لومڑی کی باتوں میں آنے والا چیتا!

May 29, 2020

یہ ایک چیتے اور لومڑی کی کہانی ہے، ظاہر ہے چیتا بہت طاقتور تھا اور لومڑی اس کے مقابلے میں بہت کمزور، مگر چالاکی میں پورے جنگل میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ایک دفعہ چیتے اور لومڑی میں کسی بات پر ٹھن گئی، لومڑی کے دل میں گرہ بیٹھ گئی اس نے چیتے کو بے دست و پا بنانے کا ارادہ کرلیا۔

لومڑی نے جنگل میں ایک بیوٹی پارلر کھول لیا اور چیتےسے استدعا کی کہ وہ اس کا افتتاح کرے۔چیتا یہ سن کر ہنسا اور کہا ’’بناؤ سنگھار کے کاموں سے میرا کیا تعلق، یہ کام تم کسی اور سے کراؤ‘‘ لومڑی بولی’’ عالی جاہ میں آپ کی ریپوٹیشن بہتر بنانا چاہتی ہوں، آپ کے متعلق آپ کے دشمن روزانہ نت نئی افواہیں پھیلاتے ہیں، آپ کو تنگ نظر مشہور کیا جارہا ہے اور آپ کو روشن خیالی کا دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آپ بیوٹی پارلر کا افتتاح کریں گے تو یہ افواہیں خود بخود دم توڑ جائیں گی‘‘۔چیتے نے ایک لمحہ اس کی بات پر غور کیا اور پھر افتتاح کی ہامی بھر لی۔چیتے نے بیوٹی پارلر کا فیتہ کاٹا، سب جانوروں نے بھرپور تالیاں بجائیں، چیتے کو یہ ساری باتیں عجیب سی لگ رہی تھیں مگر اس نے حاضرین کو تالیاں بجاتے دیکھا تو ان باتوں سے اس کی اجنبیت کم ہونے لگی، تقریب کے بعد لومڑی لہنگا پہن کر اسٹیج پر آئی، اس نے سات بار جھک کر ’’شہنشاہ سلامت‘‘ کو سلام کیا اور کہا ’’یہ باندی آپ کی آمد کی خوشی میں مجرا پیش کرتی ہے‘‘ پھر اس نے جی بھر کر مجرا کیا، چیتا پہلے تو حیرت سے یہ سب کچھ دیکھتا رہا پھر اسے لطف آنے لگا چنانچہ رقص و سرود کی یہ محفل ساری رات جاری رہی!صبح لومڑی جنگل کے دوسرے جانوروں کے پاس گئی اور کہا ’’چیتے کی چیر ہ دستیوں میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، اب تو وہ مجھ ایسی شریف زادیوں سے زبردستی مجرا بھی کرواتا ہے، پہلے اس کے ہاتھوں کسی کی جان محفوظ نہیں تھی، اب کسی کی عزت بھی محفوظ نہیں رہی، اس طرح وہ چیتے کے خلاف جنگل کے جانوروں کا ایک اتحاد تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئی۔

ایک دن لومڑی چیتے کے پاس گئی اور کہنے لگی ’’ظل الٰہی،شہنشاہ دوراں، آپ کی روشن خیالی کی دھوم تو پورے جنگل میں ہے،لیکن ریچھ، بھیڑیے اور لگڑ بگڑ نے آپ کے خلاف ایک کولیشن تشکیل دیاہے۔ آپ جانتے ہیں یہ بہت ظالم جانور ہیں، ان سب سے بیک وقت ٹکرانا مصلحت کے خلاف ہے میرے پاس ایک تجویز ہے جس سے انکے غبارے سے ہوا نکالی جاسکتی ہے‘‘۔چیتے نے دھاڑتے ہوئے کہا ’’تجویز پیش کی جائے‘‘ لومڑی بولی، بادشاہ سلامت، آپ کے خلاف سارا پروپیگنڈا آپ کے پنجوں اور آپ کے جبڑے کی وجہ سے ہے اگر آپ صرف پنجوں کے ناخن کٹوا دیں اور سامنے والے دانت نکلوا دیں تو آپ کی طاقت بھی بحال رہے گی اور دشمن کا پروپیگنڈا بھی خاک میں مل جائے گا‘‘۔چیتےنے بادل نخواستہ لومڑی کی یہ تجویز منظور کرلی ۔اگلے روز چیتا شکار کے لیے اپنے کچھار سے نکل کر ایک ہرن پر جھپٹا، لیکن جب اس کے جسم میں اپنے پنجے گاڑنا چاہے تو ناخن نہ ہونے کی وجہ سے یہ پنجہ پھسل گیا اور اپنے دانت ہرن کی گردن میں گاڑنے کی کوشش کی تو یہ کوشش بھی ناکام رہی،اس کے بعد چیتے نے کئی دوسرے جانوروں پر قسمت آزمائی کی لیکن کوئی بھی اس کے قابو نہ آیا، شام تک بھوک کے مارے اس کا برا حال ہوگیا اور بالآخر وہ نڈھال ہو کر گر گیا!رات کو لومڑی کچھار میں آئی تو اسے دیکھ کر نہ کورنش بجالائی نہ اسے ظل الٰہی یا شہنشاہ دوراں کہا بلکہ طنزیہ انداز میں کہا ’’بھوک تو بہت لگی ہوگی‘‘ چیتے نے نقا ہت سے کہا ’’ہاں بہت زیادہ ! تم میرے لیے کھانے کا بندوبست کر و۔ میں نے تمہارے مشورے پر اپنے ناخن کٹوائے اور اگلے دو دانت نکلوائے۔ اب تم میرے لیے گوشت کا بندوبست کرو‘‘ لومڑی نے قہقہہ لگایا اور کہا ’’بیوقوف چوپائے کوئی کسی کے لیے کچھ نہیں کرتا....ہاں میں تمہارے لیے گوشت تو نہیں گھاس کا انتظام کرسکتی ہوں‘‘۔ یہ سن کر چیتے کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ وہ اس پر حملہ کرنے کے لیے جھپٹا مگر لومڑی جو پہلے سے چوکس تھی اور چیتا فاقے سے نڈھال سو اسے پکڑنے میں ناکام رہا۔ تیسرے دن لومڑی پھر اس کے پاس آئی ،وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں تھا۔ اس نے لومڑی کو دیکھا تو کہا ’’مجھے گھاس کھانا منظور ہے‘‘۔ لومڑی نے چیتے کی بے بسی دیکھی تو اس کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ اس نے کہا گھاس بھی تمہیں اس شرط پر مل سکتی ہے کہ تم اپنے منہ سے میاؤں کی آواز نکال کر دکھاؤ ۔یہ سن کر چیتے کا جی چاہا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے، لیکن اب اسے اپنے وقار سے زیادہ اپنی جان عزیز تھی چنانچہ چیتے نے جی کڑا کر کے منہ سے میاؤں کی آواز نکالی ۔لومڑی نے اسے حقارت سے دیکھا اور کہا یہ میاؤں کی آواز تم نے صحیح نہیں نکالی، کچھ دن اور ریاضت کروجب تم میاؤں کی آواز بالکل صحیح نکالنے میں کامیاب ہوجاؤ گے اس دن سے تمہیں باقاعدگی سے گھاس ملنا شروع ہو جائے گی۔ آخری اطلاعات آنے تک یہ چیتا ان دنوں منہ سے میاؤں کی آواز نکالنے کی ریاضت میں مشغول ہے اور اسے اس میں کافی دسترس حاصل ہوتی جارہی ہے۔