ایک کے بعد دوسرا بحران

June 17, 2020

آٹے اور شکر کی قِلّت اور منہگائی کا بحران۔

کرونا کی وجہ سے پیدا ہونے والا بحران۔

ٹِڈّی دل کا بحران۔

پیٹرول کی قِلّت کا بحران۔

ادویہ کے نرخوں میں من مانے اضافے کا بحران۔

آکسیجن سلنڈر کے نرخوں میں ہوش ربا اضافے کا بحران۔

کرونا کے علاج کے لیےاستعمال ہونے والی ادویہ کے نرخ ہزاروں سے لاکھوں میں پہنچنے کا بحران۔

آج ملک کے طول و عرض میں بہت سے افراد یہ بحث کرتے نظر آتے ہیں کہ آخر ہم کب تک بحرانوں میں گِھرے رہیں گے۔ ایک کے بعد دوسرا بحران آتا ہے اور لوگوں کو ہلا دیتا ہے۔ قیامِ پاکستان سے آج تک ہم کئی بحرانوں سے گزر ے ۔ قوموںکی تاریخ میں بحران آتے رہتے ہیں، دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کس بحران سے کس طرح نمٹا گیا اور اس سے حاصل ہونے والے نتائج سے کیا سبق سیکھا گیا۔

پاکستان کی تاریخ ہر طرح کے بحرانوں سے بھری پڑی ہے، لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب ان کی رفتار تیز اور جہتیں وسیع ہوگئی ہیں۔ تاریخ کے طالب علم کے لیے اب یہ سوال پہلے سے زیادہ اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے کہ بحران کیوں آتے ہیں؟ تاریخ اس کا یہ سادہ سا جواب دیتی ہے کہ جب زندگی کے کسی شعبے میں زوال آتا ہے یا اس شعبے کے لیے اربابِ اختیار غلط حکمت عملی اور ترجیحات کا تعین کرتے ہیں تو اس کے منطقی انجام کے طور پر اس شعبے میں بحرانی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔

کرونا کا پیدا کردہ معاشی بحران

اگرچہ کووِڈ۔19سے پیدا ہونے والا شدید بحران کسی کی کوتاہی سے نہیں آیا، لیکن اس نے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کو بھی بُری طرح متاثر کیا ہے۔پاکستان چوں کہ ترقّی پذیرملک ہے اور اس کی اقتصادی حالت بہت خراب ہے اس لیے کرونا نے اس کی بنیادیں ہلادی ہیں۔اس کے چھوڑے ہوئے اثرات ہمیں برسوں تک محسوس ہوں گے۔

چند یوم قبل وفاقی دارالحکومت،اسلام آباد میں اقتصادی جائزہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے وزیراعظم کےمشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے پورے ملک کی آمدنی 0.4 فی صد کم ہوگئی حالاں کہ ہم سمجھ رہے تھے کہ آمدنی تین فی صد بڑھے گی۔ تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں قومی آمدن میںتین تا ساڑھے تین فی صد نقصان دیکھنا پڑا۔ ملکی آمدن میں تیس کھرب روپے کانقصان ہوا۔

قومی اقتصادی سروے کے مطابق جولائی 2019سے مارچ2020تک کے عرصے میں ملک کا مجموعی قرض اور واجبات 20 کھرب 59 ارب 70 کروڑ روپے تک جا پہنچے۔یعنی مجموعی سرکاری قرض جی ڈی پی کا 88 فی صد تک پہنچ چکا ہے۔قرض و واجبات مجموعی ملکی پیداوار(جی ڈی پی) کے 102.6 فی صد تک پہنچ چکے ہیں۔ سروے کے اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2020 تک سرکاری قرض جی ڈی پی کے84.4فی صدتک پہنچ گیا تھا۔ مشیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ نے پریس کانفرنس میں سرکاری قرض جی ڈی پی کے88فی صد تک پہنچے کا اعلان کیا جس میں مارچ سے اب تک لیے گئے قرض، مثال کے طور پر اپریل میں آئی ایم ایف سے لیے گئے ایک ارب 40 کروڑ ڈالرز بھی شامل ہیں۔

اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق جولائی 2019سے اپریل2020کے عرصے میں صارف قیمت اشاریہ (چی پی آئی) افراط زر 11.22 فی صد رہی جو گزشتہ مالی سال اس عرصے میں 6.51 فی صد تھی۔رپورٹ میں کہا گیاہے کہ جلد خراب ہونے والی کھانے کی اشیا کی وجہ سےمنہگائی میں اضافہ ہوا اور اس شعبے میں منہگائی کی شرح 34.7 فی صد ریکارڈ کی گئی۔

اقتصادی سروے کے مطابق ملک میں کرونا وائرس کے اثرات سے مزید ایک کروڑ افراد کے خطِ غربت سے نیچے جانے کا خدشہ ہے۔سروے میں کہا گیاہےکہ کرونا وائرس کے باعث پاکستان کی معیشت پر منفی اثر پڑنے کی توقع ہے اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد پانچ کروڑ سے بڑھ کرچھ کروڑ ہو سکتی ہے۔ادہر پلاننگ کمیشن نے ضروریات زندگی کی لاگت یا کاسٹ آف بیسک نیڈ (سی بی این) کے طریقے سے غربت کا تخمینہ لگایاہے جس کے مطابق ماہانہ تین ہزار 250 روپے فی بالغ شخص رقم بنتی ہے۔اس طریقے کے مطابق ملک کی 24.3فی صد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔

ستّر برس میں پہلی مرتبہ ہماری جی ڈی پی منفی ہوگئی ہے۔جب جی ڈی پی میں کمی ہوتی ہے تو اس کامطلب ہے کہ ملک میں پیداواری شعبے میں کام رک گیا ہے یا پھر وہ سست روی کا شکار ہے، اس صورت حال کا شکار سب سے پہلے ایک عام فرد ہوگا کیوں کہ پیداواری عمل میں کمی سے نوکریاں ختم ہوں گی اور تنخواہوں میں کمی کی جائے گی۔ملک کے ممتاز ماہرِ اقتصادیات ،ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق پاکستان میں موجودہ دور میں فی کس آمدن ڈالرزمیں اوسطاً 1500 اور پاؤنڈ میں 1100 سالانہ ہے اور جی ڈی پی میں کمی یا اس کے منفی ہونے سے یہ فی کس آمدن کم ہوگی۔فی کس آمدن میں کمی کا اثر پاکستانیوں پر اس لیے بھی زیادہ سنگین ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں بچتوں کا رجحان کبھی حوصلہ افزا نہیں رہا، جو مشکل معاشی حالات میں مالی طور پر امداد دے سکیں۔

ڈاکٹر پاشاکے مطابق پاکستان میں چھ کروڑ افراد پر مشتمل ورک فورس ہے جس میں سے کرونا وائرس سے پہلے پچاس لاکھ افرادبے روزگار تھے جو مجموعی ورک فورس کا تقریباً چھ سے سات فی صد بنتے ہیں۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے جب کاروبار ٹھپ ہوگئے اور معاشی سرگرمیاں کو بریک لگ گیا تو اس سے بےروزگاری مزید بڑھ گئی ہے۔ان کے تخمینے کے مطابق پاکستان کےبے روزگار افراد میںپچھہتّراسّی لاکھ افراد کا اضافی ہو سکتا ہے جس سے ملک میں بے روزگار افراد کی مجموعی تعداد ایک کروڑتیس لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔

ڈاکٹر پاشاکے بہ قول اس صورت حال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لاک ڈاؤن اور معیشت میں سست روی کی وجہ سے ہر پانچ مزدوروں میں سے ایک بےروزگار ہو چکا ہے جو ان کے مطابق ایک سنگین صورت حال ہے۔ایسی صورت حال میں جی ڈی پی میں اضافہ اس لیے بھی ضروری ہےکہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کو روزگار فراہم کیا جاسکے۔ ان کے مطابق پاکستان کی آبادی میں ہر سال 2.1 فی صدکے حساب سے اضافہ ہوتا ہے۔دوسری طرف ملک کی مجموعی پیداوار میں منفی رجحان ایک نہایت سنگین خطرہ ہے۔

ادہر اقتصادی امور کے ماہر، خرم شہزاد کی کرونا وائرس کے پیدا کردہ معاشی بحران پر تجزیاتی رپورٹ اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ لاک ڈاؤن طویل ہونے سے معاشی سرگرمی نہ ہونے یا کم ہونے سے ایک کروڑ سے زاید افراد کی ملازمتیں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ان کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 2019میں کل ورک فورس ساڑھے سات کروڑ افراد پر مشتمل ہے جسے ماہانہ آٹھ ارب ڈالرز کے لگ بھگ تنخواہوں کی مد میں ادا کیا جاتا ہے۔ایک کروڑ سے زاید افراد کے ملازمتوں سے ہاتھ دھونے کی صورت میں وہ ایک ارب ڈالرز کی آمدنی سے ماہانہ محروم ہو جائیں گے۔ خرم شہزاد کا کہنا ہے یہ تخمینہ تنخواہ کی کم سے کم سطح پر لگایا گیا ہے۔

عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں جی ڈی پی کی شرح اس مالی سال میںدو سے ڈھائی فی صد رہنے کی توقع ہے۔یاد رہے کہ کرونا وائرس سے پہلے جی ڈی پی تین فی صد رہنے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔دوسری جانب تازہ ترین جائزوں میں ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک اور موڈیز نے پاکستان کی معیشت کے کرونا وائرس کے جھٹکوں سے مزید خراب ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

ٹِڈّی دل بھی پیچھے پڑا ہوا ہے

ممتاز امریکی جریدے بلوم برگ نے کہا ہے کہ پاکستان میں ٹٍڈّی دل کا حملہ کرونا وائرس سے بڑا اقتصادی خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔بلوم برگ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ زراعت پاکستانی معیشت کا دوسرا سب سے بڑا شعبہ ہے جو ملکی مجموعی پیداوار کا بیس فی صد حصہ پورا کرتا ہے اور ملک کی نصف افرادی قوت اس شعبے سے وابستہ ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹٍڈّیوں کے حملوں سے پاکستان میں فصلوں کی پیداوار متاثر ہونے سے شدید اقتصادی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ۔

وزارتِ تحفظ خوراک و تحقیق کے حکام کے مطابق ٹٍڈّی دل اب تک ستّاون ملین ہیکٹر سے زاید علاقے میں پھیل چکے ہیں جس میں سے تیئس ملین ہیکٹر پر فصلیں موجود ہیں۔ٹٍڈّیاں تیزی سے پھیل رہی ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔کسانوں نے بھی ٹٍڈّی دل کو کرونا سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ سماجی فاصلہ رکھ کر کرونا سےتو بچاجاسکتا ہے، لیکن ٹٍڈّی دل فصلوں پر حملہ کردیں تو قحط اور بھوک سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

پیٹرول کا بحران

ملک میں مئی کے پہلے ہفتے سے شروع ہونے والا پیٹرول کا بحران تاحال پوری طرخ ختم نہیں ہوسکا ہے۔ توانائی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے مطابق ملک میں تیل ذخیرہ کرنے کی محدود سہولتوں کے باعث پاکستان نے زیادہ درآمد کی شکل میں سستی پیٹرولیم مصنوعات خریدنے کا موقع ضایع کر دیا۔ایک سابق ڈی جی آئل کے مطابق اوگرا نے ایسی نجی آئل کمپنیز کو مارکیٹنگ کے لائسنس کیوں جاری کر رکھے ہیں جن کے پاس بیس روزکے لیے بھی پیٹرول ذخیرہ کرنے کی گنجایش نہیں ہے جو اوگرا کی طرف سے دیے گئے لائسنس کے مطابق لازم ہے۔ڈی جی آئل ہر مہینے مصنوعات کے جائزہ اجلاس کی صدارت کرتا ہے جسے سب کچھ معلوم ہوتا ہے۔

جیو نیوز کی تحقیق کے مطابق تین درجن سے زیادہ آئل مارکیٹنگ کمپنیز میں سے پی ایس او ر تین دیگر نجی آئل مارکیٹنگ کمپنیز کے پاس بیس روزکے لیے پیٹرولیم کی مصنوعات کا ذخیرہ رکھنے کی سہولت موجود ہے۔اس حوالے سے ماہرین کہتے ہیں کہ صورت حال کو بھانپتے ہوئے مارچ کے آخر میں پیٹرول کی درآمد ایک ماہ کے لیے نہیں روکنی چاہیے تھی۔ان کے مطابق حکومت پیٹرول کی درآمد ہونے دیتی اور تیل کے یہ جہاز کھڑے رہنے دیتی۔پیٹرولیم مصنوعات کا معیارچیک کرنےوالا سرکاری ادارہ ایچ ڈی آئی پی اس وقت تک ان جہازوں میں موجود تیل کو کلیئر نہ کرتا جب تک آئل مارکیٹنگ کمپنیز ریفائنریز سے پیٹرول نہ اٹھاتیں۔ماہرین کے مطابق اس طرح پیٹرول پمپس کو پیٹرول کی ترسیل متاثر نہیں ہوتی کیوں کہ جہازوں سے تیل اتارنے میں تاخیرپر ہونے والے جرمانوں کی وجہ سے آئل ریفائنریز سے اٹھائے گئے تیل کی سپلائی پمپس کو جاری رہتی۔

