، میں نے پوچھا۔ بھائی ہماری قوم کے لوگ اور پورے پاکستان سے لوگ اپنی زکوٰۃ، خیرات اور صدقہ وغیرہ کی رقم ایدھی صاحب کو اس لئے دیتے تھے کیونکہ وہ اسے خدمت خلق میں خرچ کرتے تھے، ہم لوگوں کو اطمینان رہتا تھا کہ ہماری زکوٰۃ کا درست مصرف ہو رہا ہے لیکن اس بار میں نے ایدھی سینٹر کو اپنی زکوٰۃ نہیں دی کیونکہ وہ شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ لوگوں کی زکوٰۃ کو جس طرح جی چاہے خرچ کریں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اخباروں میں تصویر بھی چھپی اور خبر بھی لگی کہ بھیک جمع کرنے والا اس رقم سے ایک کروڑ کی خطیر رقم وزیراعظم کے فنڈ کیلئے دے رہا ہے، اس نے لوگوں کی دی ہوئی خیرات کی اتنی بڑی رقم کس سے پوچھ کر خیرات کر دی۔ پتا نہیں نیا ایدھی ملنے والی رقوم کو کس طرح خرچ کرتا ہے۔ ہماری اپنی قوم میں بہت سے مستحق لوگ ہیں، اب کی بار ہم نے اُن لوگوں کو فوقیت دی ہے، اللہ قبول کرے۔ میں نے انھیں سمجھایا جناب! آپ نے جو رقم ایدھی کو دی وہ اس نے قبول کرلی، اب وہ اُس کا مال اس کی ملکیت ہوگی، اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ دینے کے باوجود وہ رقم آپ کی تھی یا ہے تو آپ کی زکوٰۃ ہی ادا نہیں ہو گی، جب آپ نے رقم یا کوئی بھی سامان ایدھی کو دیدیا تو وہ اس کی ملکیت ہو جائے گا، اب اس پر آپ کا کوئی حق نہیں رہے گا۔

بھائی عبدالوہاب بھی ہمارے شناسا ہیں، وہ بھی بڑے سرمایہ دار ہیں۔ وہ حج عمرہ تقریباً ہرسال کرتے ہیں، اُن کا زکوٰۃ دینے کا طریقہ بڑا ہی نرالا اور عجیب ہے۔ وہ اپنی زکوٰۃ کی رقم ایک اسٹیل کا کنستر جوآٹا چاول وغیرہ کے کام آتا ہے، میں رکھ کر اُس کے اوپر اخبار کی تہہ جما کر کچھ کپڑوں کے جوڑے، کچھ عید پر کام آنے والی چیزیں، کچھ پھل وغیرہ رکھ کر تالا لگا دیتے ہیں۔ پھر اپنے ایسے غریب رشتہ دار کو بلا کر اُسے دیتے ہیں جب وہ بھرا ہوا کنستر لے لیتا ہے تو اس سے دریافت کرتے ہیں کہ میاں تم نے قبول کر لیا۔ ظاہر ہے جواب میں وہ اقرار ہی کرتا ہے۔ پھراس سے کہتے ہیں میاں کھول کر دیکھ لو اچھی طرح اس میں کوڑا کرکٹ تو نہیں ہے۔ جواب ملتا ہے آپ کیسی بات کر رہے ہیں، اس میں سب کچھ اچھا ہی ہوگا، آپ اتنے بڑے آدمی ہیں بھلا کوڑا کرکٹ کیسے ہو سکتا ہے، کہا جاتا ہے نہیں نہیں! میاں اچھی طرح دیکھ لو تواچھا ہے۔ تالے کی چابی ساتھ ہی لٹکی ہے، وہ تالا کھولتا ہے، سامان دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتا ہے، پوچھا جاتا ہے میاں اچھی طرح دیکھ لیا، سامان باہر نکال کر دیکھ لو، جناب کیسی بات کر رہے ہیں اچھی طرح دیکھ لیا ما شاء اللہ اچھا سامان ہے، جزاک اللہ، اللہ آپ کی روزی میں، وقار میں اضافہ کرے، اچھا تالا لگائو اور لے جائو، وہ بیچارہ کنستر اُٹھا کر خوش خوش باہر کی طرف چل پڑتا ہے۔ ابھی وہ گیٹ سے باہر نکل بھی نہیں پاتا کہ اندر سے بلاوا آ جاتا ہے بڑے صاحب بلا رہے ہیں۔ وہ صاحب پھر گھر کے اندر داخل ہوکر صاحب کے سامنے پہنچ جاتے ہیں، میاں تمہیں تسلی ہوگئی کہ یہ سارا سامان تمہارا ہے؟ جی مجھے تسلی ہے کہ یہ کنستر اور اس کا سامان اب میرا ہے، کیا اس سامان کا سودا کرتے ہو؟ پچیس ہزار نقد تمہارے اور تمہارے بچوں کے زیادہ کام آئیں گے، میاں جی آپ کی عنایت ہے، جوآپ مناسب سمجھیں، نہیں نہیں میاں تمہیں اختیار ہے مال تمہارا ہے، ہم نے تو بولی لگائی ہے، تمہاری مرضی ہے، کوئی زور زبردستی نہیں۔ ہم نے سوچا عید کاموقع ہے، تمہارا بھلا ہو جائے، تمہاری مرضی یا یہ کنستر لے جائو یا اس کے بدلے نقد رقم لےلو۔ ٹھیک ہے میاں جی نقد دے دیں، وہ صاحب نقد رقم لے کر چلتے بنے، تب میاں صاحب نے کنستر خالی کر دیا تو اخباروں میں چھپے پانچ لاکھ نقد نکل آئے۔ تب باقی سامان ملازم کو دیدیا، یوں میاں صاحب کے خیال میں اُن کی زکوٰۃ بھی ادا ہو گئی اور پچیس ہزار میں پانچ لاکھ کا سودا مہنگا نہیں رہا۔

ایسے زکوٰۃ خیرات کے سوداگر جانے کس نشے میں اللہ سے نہیں ڈرتے اور اللہ سے بھی دھوکا کرتے ہیں اور خود کو ہوشیار ثابت کرتے ہیں۔ کیا اللہ کا کوئی بندہ اللہ سے فریب کر سکتا ہے؟ وہ ہستی جو ہمارے دلوں کے بھیدوں تک سے پوری طرح واقف ہے، کوئی انسان کیسے حدود اللہ سے باہر نکل سکتا ہے؟ دراصل یہ لوگ خود کو دھوکا دے رہے ہوتے ہیں، اپنی عاقبت کا اپنے آپ سودا کر رہے ہوتے ہیں۔ اللہ ہمیں ہمارے وطن عزیز کو ہر طرح سے محفوظ و مامون رکھے، آمین!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)