کیامظہر برلاس سچ کہتے ہیں

April 05, 2013

مظہر برلاس نے اپنے کالم میں یہ پیش گوئی کی ہے کہ کچھ بڑی پارٹیاں الیکشن سے بائیکاٹ بھی کر سکتی ہیں ۔مظہر برلاس کی پیش گوئیاں بہت کم غلط ثابت ہوتی ہیں ۔مگر مجھے لگتا ہے کہ اس مرتبہ یہ پیش گوئی درست ثابت نہیں ہوسکتی ۔الیکشن کمیشن بڑے بڑے مگرمچھوں کو الیکشن سے باہر نہیں نکالیں گے چاہے ان کے خلاف کتنے ہی جرائم کے ثبوت کیوں نہ ہوں ۔شہباز شریف کو الیکشن لڑنے سے نہیں روکا جا سکتا۔جس کے ثبوت میں یہی بات کافی ہے کہ چوہدری نثار کو کلیئر کردیا گیاہے ۔صدر زدراری کو مخدوم امین فہیم یوسف رضا گیلانی اورراجہ پرویز اشرف کے نااہل ہوجانے پر کوئی پریشانی نہیں ہوسکتی ۔ان کے نزدیک تو اس عمل سے پیپلز پارٹی کی مظلومیت میں اضافہ ہوگااور وہ پانچ سالہ حکمرانی میں اپنے ساتھ ہونے والی ظلم و ستم کی داستانیں سنا سنا کر ووٹ مانگیں گے ۔مظلومیت کے نوحے میں ٹیپ کا مصرعہ یہی ہوگا کہ پیپلز پارٹی نے دو وزیر اعظم قربان کر دئیے ہیں مگر اف نہیں کی۔
مظہر برلاس نے اس بات پربھی حیرت کا اظہار کیا ہے کہ نگران حکومتیں دراصل پیپلز پارٹی کی ہی حکومتیں ہیں اورالیکشن کمیشن بھی پیپلز پارٹی کیلئے ہمدردی رکھتا ہے اور اس ساری صورت حال پر نواز شریف اور عمران خان خاموش ہیں۔مجھے ان کی اس حیرت سے بھی اختلاف ہے عمران خان نے نگران وزیراعظم پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور الیکشن کمیشن کے بارے میں بھی ان کی رائے بھی سب لوگوں کو معلوم ہے۔جہاں تک نواز شریف کی خاموشی کی بات ہے تو وہاں بات بالکل واضح ہے ۔نواز شریف اور آصف زرداری کے درمیان جو مک مکا ہے وہ کہیں اور ظاہر ہو نہ ہو یہاں ابل ابل کر باہر آرہا ہے ۔پیپلز پارٹی، نواز شریف کے کہنے پر ہی ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ کئے ہوئے معاہدے سے منحرف ہوئی ۔
مظہر برلاس بہت پہنچے ہوئے صحافی ہیں میں حیران ہوں کہ انہیں نواز شریف اور آصف زرداری کے درمیان ہونے والی اس ڈیل کا علم نہیں ہو سکا جس کے تحت وزیر اعظم نواز شریف ہونگے اور آصف زرداری دوبارہ صدر ہونگے ۔مگر ضروری نہیں کہ آدمی جو کچھ سوچتا ہے وہ ہوبھی جائے حضرت علی نے فرمایا تھا میں نے اپنے خداکو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا ہے ۔سو اس مرتبہ آصف زرداری اور نواز شریف کو بھی اللہ کی پہچان ہوجائے گی ۔
جہاں تک کسی پارٹی کا الیکشن سے بائیکاٹ کا امکان ہوسکتا ہے تو وہ ایم کیو ایم ہوسکتی ہے مگر ایم کیو ایم صرف اس وقت بائیکاٹ کا اعلان کر سکتی ہے جب اسے یقین ہوجائے کہ اس کے بائیکاٹ کے بعد انتخابات ملتوی ہو جائیں گے ۔الیکشن کمیشن پر ایم کیو ایم وہی الزامات عائد کر رہی ہے جو ڈاکٹر طاہر القادری نے کئے تھے ۔بے شک ڈاکٹرطاہر القادری اور ایم کیو ایم دونوں کا موقف درست ہے مگرانتخابات کو ملتوی کرانا بہت مشکل ہوچکا ہے ۔کیونکہ سپریم کورٹ بضد ہے کہ الیکشن کسی صورت ملتوی نہیں کئے جا سکتے ۔اگرچہ الیکشن کمیشن اپنا وقار بحال کرنے کیلئے کئی ایسے امیدواروں کو نا اہل قرار دے دیا ہے جن کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں تھی ۔مجھے پورا یقین ہے کہ الیکشن کمیشن کسی بڑے مگرمچھ کو کسی صورت میں بھی نا اہل نہیں قرار دے گی ۔اصغر خان کیس جیسے سپریم کورٹ کے فیصلے کہیں سامنے ہی نہیں آئیں گے اور اگر الیکشن کمیشن نے کسی ایسی شخصیت کو نا اہل قرار دے بھی دیا تو سپریم کورٹ اس کی اپیل کا فیصلہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔
میری بات کے ثبوت میں یہی کافی ہے کہ میڈیا جو تمام سیاست دانوں کا بظاہر بھرپور انداز میں ٹرائل کر رہا ہے کہ کسی بڑی شخصیت کے جرائم پر کہیں بات کرتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔کسی ٹیلی ویژن چینل پر اصغر خان کیس پرکوئی پروگرام نہیں کیا گیا ۔کہیں سوئس کیس کی تفصیلات سامنے نہیں لائی گئیں۔شہباز شریف کے خلاف دائر مقدمہ پچھلے پانچ سال سے عدالت میں ہے مگر اب بھی امید نہیں ہے کہ اس کا فیصلہ ہوجائے اور اگر ہوا بھی تو لوگوں کے خیال میں شہباز شریف کے حق میں ہی ہوگا۔لوگ پوچھتے ہیں کہ اپنے پروگراموں میں اینکر اس کیس کی تفصیلات سامنے کیوں نہیں لاتے
میری دعا ہے کہ مظہر برلاس نے جو بڑی بڑی شخصیات کے نااہل ہونے کی پیش گوئی کی ہے اللہ کرے وہ پوری ہو اور پاکستان کو اس ”نظامِ زر اور شر سے نجات حاصل ہو ۔جس نے اس ملک کا بند بند مضمحل کر دیا ہے جو چکی کے دو پاٹوں کی طرح عوام کو پچھلے پانچ سال پیستے رہے ہیں ۔البتہ اس مرتبہ عوام کے پاس موقع ہے ان سے نجات حاصل کرنے کا اور متبادل قیادت بھی عمران خان کی صورت میں موجود ہے ۔اگرچہ عمران خان کے اردگرد بھی کئی ایسے لوگ جمع ہوچکے ہیں جنہیں جمع نہیں ہونا چاہئے تھا مگر میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان اقتدار آکر کسی کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہونگے ۔کچھ لوگ ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے ان سے ناراض بھی ہوئے ہیں مگر میرا خیال ہے یہ تمام لوگ عمران خان کی کامیابی کے بعد ان کے اسی طرح ساتھ ہونگے جیسے پاکستانی سیاست کا رواج ہے۔