ٹِڈی دل، دُوسری عالمی وبا

June 15, 2020

ڈاکٹر رفعت سلطانہ

ٹڈی دل کی آمد اور تباہ کاریوں کا سلسلہ گوادر بلوچستان میں مارچ کے اوائل میں 2019ء میں شروع ہوا جو آہستہ آہستہ بڑھتے بڑھتے صوبہ سندھ میں 31مئی 2019ء کو تحصیل تھری میرواہ میں داخل ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں ایکڑ پر کھڑی تیار فصل کو نیست و نابود کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ 25 دسمبر 2019ء تک تقریباً 306320 ایکڑ اراضی کو کئی ملین لیٹر کیمیکل سے اسپرے کیا گیا یہ وہ وقت تھا جب عوام الناس کسی بھی کورونا وائرس کے نام سے بھی واقف نہیں تھی اور Covid-19 کا تصور صرف اور صرف چین تک ہی محدود تھا۔

اب جب کہ COVID 19کے خوف وہراس نے انسانی زندگی کو مکمل طور پر مفلوج کردیا ہے۔ جہاں صرف اور صرف سماجی فاصلہ ہی امن اور صحت کا ضامن ٹھہرایا جا رہا ہے، ایسے حالات میں ایک دفعہ پھر سے ان ٹڈیوں کی ہلکار نے لوگوں کو دُہری مصیبت میں مبتلا کر دیا ہے ۔ گزشتہ برس کے اوائل میں شروع ہونے والے اس ٹڈی بھیڑ (Locust swarm) نے گندم، مکئی، سبزیاں، دالیں، گنا، چاول، پھلوں غرض کہ ہر طرح کی ہری بھری چیز کو اپنی خوراک کا نشانہ بنایا یہ تصور ہی بڑا تباہ کن ہے کہ اب تک تاریخ میں نمودار ہونے والے ٹڈی بھیڑکو تاریخ کا بدترین اور تباہ کن بھیڑ( Swarm )تصور کیا جا رہا ہے، جس کی مثال کینیا کی 70ء سالہ تاریخ صومالیہ، ایتھوپیا، پاکستان، انڈیا، ایران اور افغانستان کی گزشتہ دہائیوں میں کہیں نہیں ملتی۔

کہنے کو تو یہ ایک ادنیٰ سا صحرائی حشرہ ہے جو دیکھنے میں معمولی سا اور بالکل بے دریغ سا جاندار نظر آتا ہے لیکن اس کی تباہ کاریوں نے ملکی معیشت پر ناقابل تلافی اثرات مرتب کئے ہیں۔ اگر تاریخی شواہد کا جائزہ لیا جائے تو ٹڈی کا قدیم تصور 2400BC میں ملتا ہے جب فرانس وہ پہلا ملک تھا، جس نے سب سے پہلے اس کی تخریب کار فطرت کو جانچتےہوئے تاریخ میں سب سے پہلے اس کی پوسٹ ٹکٹ جاری کی ۔ اگر چین کی قدیم ثقافت و تہذیب تمدن کا جائزہ لیا جائے تو Chinese خطاطی میں آج بھی ٹڈی کے خد و خال محفوظ ہیں۔ 1915ء میں فلسطین ٹڈی کی تباہ کاری کی پہلی شکار معیشت تھی جہاں پرہونے والے نقصان کا تخمینہ لگانا بہت مشکل ہے۔

ٹڈی دل کی ان تباہ کاریوں کو دیکھتے ہوئے عالمی دُنیا میں پہلی مرتبہ اس کی باقاعدہ روک تھام/ مؤثر کنٹرول کے لیے ایک عالمی سسٹم (Global Locust Management System) اٹلی کے مقام روم میں متعارف کروایا گیا جہاں آج تک اس کی باقاعدہ منیٹائزنگ (monetizing) ہوتی ہے اور دُنیا میں اس کو پہلی بار ایک خطرناک جاندار کے طور پر متعارف کروایا گیا جو بذات خود تو انسان کو کچھ نہیں کہتا لیکن اُن کا زندہ رہنے کے لیے کچھ باقی بھی نہیں چھوڑتا ہے اور اس کے حملے کے بعد برسوں ملکی معیشت مستحکم نہیں ہو پاتی اور کوئی بھی ملک مزید تباہ و بربادی کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے یہاں ترقی کا تصور پھر محال ہی لگتا ہے۔

آج بدقسمتی سے جب پوری قوم Covid-19 کے باعث گھروں تک محصور ہیں وہاں اس لاک ڈائون کی حالت میں ان ٹڈیوں کو مزید حوصلہ افزاء ماحول فراہم ہو رہا ہے ۔گزشتہ مہینوں میں بلوچستان، پنجاب اور سندھ میں ٹڈیوں کے جھنڈ کے جھنڈ نمودار ہونا شروع ہوئے تھے جو کچھ ہی دنوں میں افزائش پا کر اب ایک مکمل اور مضبوط بھیڑمیں تبدیل ہو چکے ہیں اور گزشتہ ہفتے جام شورو، مٹیاری، ہالا، میرپورخاص میں ایک مکمل بھیڑ اُڑان بھرتا ہوا صحرائی علاقوں کا رُخ کر رہا تھا۔ دوران اُڑان بڑی مقدار میں ٹڈی کا فاضل مادّہ کئی جگہوں پر گرتا ہوا نظر آیا جو بذات خود بھی ماحولیاتی آلودگی اور کئی قسم کی بیماریوں کا موجب بن سکتا ہے۔ اب جب کہ دُنیا ویسے ہی پریشان کن حالات سے دوچار ہے۔ اس حالیہ بھیڑ میں صرف سندھ میں کئی لاکھوں ایکڑ پر کھڑی زرعی اراضی بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

سندھ میں تیار شدہ فصلیں جن میں بھنڈی، بینگن، سبز مرچ، پھل خاص کر آم وغیرہ شامل ہیں مکمل طور پر اس بھیڑ سے متاثر ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان کا آم دُنیا میں کئی ممالک کو سالانہ ایکسپورٹ کیا جاتا ہے اور پاکستان اس کی درآمدسے کثیر زرمبادلہ کماتا ہے لیکن حالیہ نقصان کے بعد اس ایکسورٹ پر بھی بہت فرق پڑے گا ان تمام حقائق کو بیان کرتے ہوئے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ آخر 2019ء میں ایسے کیا حالات تھے جن کی بنیاد پر اتنی زیادہ تباہی ہوئی اور وہ کونسی وجوہات ہیں جن کا سدباب نہ کرنے سے ہمیں رواں برس اس صورت حال کا دوبارہ سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہماری اب تک کی تحقیق کے مطابق اس کی ممکنہ وجوہات درج ذیل ہیں۔

منیٹائزنگ(monetizing)کا فقدان

دُوردراز علاقے مکمل طور پر نظرانداز کئے گئے ہیں جو بالکل صحیح ہیں ان میں انڈوں سے Hatching ہوتی رہی اور بالآخر وہ Hipper بالغ بن کر ایک مکمل اور طاقتور Swarm بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ovipositionکے بعد انڈوں کو بروقت تلف نہیں کیا گیا ظاہر ہے agriculture wingsاور دُوسری تمام کنٹرول ایجنسیاں لاک ڈائون کی وجہ سے اپنا مؤثر کردار ادا نہیں کر پائیں اور مکمل منیٹائزنگ ممکن نہ ہو سکی ،جس کے نتیجے میں Hatching کے بعد اس صورت حال کاسامنا ہے۔

کئی ممالک جن میں انڈیا، ایران اور افغانستان شامل ہیں ان تمام کے مابین کوئی مشترکہ لائحہ عمل نہ بن سکا اور نہ ہی اس پر کوئی مؤثر عمل درآمد ہو سکا اور سب سے بڑا ستم ہے کہ ان تمام ممالک کا ماحولیاتی نظام آج کل لوکسٹ کو پروان چڑھنے کے لیےبہت زیادہ ہی مؤثر ثابت ہو رہا ہے،جس کی سب سے بڑی وجہ ملک میں بارشوں کا غیرمعمولی حساب سے ، بے موسم اور بے وقت ہونا شامل ہے۔ یہ وہ حالات ہیں جو لوکسٹ کی بریڈنگ کے لیے بڑے ہی اہم تصور کئے جاتے ہیں۔یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ یہ وہ وجوہات تھیں ،جس نے دوبارہ ٹڈی کو فعال بنایا ہے ،کیوں کہ ٹڈی عموماًان علاقوں میں پڑائو کو ترجیح دیتا ہے جہاں زیر زمین نمی اور پانی کی ترسیل کا بہترین نظام ہو ۔

ان علاقوں میں یہ عارضی قیام گاہ بناتا ہے پھر یہ اپنے مستقل ٹھکانے صحرا کی طرف گامزن ہو جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے صحرا کا رُخ کرتے کرتے یہ سب کچھ کھا جاتا ہے۔ کورونا وائرس کی طرح یہ بھی ایک آسمانی وباء ہے، جس کی لپیٹ میں معیشت بُری طرح کمزور ہو چکی ہے۔ اس کی بڑی سے بڑی وجہ قدرتی نظام کے مطابق نہ چلنا ہے۔

قدرتی طور پر اس کی روک تھام اور منیٹائزنگ کے لیےہمیں سرحدوں پر قیام کرنا ہے لیکن بدقسمتی سے ایسا ممکن نہیں ہے۔ FAO کے بریڈنگ زونز کی تقسیم کے مطابق چار ممالک جن میں انڈیا، پاکستان، ایران اور افغانستان شامل ہیں ان چاروں ممالک کی باہمی مشاورت اور ترجیحی ہنگامی بنیادوں پر ہی ٹڈی کے کنٹرول کے لیےحکمت عملی طے کرنا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا ہے درج ذیل میں وہ وجوہات ہیں جو کہ عالمی طور پر ٹڈی بھیڑ کی ذمہ دار ہیں۔