ماہرین کے مطابق ایک ماہ تک پیٹرول کی درآمد بند کرکے حکومت نے نجی آئل مارکیٹنگ کمپنیز کو مستقبل میں منافع خوری کا جواز خود فراہم کیا اور آئل سپلائی چین ٹوٹ گئی۔ماہرین نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا کہ کچھ نجی کمپنیزکے پاس پیٹرول کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہو اور حکومت اسے نکلوانہ سکے۔ آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل کے ایک سابق سربراہ کے مطابق ایک مرتبہ پیٹرول کی درآمد بند کر کے دوبارہ شروع کرنے میں کم ازکم تین سے چار ہفتے لگ جاتے ہیں اورچابی گھمانے سے پیٹرول کی درآمد شروع نہیں ہوتی۔

اس سارے معاملے پر گہری نگاہ رکھنے والے بتاتے ہیں کہ حکومت نے پہلے تیل کی درآمد پر پابندی لگائی اور پھر ہٹائی گئی تو سوائے تین آئل مارکیٹنگ کمپنیز کے کسی نے بھی درآمدی آرڈر نہیں دی۔ کیوں کہ یہ کمپنیز اس انتظار میں تھیں کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کے دام مزید گرجائیں تو پھر وہ آرڈر دیںتاکہ زیادہ سے زیادہ نفع کماسکیں۔ مگرہوا یہ کہ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کے دام میں اضافہ ہوگیا، اور پاکستان میں پیٹرول کانرخ عالمی مارکیٹ سے کم ہوگیا۔ اب اگر یہ کمپنیز آرڈر کرتیںتو انہیں فی لیٹر تقریباً سترہ روپے کا گھاٹا ہوتا۔ لہذا نقصان سے بچنے کے لئے انہوں نے آرڈر بک نہیں کرایا۔

یہاں سوال یہ ہے کہ ان کمپنیز نے آرڈر کیوں نہیں دیا؟ہر کاروبار میں نفع اور نقصان کا سلسلہ جاری رہتا ہے،مگر انہیں تو صرف منافع چاہیے۔یاد رہے کہ ان میں سے بہت سی کمپنیز کے اپنے پیٹرول پمپس بھی ہیں۔قواعد کے مطابق تمام آئل مارکیٹنگ کمپنیز اوگرا کی جانب سے اس بات کی پابند ہیں کہ وہ اکیس روزکی ضروریات کے مساوی اسٹاک اپنے پاس محفوظ رکھیں۔ مگران کمپنیز نے اس پابندی کی خلاف ورزی کی اور کسی نے ان سے کچھ نہیں پوچھا۔بتایا جاتا ہے کہ اس بحران میں مجبور صارفین کو ہائی اوکٹین فروخت کرکےان کمپنیز نے اربوں روپے کمائے ہیں۔

ہائی اوکٹین کے نرخ کا ڈراما بھی خوب ہے۔اوگرا نے اس مافیا کی ملی بھگت سے 2016سے اس کے نرخ ڈی ریگولیٹ کرارکھے ہیں۔لوگ سوال کررہے ہیں کہ آخر اس قسم میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں کہ صرف اسے یہ سہولت دی گئی ہے؟

آکسیجن سلنڈر کا بحران

پیٹرول کے بعد اب کراچی میں مریضوں کی سانسیں چلانے کے لیے ملنے والی آکسیجن کا مصنوعی بحران پیدا کر دیا گیا جو تا دمِ تحریر جاری ہے۔آکسیجن سلنڈر فروخت کرنے والے دکان داروں کا کہنا ہے کہ گیس مل نہیں رہی جس کہ وجہ سے قیمت بڑھ گئی ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ کرونا وائرس سے متاثرہ افراد ہسپتال میں جگہ نہ ہونے کے باعث گھروں میں خود کو قرنطینہ کیے ہوئے ہیں۔ ایسے میں آکسیجن خریدنا لوگوں کی مجبوری ہے اور زیادہ قیمت پر بیچنا دکان داروں کے لیے منافع خوری کا ایک ذریعہبن گیا ہے۔ناجائز منافع خوروں نے مريضوں کےلیے سا نس لينا بھی منہگا کردیاہے۔اس مافیا نے آکسيجن کا مصنوعی بحران پيدا کرکے قیمتوں میں پانچ سو فی صد اضافہ کر دیا ہے۔

