”تاحیات“ کامریڈ

April 07, 2013

”تم لوگ مارکسزم پر کھڑے نہیں بلکہ اس پر بیٹھے ہو حتیٰ کہ اس پر لیٹے ہو“۔ ولادی میر لینن کے مخاطب وہ موقع پرست منشویک تھے جو بالشویکوں کے جہد تازہ کو اپنی خود غرضیوں سے داغدار بنانے کیلئے سرگرم ہو گئے تھے اور جنہیں1912ء میں بروقت ادراک کے بعد انقلابی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی سے نکال دیاگیا تھا۔ مجھے یہ الفاظ اپنے گزشتہ کالم ”نظریاتی سوداگر“ پر اپنے بعض ”تاحیات“ کامریڈوں کے بے لاگ تبصروں پر یاد آئے، ان کی دل و جان سے تنقید بلکہ تنقیص پر البتہ یوں جان میں جان آئی کہ چلئے جیسے بھی ہیں مگر ”ہیں“ تو سہی کہ جو اب بھی نظریات پر نظریں ملانے کیلئے آمادہ بلکہ کچھ زیادہ ہو جاتے ہیں۔ اصرار یہ تھا کہ نظریاتی سیاست کی رفتار مدہم ضرور ہوئی ہے لیکن ختم نہیں، جو کسی بھی لمحے یا صدمے پر مانند انقلاب سینوں میں موجزن ہو سکتی ہے۔ طالب علم نے یاد دلایا کہ میرا کہنا از بس یہ تھا کہ عصر حاضر کی سیاسی و مذہبی جماعتیں جن نظریات کی داعی ہیں، ان کی عملی تعبیر ان کے طرز عمل میں مفقود ہے اور یہ کہ ماضی میں آٹے میں نمک کے برابر نظریاتی معالج تو خالص تھے مگر مقدار آٹا یعنی اکثر خالص کا لیبل لگا کر ملاوٹ شدہ دوا سے علاج کیلئے مطب کھولے ہوئے تھے۔ نتیجتاً مریض (عوام) کیسے پائیدار شفا پاتے؟ لہٰذا پاکستان نہ تو عوامی آدرشوں پر مبنی کوئی مملکت بن سکا اور نہ ہی مدینہ منورہ کا ”پرتو“… خیر ”پرتو“ تو دہر نو کے عاصی اسے کیا بناتے! مدینہ کے پہاڑ جیسی خوبیوں میں سے کوئی پتھر، کنکر بھی ہاتھ لگ جاتا تو قسمت ہی بدل جاتی… لیکن جیسا کہ تحریر کیا گیا تھا کہ اسلام کے مقدس نعرے لگانے والی پاکستانی مذہبی ”اشرافیہ“ خالص کے مقابل ناقص پر ہی وارے جاتی رہی۔ بنابریں نعروں کو جان اور عوام کو امان کیسے مل پاتا۔
میرا اعتبار اب بھی نظریات سے جڑا ہوا ہے اور یہی اصرار بہ تکرار ہے کہ نظریات کے بغیر سیاست بے روح جسم کی مانند ہے، مدعا مگر یہ تھا کہ ہر نوع کے نظریات کو نقصان پہنچانے والے وہ ابن الوقت عناصر تھے جو ان نظریات کا لبادہ اوڑھ کر اپنے اور اپنے آقا کے عزائم بروئے کار لائے۔ جے یو آئی کے میرے بزرگ احباب تو مسکرا کر میرے ”کرتوتوں“ سے درگزر فرما لیتے ہیں لیکن کامریڈوں سے جب بھی بیٹھک ہو جاتی ہے، وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور ”امریکی“ جہادیوں کے ہاتھوں زیر ہو جانے کا غصہ مجھ پر اتارے بغیر سانس نہیں لیتے جبکہ میں ایسے کامریڈوں اور لبرل دوستوں کی توجہ ان کے قول و فعل میں تضاد کی جانب مبذول کرانے کیلئے سعی لاحاصل کے تار چھیڑتا رہتا ہوں۔ میرا کہنا یہ ہوتا ہے کہ نظریاتی لوگ محض تصوراتی نہیں ہونے چاہئیں بلکہ ان کے عمل کی سطح بھی نظریئے کے مطابق و موافق رہنی ضروری ہے۔ لینن نے اشتراکیت کے نظریئے کو پروان چڑھایا تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ لینن بھی مارکس اور اینگلز کی طرح نظریئے اور عمل دونوں کا مرد میدان تھا۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ مارکس کے ان نظریات کو زندہ کیا جنہیں ترمیم پسندوں نے دفن کر دیا تھا بلکہ مارکسزم میں ایسے اضافے بھی کئے جن کی وجہ سے وہ تمام ممالک کے سامراجی دور کے بہت سے مسائل کو حل کرنے کے قابل ہو گیا۔
یہ طالب علم قطعی طور پر نظریاتی برید و انقطاع کا وکیل نہیں، نظریات تو ڈوبتے اور ابھرتے رہتے ہیں، بگڑتے و سنورتے نشوونما پاتے رہتے ہیں، واحد کلام مگر یہی ہے کہ پاکستان میں متنوع نظریات خواہ وہ دینی ہوں یا دہری، ان سے کھیلا گیا۔ عارضی لمس کی خاطر ہیجان میں جام جم توڑا گیا! چلئے قرطاسِ یادِ ماضی سمیٹتے ہوئے یا طالب علم کی حماقت آمیز ان باتوں سے اغراض کی درخواست کرتے ہوئے ”حال“ کا پوسٹ مارٹم کر لیتے ہیں… لیکن کیا حال نظریاتی حوالوں سے ازخود بے حال نہیں ہے! ہاں یہ ماننا پڑتا ہے کہ کلی نظریاتی تصادم نہ سہی، نظریات کے بعض اجزائے ترکیبی سے جو مرکب لا محالہ کشید ہو جاتا ہے، جو سوچ کی مختلف اور مخالف راہوں کو استوار کرنے کا باعث ٹھہرتا ہے اور جسے اساتذہ فکری تفریق کا نام دیتے ہیں وہ بہرصورت پاکستانی سیاست میں موجود ہے لیکن… کیا یہ تقسیم بھی موقع پرستی کے نرغے میں نہیں! باالفاظ دیگر ہمارے ہاں سیکولر و لبرل ازم کے جو داعیان ہیں، ان سے وہی شکوہ کہ ان کا قول ان کے فعل میں ساجھے دار نہیں، اب جب پرویز مشرف جیسے آمر مطلق روشن خیال بن جائیں، تو حشر تو وہی ہو گا جو ہوا! کہ اچھے بھلے روشن خیال اس اصطلاح کو زیر لب لاتے ہچکچاتے بلکہ شرماتے ہیں۔ اب نام کیلئے تو پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت ترقی پسند تھی لیکن جب عمل کی کسوٹی پر اس حکومت کو پرکھتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ کس طرح عوام کی نحیف و لاچار ہڈیوں کو سرمہ بنا کر سرمایہ داروں کے چشمانِ ناز کو روشن و چمکدار بنا ڈالا۔ یہ درست ہے کہ زرداری صاحب کی حکومت کو روز اول تا اختتام مدت ایک لمحے کیلئے بھی چین نہیں لینے دیا گیا اور یہ حکومت 5 سال میں عالم نزاع میں رہی۔ راقم اس دوران اپنے حقیر فقیر قسم کی تحریروں میں تواتر سے ان آسیب کا تذکرہ کرتا رہا کہ جو پیپلزپارٹی کی حکومت کے در و بام سے لپٹ گئے تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ رونا بھی روتا رہا کہ اگر اثر انداز قوتیں سیاست دانوں کو ناکام ثابت کرنے کیلئے روڑے اٹکائے جانے میں مصروف کار ہیں اور حکومت بے دست و پا ہو کر وہ کچھ کر نہیں پا رہی، جو عوام کا استحقاق اور جمہوری سلسلے سے وابستہ ان کے آدرشوں کا تقاضا ہے تو حکومت یہ تو کر لے کہ اپنے وزیروں، مشیروں، لاڈلوں اور رسہ گیروں کی فوج ظفر موج کا ہاتھ عوامی خزانے کو لوٹنے سے روک لے! کلرکوں، نائب قاصدوں جیسے کم گریڈ غریبوں کی نوکریاں تک فروخت کی گئیں۔ یہ تھے عہد کہن کو زمیں بوس کرنے والے عہد نو کے ماؤ نواز نعرہ زن! حیف صد ہا رنگ حیف، کیسے بے کیف ترقی پسندوں کے ہاتھ پاکستانی عوام چڑھ گئے ہیں! جن کے دور میں انسانی قدروں و حقوق کی پامالی تو کیا، خون کی ارزانی نے تمام بازار ماند کر دیئے، قند مکرر، فکر اعلیٰ کہ لبرل یا ترقی پسند ہیں۔ عمل جیسے تاتاری، مغل درباری…