محدود سروے

روڈ اور ٹرانسپورٹ کا دُور دراز علاقوں تک مہیا نہ ہونا اور ملکی دفاعی سرحدی لائنوں پر پابندیوں کا ہونا (Locust Control) ٹیم کے کام میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ یہ وہ بنیادی وجہ ہے جو حالیہ ٹڈی کی افزائش کا باعث بنی۔

ٹڈی کی محدود اور ناکافی معلومات

تحقیقی طور پر کوئی بھی ٹڈی کے Behavior اور physiologyکو مکمل نہیں جانچ پایا ہے کسی بھی جاندار کو کنٹرول کرنے کے لیےزندگی کے ان تمام مراحلوں پر مکمل دسترس کی ضرورت ہے جب کہ ایک مؤثر کنٹرول کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے اور چاروں ممالک کو مل کر کام کرناہوگا۔

تولیدی (Breading Zones)

حکومتی سطح پر ایک عام تحقیق کو ٹڈی کی عادت کو جانچنے کے لیے دُور دراز علاقوں تک رسائی میں رہنمائی کرنی چاہئے ،تا کہ بروقت کنٹرول کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی تجویز کی جائے۔

کیمیکل کا استعمال

صدیوں سے ٹڈی کو کنٹرول کرنے کے لیے روایتی طور پر مختلف قسم کے کیمیکل کا استعمال بے دریغ کیا جاتا رہا ہے جو کہ ایک طرف تو ماحولیاتی آلودگی کا موجب جب کہ دوسری طرف انسانی رویوں میں منفی تبدیلی کا باعث ہے اور آج کیمیکل کا استعمال وہ حوصلہ افزاء نتائج بھی نہیں دے پاتا، جس کی ضرورت ہے نتیجتاً کیمیکل اسپرے اب اتنے مؤثر نہیں ہے اب یہ وقت ہے کہ دور حاضر کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے بائیولوجیکل کنٹرول کو متعارف کروایا جائے جو کہ آج بھی بیرونی ممالک میں ایک کامیاب طریقہ کار ہے، جس میں بیکٹیریا وائرسentamapathogenic اور دُوسرے کئی predators شامل ہیں ان کے حصول کو فیلڈ میں ممکن بنایا جائے۔

بیرونی سرحدوں پر تنازعات

بدقسمتی سے پڑوسی ممالک میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے سبب فوج کی بڑی نفری کا سرحدوں پر تعینات ہونا اور سارا سال دونوں ممالک کے درمیان رکاوٹوں کا ہونا کسی بھی ملک میں سرگرمی کو فعال نہیں ہونے دیتا اور خاص کر ٹڈی کو جو فطرتاً ہی nigatry جاندار ہے اس کی تو کوئی سرحد نہیں بلکہ اس کو کسی خاص سرحد کا پابند بنایا جائے۔ لہٰذا ان حالات میں جب ٹڈی کے موجودہ بھیڑ کے مکمل خاتمے کی ضرورت ہے۔ ان دفاعی لائن کی حکمت عملی کو کسی حد تک ٹڈی کنٹرول میں نرم بنایا جائے۔

لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام ممالک کے درمیان میٹنگ کو یقیناً بنایا جائے اور ٹڈی کی مکمل روک تھام کے لیے حکمت عملی تیار کی جائے۔FAOکی Breading system zone کے مطابق ان چارممالک کو سختی سے بین الاقوامی قوانین کا پابند رہنا ہوگا، جب ہی دُنیا اس دُوسری وباء سے محفوظ رہ سکے گی۔موجودہ صورت حال جہاں ہر طرف افراتفری کا سماں ہے۔ اس صورت حال میں فوری اور بروقت احتیاطی تدابیر ہیں جن کو اپنا کر Covid-19 کے ساتھ ساتھ ٹڈی بھیڑ سے بھی چھٹکارا پایا جائے۔ ہماری اب تک کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق عوام میں درج ذیل نکات کی آگاہی اور شعور اُجاگر کرنے کی بہت ضرورت ہے۔

Entami Phasy حشرات کھانا

یہ دراصل وہ تصور ہے جو زمانہ قدیم سے موجود ہے لیکن دور حاضر میں اس پر خاطرخواہ عمل نہ ہو سکا۔ موجودہ حالات میں عوام الناس میں ٹڈی کو کھانے کی تر غیب دینا ہے ۔اس میں غذائی افادیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اور پروٹین اور امائنوایسڈ کا تناسب دوسرے حشرات سے کہیں زیادہ ہے ۔موجودہ دور میں ان دونوں جزویات کا حصول خاصا مشکل ہے ۔ ہماری حقیقی کاوشوں کے مطابق Locust فیڈ پر پلنے والی پولٹری میں شرح اموات کم جب کہ نشو و نما کا ریشو کہیں زیادہ ہے اس طرح ٹڈی سے پولٹری صنعت کو بھی فروغ اور تقویت ملے گی اور یہ معاشی طور پر مزید مستحکم اور فعال ہوگا۔