آکسیجن ڈیلرز ایسوسی ایشن کے مطابق اسپتالوں میں کھپت بڑھنے کے باعث آکسیجن کی قِلّت پیداہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آکسیجن بنانے والے پلانٹس کے مالکان کہتے ہیں کہ ان کی پہلی ترجیح اسپتال ہیں۔دوسری جانب کراچی میں ایک آکسیجن پلانٹ کی خرابی سے پیداوار میںکمی کا سامنا ہے\۔عام مارکیٹ میں اس وقت دو ہزار روپے میں ملنے والا آکسیجن سلنڈر دس ہزار روپے میں مل رہا ہے۔ کمرشل سلنڈر کی قیمت پینتیس ہزارروپے تک پہنچ چکی ہے ۔خریداروں کا کہنا ہے کہ جس قیمت پر بھی سلنڈر ملے اسے خریدنا ان کی مجبوری ہے، مگر اس معاملے میں حکومت کوفوری نوٹس لینا چاہیے تاکہ قیمتوں پر قابو پا کر اور ذمے داروں کا تعین کر کے اس مصنوعی بحران پر قابوپایا جا سکے۔

بتایا جاتا ہے کہ کراچی میں آکسیجن کی فراہمی میںتین تا چار کمپنیز کی اجارہ داری ہے۔اس کارٹل نے کرونا وبا کی آڑ میں آکسیجن کی فراہمی میں کمی کر دی ہے۔ ایک ہفتے میں آکسیجن سلنڈر رِی فِل کرانے کے نرخوں میںدو مرتبہ اضافہ کیا جا چکا ہے۔ ایک ہفتے میں120 کیوبک فٹ گیس کا سلنڈر 300 سے بڑھ کرپہلے 550 روپے کا ہوا پھر اس میں مزید اضافہ کردیا گیا۔ آکسیجن کی قیمتوں میں اضافے سے کرونا سمیت دیگر بیماریوں میں مبتلا افرادپریشان پھررہے ہیں۔

انجیکشن کی بلیک میں فروخت

آکسیجن کے بحران سے پہلے اپریل کے پہلے ہفتے میں یہ خبر ذرایع ابلاغ کی زینت بنی تھی کہ ادویہ سازاداروں نے ادویات کی قیمتوں میںاز خود سوفی صد اضافہ کردیاہےجن میں جان بچانے والی ادویات بھی شامل ہیں۔خبر میں کہا گیا تھا کہ ادویہ سازاداروں کی جانب سے ادویات کی قیمتیں از خودسو فی صد تک بڑھانےپرلوگ پریشان ہوگئے ہیں۔ جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں بھی چار سو روپے تک اضافہ ہو چکا ہے۔میڈیکل اسٹورزکے مالکان کے مطابق ڈیڑھ ماہ بعد ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ امراض قلب کی دواکی قیمت میں317روپے کا اضافہ ہوچکا ہے، شوگر کو کنٹرول کرنےوالی دوا کی قیمت 272 سے 460 روپے اور بلڈ پریشر کی دوا کی قیمت 185 سے 500 روپے تک بڑھ چکی ہے۔

اطلاعات کے مطابق ٹی بی کی ایک دوا 872سے1625کی ہو گئی ہے ۔ ہارمونز کا ایک انجیکشن750سے1437کا ہو گیا ہے۔ گلے کے امراض کی دوا548سے 921روپے کی کر دی گئی ہے۔ سر دردکے لیے استعمال ہونے والی دوا کی قیمت میں27روپے فی پیکٹ اضافہ ہوا ہے۔دوسری جانب ادویہ سازاداروں کے مالکان کا کہنا ہے کہ ڈالر کی وجہ سے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا۔فارماسسٹس کا کہنا ہے کہ ادویات کے نرخوں میں کئی گنا اضافے نے ان کاروبار متاثر کر دیا ہے۔