تاریخ کا نوحہ یہ نہیں ہے کہ کیا ہوا۔ اداس شام میں اس کا بھی ماتم ہے کہ کیا ہونے والا ہے! پری پول دھاندلی کے ذریعے اے این پی کی راہوں کو پُرخار بنانے کیلئے جو تماشا سجا ہے، اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کن کی راہوں میں پلکیں بچھائی جا رہی ہیں؟ پیپلزپارٹی سمیت وہ قوتیں جو لبرل و سیکولر ازم کی داعی ہیں اگر نظریاتی محاذ پر کج عملی کا شکار نہ ہوتیں تو آج انتہا پسندی کے مقابل توانا آواز ثابت ہوتیں اور کوئی وجہ نہیں کہ ایسے میں انتہا پر اعتدال بالادستی نہ حاصل کر پاتا کہ وطن عزیز کی غالب اکثریت امن، آشتی و خوشحالی کی خواہاں ہے۔ حقیقت مگر یہی ہے کہ جو لوگ لبرل و سیکولر ازم کا نعرہ لگاتے ہیں۔ اس نعرے کو عملی جامہ پہنانے کا جب وقت آتا ہے تو وہ اپنے نعرے کا ایسا استحصال کرتے ہیں کہ جو رجعت پسندوں کے گمان سے بھی کوسوں میل دور ہوتا ہے۔ لبرل دوستوں کو مبارک ہو، انتہا پسند اور ان کے حواری سینہ پھیلائے میدان میں موجود ہیں اور نظریاتی سوداگر اپنا سودا بیچ کر حسب ماضی لبرل ازم کو بیچ چوراہے پر چھوڑ گئے ہیں! پروین شاکر نے کیا خوب کہا تھا
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اُس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی