خطرناک اتوار!

June 02, 2020

کورونا وائرس کے پھیلائو کے منظرنامے میں دو دن قبل گزرا اتوار (31مئی 2020ء) پاکستانیوں کے لئے اس اعتبار سے دکھ بھرا اور خطرناک دن ثابت ہوا کہ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا کے مطابق اس روز 24گھنٹوں میں کورونا وائرس سے 88اموات ریکارڈ ہوئیں جو ملک میں اب تک وبا سے جاں بحق ہونے والوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ ہمارے ان بچھڑنے والے ہم وطنوں میں شعبہ طب سے تعلق رکھنے والے چار افراد (ڈاکٹر علی نذیر، ڈاکٹر شاہ ولی جامی، ڈاکٹر محمد اعظم خان اور ڈاکٹر اورنگزیب) بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنے ہم وطنوں کی جانیں بچاتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ کورونا سے متاثرہ ہم وطنوں کی جدائی سے ملول پاکستانی قوم کورونا وائرس سے جنگ لڑنے والے طبی، نیم طبی اور مددگار عملے کے افراد کو سلام پیش کرتی ہے جنہوں نے وبا سے متاثرہ ہم وطنوں کو بچاتے ہوئے خود جامِ شہادت نوش کیا یا جن کی کاوشوں سے اب تک وبا کے چنگل سے 25ہزار 271افراد نکل چکے ہیں اور مزید نکل رہے ہیں۔ کورونا خواہ بعض حلقوں کے خیال میں ہمارے خطے کے لئے بہت زیادہ خطرناک نہ ہو پھر بھی یہ واضح ہے کہ پچھلے دنوں لاک ڈائون میں جو نرمی کی گئی اس کے دوران جہاں مساجد، مدرسوں اور بعض شاپنگ مالز سمیت متعدد مقامات پر احتیاط کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا گیا وہاں بہت سے مقامات پر احتیاط کے تقاضے پوری طرح ملحوظ نہیں رکھے گئے۔ اطلاعات کے مطابق اسلام آباد میں عوامی مقامات پر ماسک نہ پہننے کو جرم قرار دیا جارہا ہے۔ ممکن ہے سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں بنائے گئے ضابطوں کی طرح ہمارے مختلف شہروں میں بھی احتیاطی تدابیر پر عمل کرانے کے لئے بعض قوانین بنائے جائیں مگر جس ملک میں لوگوں کی بڑی تعداد کا چھوٹے گھروں میں اچھے خاصے کنبوں کے ساتھ مقید رہنا یومیہ کمائی سے محرومی اور بھوک کے جبڑوں میں جانے کے مترادف ہے۔ وہاں پبلک مقامات پر ماسک اور دستانوں کا محض چیک کرنا کافی نہیں، مساجد کے دروازوں پر بازاروں میں بس کے اڈوں اور کام کاج کے مقامات پر تمام لوگوں کیلئے ان چیزوں کی فراہمی کے انتظامات یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔ بعض میڈیارپورٹوں کے مطابق اتوار کو ملک میں مزید 77افراد نذر اجل ہوئے جس کے بعد اموات کی مجموعی تعداد 1520ہو گئی جبکہ نئے کیسز آنے کے بعد مریضوں کی تعداد 71101تک پہنچ گئی۔ عالمی سطح پر 198ممالک و خطوں اور جزائر میں 61لاکھ سے زائد افراد وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں جبکہ مرنے والوں کی تعداد 3لاکھ 71ہزار سے تجاوز کر گئی۔ صحت یاب ہونے والوں کی تعداد 27لاکھ 59ہزار بتائی جاتی ہے۔ ماہرین طب اور تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ کورونا وائرس شاید کئی سال تک ختم نہ ہو اسلئے ہمیں احتیاط کو زندگی کا حصہ بنانا ہوگا۔ پاکستان میں مئی جون کے لئے کورونا کے پھیلائو کی جو پیش گوئیاں تھیں ان سے کم کیس ہونے پر بھی سجدہ شکر ادا کرنا چاہئے جس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ عام لوگوں کے رہن سہن کے مقامات، ان کے مکانات، رہائشیوں کی تعداد، آمدنی کے حوالے سے سرکاری سطح پر سماجی اداروں اور صاحبان فکر کی مشاورت سے ایسا طریقہ وضع کیا جائے جس کے ذریعے لوگ کورونا اور بھوک دونوں سے محفوظ رہ کر زندہ رہ سکیں۔ اس بارے میں لاک ڈائون کو سخت یا نرم کرنے سمیت وزیراعظم کی صدارت میں قومی رابطہ کمیٹی کے پیر کے اجلاس کے فیصلے اہم ہیں جو ان سطور کی اشاعت تک سامنے آجائیں گے۔ یہ فیصلے تمام امور کا گہرا جائزہ لیکر کئے جارہے ہیں اور توقع ہے کہ ان کے نتیجے میں کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے طبی اور معاشی مسائل کے حل کے لئے نئے راستے نکالنے میں مدد ملے گی۔