پھر یہ خبر آئی تھی کہ ادویات کی قیمتوں میں سو فی صد اضافےکو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔لاہور ہائیکورٹ میں یہ آئینی درخواست ایڈووکیٹ ندیم سرور نے دائرکی تھی جس میں وفاقی حکومت سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔درخواست گزار کا مؤقف تھاحکومت نے جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں 9 سے 15 فی صدتک اضافہ کیا مگرادویات بنانے والی کمپنیز نےحکومتی نوٹیفکیشن کی آڑ میںسو فی صد اضافہ کر لیا۔درخواست میں کہا گیاتھا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ان کمپنیز کے خلاف قیمتوں میںناجائز اضافے پر کارروائی نہیں کر رہی ۔ درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ ان کمپنیز کے خلاف عدالتی کارروائی کا حکم دیا جائے۔

مئی کی اٹھائیس تاریخ کوحکومت پنجاب نے صوبے کے سرکاری اسپتالوں میں کووِڈ۔19کے باعث اموات میں اچانک اضافے کو دیکھتے ہوئے اس سے متاثرہ مریضوں کے علاج کے لیے ایکٹیمرا (Actemra) نامی زندگی بچانے والی دوا کے استعمال کی منظوری دی۔چارسو ملی گرام کے انجیکشن کے ذریعے جسم میں پہنچائی جانے والی یہ دوا ان مریضوں کو تجویز کی جائے گی جنہیں پھیپھڑوں کی پے چیدگیاں لاحق ہوں اور خون میں آئی ایل-6 کی سطح غیر معمولی ہو۔ خیال رہے کہ آئی ایل-6 ایسا کیمیکل ہے جو سوزش کا سبب بنتا ہے۔یہ خبر ذرایع ابلاغ میں آتے ہی اس انجیکشن کے نرخ کو بھی پر لگ گئے۔پھر ذرایع ابلاغ نے خبر دی کہ عام طورپرتیس ہزار روپے میں دست یا ب اس انجیکشن کے نرخ راتوں رات تین لاکھ روپے تک پہنچ گئے۔

پھر حکام جاگے۔وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ،ڈاکٹر ظفر مرزا نے اس انجیکشن کی قلت اور زیادہ نرخ کی وصولی کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے منافع خوروںکے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا ۔ان کا کہنا تھا کہ شدید بیمار مریضوں کے لیےٹوسیلیزوماب(ایکٹیمرا) انجیکشن 11952فی وائل منظورِ شدہ قیمت ہے،عوام زاید وصولی کی شکایات ڈریپ کے ٹول فری نمبر 080003727 پر درج کرائیں۔ترجمان وزارت صحت کے مطابق ڈاکٹر ظفر مرزا کی ہدایت پر ڈرگ پرائسنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں مارکیٹ میں ریمڈی زیور انجیکشن کی دست یابی کو یقینی بنانے کے لیے اہم فیصلے کیے گئے اوردو امپورٹرز اور بارہ لوکل مینوفیکچررز کی منظوری دی گئی ہے۔اجلاس میں قانون کے مطابق ریمڈی زیور کی کم سے کم قیمت کا تعین کیا گیا۔ڈاکٹر ظفرمرزا کا کہنا تھا کہ حتمی منظوری وفاقی حکومتی دے گی۔ان کا کہنا تھا کہ پہلے ریمڈی زیور کی محدود تعداد صرف مریضوں کے لیے درآمد کی جارہی تھی ۔ نئے اقدامات کے تحت اب دوا وافر مقدار میں موجود ہوگی۔یہ دوائیں مختلف اسپتالوں کی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے ایک مربوط نظام کے ذریعے شدید بیمار مریضوں کے لیے تقسیم کی جائیں گی۔

ان تمام بحرانوں کا حل بہ ظاہر آسان ہے۔اگر حکومت سیاسی مصلحتوں اور مفاہمتوں کی شکار نہ ہو۔یہ بحران انسانی ساختہ ہیں-مفادات پرست عناصر کے پیداکردہ ہیں- کچھ وقت کے لیے ریاستی وحکومتی نااہلی کا بھی شاخسانہ ہیں- قوانین اور ضابطوں کے عدم نفاذ کا نتیجہ ہیں۔ حقوقِ صارفین سے عدم آگاہی کا استحصال کرنے سے پیدا شدہ ہیں۔لیکن حکم راں چاہیں تو یہ تمام بحران بہت جلد ختم کیے جاسکتے ہیں۔بس قوّتِ ارادی کی ضرورت ہے۔