زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے

June 21, 2020

امریکا کے شہر منی پولیس میں گزشتہ ماہ پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام باشندے جارج فلوئیڈ کے قتل کے بعد نسلی امتیاز کے خلاف اور شہری حقوق کے لیے شروع ہونے والی تحریک امریکا سے نکل کر دیگر براعظموں تک پھیل گئی ہے۔ کورونا کی وبا کے باوجود لوگ باہر نکلے ہوئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک لاوا پھٹ گیا ہے‘ جسے روکنا ممکن نہیں۔ اس عظیم تحریک کا اصل محرک پولیس کے ظلم و تشدد کا ایک واقعہ بنا۔ عام خیال یہ تھا کہ امریکی پولیس محتاط ہوجائے گی اور آئندہ طویل عرصے تک اس طرح کا کوئی واقعہ رُونما نہیں ہوگا لیکن اگلے روز امریکا میں ایک اور سیاہ فام باشندہ پولیس کے ہاتھوں قتل ہوگیا۔ اٹلانٹا پولیس نے رے شارک بروکس نامی ایک سیاہ نام کو مبینہ پولیس مقابلے میں مار دیا۔ اس واقعہ کے بعد امریکا سمیت پوری دنیا میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نہ صرف سفید فام پولیس افسران نسلی منافرت کی بنیاد پر سیاہ فام ملزموں کو زیادہ تشدد کا نشانہ بناتے ہیں بلکہ پولیس قوانین میں بھی ایسے نقائص ہیں‘ جن کی وجہ سے پولیس کو تشدد اور قتل کا جواز مل جاتا ہے۔ اب یہ مطالبہ بڑھ رہا ہے کہ ان قوانین میں اصلاحات کی جائیں۔ اس واقعہ نے امریکا میں جلتی آگ کو مزید بھڑکا دیا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ امریکا میں سیاہ فام اور دیگر رنگ دار باشندے پولیس سے اس قدر نفرت نہیں کرتے‘ جس قدر ہمارے ہاں تاثر پایا جاتا ہے۔ پولیس اپنے بہتر رویے سے زیادہ تر معاملات کو خوش اسلوبی سے نمٹا دیتی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں پولیس ریاست اور استبداد کی طاقتوں کا آلہ کار ہے۔ ہمارے ہاں پولیس کے بارے میں لوگوں کے اندر جو نفرت اور خوف ہے‘ اس کا ہم نے کبھی درست اندازہ ہی نہیں لگایا اور یہ بات ہمارے مہذب ہونے کے بارے میں ایک سوالیہ نشان ہے۔ سندھ میں جب نئے پولیس قانون پر کام ہورہا تھا اور سندھ حکومت پولیس پر زیادہ چیک اینڈ بیلنس والی شقیں اس مسودہ قانون میں شامل کررہی تھی تو میں نے انہی کالموں میں سندھ حکومت کے اس موقف کی تائید کی تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی مخالف تمام سیاسی جماعتیں سندھ حکومت پر ہرطرف سے تنقید کے تیر چلا رہی تھیں۔ سندھ حکومت پر یہ الزام عائد کیا جارہا تھا کہ وہ ایک سویلین فورس کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ سب لوگ یہ دلیل رہے تھے کہ ہمارے ہاں پولیس کے نظام میں تمام خرابیوں کا سبب پولیس میں سیاسی مداخلت ہے حالانکہ ہم نے امریکا اور مغربی ممالک کے تجربات سے یہ سبق سیکھا ہے کہ جب سے وہاں پولیس کو منتخب نمائندوں کے تابع کیا گیا ہے‘ تب سے پولیس کے بے رحمانہ اور ظالمانہ رویوں کو کنٹرول کرنے اور اُن کے بے پناہ اختیارات کو چیک کرنے میں مدد ملی ہے۔ اُس کے باوجود کبھی کبھی ظلم و تشدد کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔میں خود طویل عرصے تک امریکا میں رہا ہوں، مجھے اس بات پر کامل یقین ہے کہ سفید فام باشندے اپنی فطرت میں انتہائی درجے کے نسل پرست ہیں لیکن نسلی امتیاز کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں اور اداروں کو وہ سب سے زیادہ مالی اور سیاسی طور پر سپورٹ کرتے ہیں۔ اُنہیں اپنے نسل پرستانہ ایجنڈے کے کام کرنے اور دُنیا کو اپنی نو آبادیاں بنانے کا صدیوں کا تجربہ ہے۔ اب وہ شعوری طور پر نسلی امتیاز کے خلاف تحریکوں کی حمایت کرتے ہیں اگرچہ اندر سے نسل پرست ہیں۔ وہ شاید یہ جان چکے ہیں کہ تاریخ انسانی بہت آگے سفر کرچکی ہے۔ میں نے امریکا میں رہ کر نسل پرستی کا ادراک کیا اور میں اپنے ملک میں لوگوں کے رویوں کو دیکھتا ہوں تو بہت خوف آتا ہے۔ ہم بلا جھجک نسلی منافرت کا اظہار کرتے ہیں،پولیس میں یہ رویہ انتہائی خوفناک ہے۔ صرف پولیس میں ہی نہیں‘ دیگر اداروں میں بھی نسل پرستانہ سوچ کی جڑیں گہری ہیں۔

ہماری پولیس نو آبادیاتی ریاستی رویوں کی امین ہے۔ ہمارے تھانوں میں زیادہ تر غریب‘ مزدور اور لاوارث لوگ لاک اپ میں بند ہوتے ہیں۔ ان میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ ہوتے ہیں‘ جنہیں مخصوص نسلی گروہ سے تعلق کی بنیاد پر پولیس اپنا شکار بنانا کوئی غلط کام تصور نہیں کرتی۔ وہ اگر پیسے دے دیں تو رہائی مل جاتی ہے۔ اگر نہ دے سکیں تو پھر وہ پیدا ہی قید میں رہنے کے لیے ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں‘ جو اپنے مخصوص نسلی گروہ کی وجہ سے کچھ کم بے رحمی کا شکار ہوتے ہیں۔ کراچی جیسے شہر میں پولیس مقابلوں میں بھی زیادہ تر مخصوص نسلی گروہوں کے لوگ مارے جاتے ہیں۔ کراچی میں چونکہ نسلی تقسیم زیادہ ہے۔ اس لیے یہاں چیزیں زیادہ واضح ہیں۔اسی طرح دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے لیے بھی مخصوص علاقوں کو مرکز بنا دیا گیا ہے۔ دُنیا میں کہیں ایسا نہیںہوتا کہ ملزمان کو گرفتار کرکے اُن پر مقدمہ چلائے بغیر اُن کی تصویروں اور مبینہ جرائم کی تفصیلات کے ساتھ میڈیا کو پریس ریلیز جاری کی جائے اور پریس ریلیز پر یہ لکھا ہوکہ ’’فلاں تھانے کا گڈورک‘‘۔ پولیس مقابلوں کی تحقیقات کے بغیر انعامات کا اعلان بھی کیا جاتا ہے۔ پولیس مقابلے کرنے والے پولیس افسران پولیس سسٹم سے نکل کر زیادہ طاقتور ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں روزانہ ایسی ہزاروں داستانیں پولیس کے ہاتھوں جنم لیتی ہیں‘ جن میں سے کسی ایک پر آج امریکا اور مغرب سراپا احتجاج ہیں۔ ہمیں بھی کچھ سوچنا چاہئے۔ کسی ایک تھانے کا اچانک دورہ کرکے دیکھ لیجئے کہ کیا ہورہا ہے۔ بقول کسے

پیامبر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا

زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے