سیکولرز کی منافقت اور لبرل فاشزم کا مظاہرہ

April 08, 2013

ریٹرننگ افسر کی طرف سے کالم نگار اور مسلم لیگ ن کے سابق ایم این اے ایاز امیر کے کاغذات نامزدگی رد کئے جانے پر میں نے اس فیصلہ کے حق میں اپنی رائے کیا دی کہ لبرل فاسشٹ اور کُپی گروپ سے تعلق رکھنے والے ایک مخصوص گروہ نے مجھ پر دھاوا بول دیا۔ان میں ایک تو اس قدر جذباتی ہو گیا کہ اُس نے مجھے ”شیطان“ تک کہہ دیا۔ آزادی رائے کے عَلم بردار مجھے میری رائے دینے پر گالیاں بک رہے ہیں۔ میرا جرم یہ تھا کہ میں نے یہ کیوں کہا کہ جو شخص یہ کہے کہ وہ شراب پیتا ہے اور وہ اسلامی نظریہ پاکستان کی مخالفتبھی کرتا ہو تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق وہ ممبر پارلیمنٹ نہیں بن سکتا۔ ایاز امیر سے نظریاتی اختلافات اپنی جگہ مگر یہ خوبی اُن میں ضرور ہے کہ وہ اگر شراب پیتے ہیں تو کھل کر اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اظہار بھی ایساکھلا کہ اپنے کالموں میں بھی اپنے اس شوق کو بیان کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا اظہار نہیں کرتے۔ ایاز امیر نے تو پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر یہ بھی مطالبہ کر دیا تھا کہ شراب کی پابندی کو ختم کیا جائے۔ مجھے اس بات پر مکمل یقین ہے کہ اپنی نااہلی کے خلاف اپیل کے وقت الیکشن ٹریبونل کے سامنے ایاز امیر اپنے سچ پر قائم رہیں گے۔ ورنہ منافقت کی یہاں تو کوئی کمی نہیں۔ اب یہی دیکھ لیں کہ اپنے آپ کو سیکولر کہنے والے، پاکستان کے اسلامی آئین کی مخالفت کرنے والے، اس ملک کے اسلامی نظریہ کا انکار کرنے والے جب الیکشن لڑنے کے لیے میدان میں اترتے ہیں تو یہ حلف اُٹھاتے ہیں کہ وہ اسلامی نظریہ پاکستان کی حفاظت کریں گے۔ وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں اسلامی نظریہ پاکستان ہی اس ملک کے قیام کا سبب بنا۔ یہی نہیں اس منافقت کا کھلا اظہار اہم سیاسی عہدوں مثلاً وزارتوں، وزارت اعلیٰ وغیرہ کے حصول کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔میری خواہش ہی رہی کہ کسی ایسے اصول پسند اور جرأت مند سیکولر کو دیکھوں جو اس منافقت سے پا ک ہوتے ہوئے اعلیٰ سیاسی عہدہ یا پارلیمنٹ کی ممبر شب اس لیے قبول نہ کرے کیوں کہ وہ پاکستان کے اسلامی نظریہ کو نہیں مانتا ، اس لیے کہ وہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔ہو سکتا ہے اس جرأت کا مظاہرہ بھی ایاز امیر صاحب ہی کر دیں۔ اس کام کے لیے انہیں کاغذات نامزدگی میں اسلامی نظریہ پاکستان کے حلف پر دستخط کرتے ہوئے اپنی ضمیر کے مطابق فیصلہ کرنا ہو گا۔ ایاز امیر کے برعکس ان کے حمایتیوں میں اسلام اور نظریہ پاکستان سے چڑنے والوں کی ایک بڑی تعداد ایسے افراد پر مشتمل ہے جن کے رویّے میں منافقت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ جو امریکی اور دوسرے مغربی سفارتخانوں میں شراب کے جام اُڑاتے ہیں، کچھ سیاستدانوں سے اسی حوالے (مفت شراب کی فراہمی) سے تعلق رکھتے ہیں مگر اُن میں اتنی جرأت نہیں کہ اس بارے میں سچ بول سکیں۔ وہ تو اتنے کاری گر ہیں کہ تاثر یہ دیا گویا کہ ایاز امیر کو اُن کی نظریہ پاکستان کے متعلق رائے پر نااہل قرار دیا گیا ہے جب کہ چار صفحات پر مشتمل فیصلہ کے مطابق ن لیگ کے رہنما کو ریٹرننگ افسر نے شراب پینے کی وجہ سے نااہل قرار دیا تھا۔ بحث یہ کی جا رہی ہے کہ قرآن اور سنّت رسولﷺ کی کس تفسیر کو مانا جائے اور یہ کہ یہاں تو مسلمان کئی فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اسلام مخالفت کے بہانے ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ورنہ سوال تو سیدھا ہے کہ کیا اسلام، آئین پاکستان اور ہمارا قانون شراب پینے کی اجازت دیتا ہے۔ کسی فرقہ سے پوچھ لیں جواب ایک ہی ہو گا کہ کوئی شرابی، کوئی زانی، کوئی بدکردار شخص، کوئی اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے والامسلمانوں کی رہنمائی کا اہل نہیں ہو سکتا۔ مجھے اس معاملہ میں اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے مگر سیکولر اور لبرل طبقہ کی یہ کیسی جنونیت اور عدم برداشت ہے کہ چوں کہ میری رائے اُن کی رائے سے نہیں ملتی، اس لیے پاکستان کے اسلامی آئین، نظریہ پاکستان اور آرٹیکل 62 اور 63کے ساتھ ساتھ مجھے آڑے ہاتھوں لیا۔ ایک اینکر پرسن تو ایسا جذباتی ہوا کہ اشارتاً میرا حوالہ دے کر اپنے ایک مہمان صحافی پر زور دیا کہ ”name the devil“(شیطان کا نام لو)۔ میرا جرم یہ ہے کہ میں یہ کہتا ہوں کہ پاکستان اور اسلام کو جدا نہیں کیا جا سکتااور یہ کہ پاکستان کے آئین کے مطابق اسلامی نظریہ پاکستان کا کوئی مخالف پارلیمنٹ کے اندر داخل نہیں ہو سکتا۔میں تو قرآن اور نبیﷺ کی سنّت کی بات کرتا ہوں، میں تو آئین پاکستان کا حوالہ دیتا ہوں۔ میرا جرم یہ ہے کہ نہ تو میں مفت کی شراب پینے والے کُپی گروپ کا ممبر ہوں نہ کبھی رہا۔ میرا یہ بھی جرم ہے کہ میں لبرل فاشسٹوں اور اسلام سے شرمندہ رہنے والے ایک با اثر طبقہ سے گھبرانے والا نہیں۔ میرے لیے تو یہ سب قابل ترس ہیں کہ بات تو برداشت اورآزادی اظہار رائے کی کرتے ہیں مگر ایک شخص کی رائے کو سننے کی سکت نہیں رکھتے۔ان کے تو چیمپئن تک ڈائیلاگ سے بھاگ جاتے ہیں ۔