کیا تیرا بگڑتا جو نہ جاتا

June 05, 2020

اُس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ 18جون کو آپ کی 80ویں سالگرہ پر اسلام آباد آئوں گا، اس نے بار بار کہا تھا کورونا کے حالات کے باعث کیا میں اپنی بیٹیوں سے بھی نہیں مل سکوں گا، اس نے کہا تھا کہ کورونا کے حوالے سے تازہ شمارے کے 370صفحے ہوگئے ہیں، بس 400کر کے شائع کر دوں گا، عید کے دن سے اسے ڈائریا ہوا تھا، شوگر بھی اتنی بڑھ گئی تھی کہ ڈاکٹر نے اسے دن میں چار بار انسولین لینے کیلئے کہا تھا، وہ خود ڈاکٹر تھا، اس نے آج سے 30برس پہلے آغا خان اسپتال میں مجھے مرنے سے بچایا تھا، آج بقول احمد شاہ اور ڈاکٹر شیر شاہ، کارڈک اریسٹ اسے ہم سے چھین کر لے گیا۔

وہ کون تھا، وہ ڈاکٹر تھا، ترجمے کرتا تھا، افسانے، ناول لکھتا تھا، دنیا زاد نکالتا تھا، ہر مرنے والے کے پیچھے رہ جانے والے افسانوں اور تحریروں کو مرتب کرتا تھا، اس نے عالمی ادب کے خود اتنے ترجمے کئے اور ہم سب سے کروائے کہ اس کا گھر بالکل باقر مہدی کے گھر کی کتابوں سے بھر گیا تھا، وہ اس قدر منظم شخص تھا کہ جب یونیسیف میں تھا تو سندھ کے اندرون سیلاب زدہ علاقوں میں وہیں دیہات میں رہ کر کام کیا، جب سے حبیب یونیورسٹی میں آیا تھا، لڑکے لڑکیوں کو سوال کرنا، بولنا، نئے موضوعات پہ تحقیق کرنا اور ادب شناسی کیلئے ادیبوں سے بہت گہرے سوال کرنا اور پھر اگلے دن، ادیبوں کا تجزیہ اپنے لفظوں میں کرنا سکھایا، اس کو انتظار صاحب بہت پسند کرتے تھے، جرمنی جانا ہو ، لندن کہ انڈیا وہ ہمیشہ کہتے تھے آصف میرے ساتھ جائے گا، مجھے سمجھائے گا، مجھے دوائیاں کھلائے گا اور میں وہاں کی چڑیوں کیلئے روٹی کے ٹکڑے جمع کرکے پھینکوں گا، ان کو فرانس کے سب سے بڑا اعزاز کیلئے منتخب کیا، تب بھی انہوں نے آصف کو بلایا، مجھے بلایا، انتظار صاحب اور فہمیدہ ریاض کے مرنے کے بعد ان کے گھروں سے ادھورے مسودات چھان پھٹک کرکے، کئی دن کی دیدہ ریزی کے بعد اٹھا کر لایا، حسن منظر کو کینسر کا مریض ہونے کے با وجود، مستقل نئی تحریروں کیلئے یاد دہانی کراتا رہا، اس نے مارکیز سے لیکر دنیا بھر کے ادیبوں کی کتابیں مرتب اور شائع کیں۔

یہ ذکر ہے ڈاکٹر آصف فرخی کا جس نے ڈاکٹری پڑھتے ہوئے ہی انتظار صاحب کے اسلوب میں لکھنا شروع کر دیا تھا، اس کو کہانیوں کے پہلے مجموعے پر جمیلہ ہاشمی نے بہترین تحریر کا انعام بھی دیا تھا، وہ اپنی آدھی تنخواہ کتابیں، رسالے اور تراجم شائع کرنے پر خرچ کرتا تھا، کیوں نہ کرتا، آخر وہ ڈاکٹر اسلم فرخی کا بیٹا، ڈاکٹر ممتاز حسین کا بھانجا، شاہد احمد دہلوی کا عزیز اور ہم سب کا شیفتہ، ممتاز شیریں ہوں کہ منٹو کہ عسکری صاحب، سب کے بھولے ہوئے شاہکار سامنے لایا، کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائوں!

ہر شخص کی، خاص کر لکھنے والوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی دہری شخصیت ہوتی ہے، مگر آصف نے تو اپنی دونوں بیٹیوں کو لمز میں پڑھایا، ان کی مرضی سے بخوشی شادیاں کیں، وہ امریکہ اور انگلینڈ جا بسیں، وہ دونوں کو خاص کر جب سے بیمار ہوا تھا، بہت یاد کرتا تھا، بیوی نے اولاد کے جانے کے بعد، آصف کو بھی خدا حافظ کہا اور وہ اس عمر میں سیڑھی اور پھونکنی تلاش کرنے اور کہیں غالب کی طرح ایسی جگہ تلاش کرتا رہا کہ کسی مرغ کی طرح خود کو نئی زندگی دے سکے، اس نے بڑی مشکل سے اپنی کتابیں اور میوزک نکلوایا، گھر اس نے بنایا تھا مگر زمین بیگم کو جہیز میں ملی تھی، آصف نے کچھ بھی نہیں کہا مگر ڈیڑھ سال سے وہ گھلا جا رہا تھا، مجھے کئی دفعہ ہنس کر کہتا ’’آپ عورتوں کو اختیارات اور حقوق ملنے کی بات کرتی تھیں‘‘ میں لاجواب اس طرح ہو جاتی جیسا کہ گزشتہ 8مارچ کو ہماری ریڈیکل بچیوں نے بہت سے نعرے لکھے، جن پر میں نے تبصرہ کیا تو ان سب نے مجھے بہت برا بھلا کہا مگر اس نے کبھی دوستوں کی محفل میں بیوی کے خلاف کچھ نہیں کہا، اس نے گزشتہ کوئی واقعہ دہرایا ہی نہیں، ایک بیڈ اور کتابیں اس کا سرمایہ تھا، وہ بہت محنت کرکے چھوٹے شہر کے ادیبوں کو سامنے لاتا، ابھی پچھلے دنوں ٹونی مورلین کے انتقال کے بعد، ٹونی کی نامعلوم نظمیں تلاش کرکے اس نے مجھے بھیجیں، اس نے نیویارک میں سعید نقوی کو ٹونی کا ناول The Belovedکا ترجمہ کرنے کی تحریک دی، جس دن وہ ترجمہ مجھے دیباچہ لکھنے کیلئے ملا، اس دن آصف چلا گیا، وہ ہمارے بیٹوں، ساتھیوں اور دوستوں کی طرح تھا، ابھی کل ہی تو اس نے افضال سیّد کے تراجم پر ایک انگریزی اخبار میں مضمون لکھا تھا، وہ بہت رجائیت پسند تھا، اس کے اندر سے عسکری صاحب کا تصوف نکل چکا تھا، آصف اور بیدار بخت نے سب سے پہلے میری نظموں کے تراجم دنیا بھر میں شائع کروائے، رخسانہ احمد کے تراجم نے ساری دنیا کی یونیورسٹیوں میں مذاکرے اور ورکشاپس کروائیں، مجھے لگتا وہ انتظار حسین سے لے کر سلیم احمد، تنویر انجم، افضال اور میرے لئے کبھی استاد بن جاتا، کبھی باپ کی طرح میڈیکل کے مشورے دیتا اور کبھی دوستوں کی طرح ادب کی نئی تحریکوں پر بات کرتا، وہ شخص نہیں، وہ ایک مکمل ادارہ تھا، سرکار کے کسی ادارے نے اتنا کام نہیں کیا، جتنا اس شخص نے اپنی جیب سے خرچ کرکے کیا، کتابوں اور تراجم کے ڈھیر لگا دیے۔

آصف کے جانے کے بعد، کون اس کے کتابوں کے خزینے، اس کے مسودات کی خوردہ ریزی کرے گا، یہ کام آرٹس کونسل کے چیئرمین احمد شاہ کی ذمہ داری ہوگی، ابھی تک ہمیں مشتاق یوسفی اور شفق خواجہ کی کتابوں اور غیر مطبوعہ چیزوں کی خبر نہیں ہے، ہمیں تو صرف یہ پتا ہے کہ قاسم جعفری نے بڑی تگ و دو کے بعد، انتظار حسین کی لائبریری، گورنمنٹ کالج تک پہنچائی تھی، آصف تو ادب کا بحر زخار تھا، نوجوان لکھنے والے شاید اس کا عکس بن سکیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)