ارشاد حسن خان بنام عرفان صدیقی

June 23, 2020

مشہور کالم نگار اور مسلم لیگ ن کے دور میں صدر ِ مملکت محمد رفیق تارڑ کے پریس سیکرٹری جناب عرفان صدیقی نےگزشتہ دنوں موٗقر روزنامہ جنگ میں، ایوانِ صدر سے صدر رفیق کی رخصتی کے آخری ایام کی کہانی کئی قِسطوں میں لکھی ہے۔ ہفتہ کی اشاعت میں اُنہوں نے قارئین کرام کو خصوصی اطلاع دی، کہ ایوان ِ صدرکی پانچویں منزل پر پرویز مشرف کی ’’ جشن تاج پوشی کا میلہ‘‘ سج گیا، حلف کا وقت ہو گیا، لیکن تقریب شروع نہ ہوئی پتا چلا کہ چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے ایک عجب اڑچن ڈال دی ہے ‘‘ اُنہوں نے اس ’’ عجب اڑچن ‘‘ کی تفصیل اپنے مخصوص اسلوب میں اتوار کی اشاعت میں بیان کی ہے۔

محترم کالم نگار، تاریخ لکھ رہے ہیں، لیکن اُنہوں نے یہ پروا کئے بغیر کہِ وہ تاریخ کے ساتھ کیا سلوک کررہے ہیں، یا اپنے قارئین کو غلط معلومات دے رہے ہیں، واقعات لکھتے وقت اس عاجز کو خواہ مخواہ گھسیٹ لیا ہے، یا کوئی رنجش غالب آئی ہے۔ اتوار کی اشاعت میں ’’19بر س پہلے چیف جسٹس کی اڑچن‘‘ کے عنوان سے کالم میں عاجز کو نہ صرف نشانہ تضحیک بنا یا ہے، بلکہ کردار کشی بھی کی ہے۔

ابتداً ارادہ تھا، کہ محترم نے جو حقائق کو مسخ کیا ہے، اور میری کردار کشی کی ہے۔اُس پر صبرکروں، خاموش ر ہوں اور معاملے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دوں، لیکن پھر بعض احباب نے یہ کہہ کر وضاحت کرنے پر اصرار کیا کہ تاریخ کا ریکارڈ درست رکھنے کے لئے جواب دینا ضروری ہے۔

ضمناً ذکر دوں، کہ ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے اور پرویز مشرف کو تین سال اور آئین میں ترمیم کا اختیار دینے پر تنقید و ستائش ہوئی تھی اور یہ سلسلہ ہنوزجاری ہے۔ میں نے اپنی زیرطبع خودنوشت ’’ارشادنامہ‘‘ میں تفصیل کے ساتھ ان سب باتوںکا جواب دے دیا ہے،البتہ مختصراً عرض کئے دیتا ہوں، کہ یہ فیصلہ اکیلے ارشاد حسن خان ( چیف جسٹس ) کا نہیں تھابلکہ نامور قانون دانوں جناب ایس ایم ظفر اور پٹیشنر خالد انور کی مشاورت سے سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے میری سربراہی میں کیا۔واضح رہے، ٹیک اوور ہو چُکا تھا۔ یہ کوئی ایسا فیصلہ نہیں تھا، کہ جس پر حکم امتناعی دے دیا جاتا، اور نہ ہی فوج کے ا قدام کو ریورس کیا جا سکتا تھا۔معترضین انصاف کریں کہ کیا کوئی ایسا تیس مار خان ہوسکتاتھا جوبیک جنبش قلم مارشل لا کو غیر قانونی قرار دے دیتا اور کیا یہ توقع ہو سکتی تھی، کہ جنرل مشرف سمیت جرنیل کسی ایسے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے واپس لوٹ جاتے، اس صورت ِ حال میں مختلف فیصلہ سے ملک و قوم کسی غیر متوقع مصیبت اور عدم استحکام میں مبتلا ہوجاتے۔

عدالت نے فیصلہ مرتب کرنے سے پہلے خود پٹیشنر خالد انور سے استفسار کیا کہ فیصلہ کیا ہو ؟ اُنہوں نے تسلیم کیا کہ یہ ممکن نہیں کہ اُن کی پٹیشن قبول ہو، یعنی نواز شریف حکومت کی بحالی۔ آپ (عدالت عظمیٰ) یہ کریں، کہ ’’ جو ہو چُکا اُسے کنڈون (محدود) کریں اگر کنڈون نہیں کریں گے تو ملک میں انارکی اور افراتفری پھیلے گی، جو ہم نہیں چاہتے۔لیکن ساتھ ہی ایک معقول ٹائم فریم دے دیں کہ یہ کب واپس جائیں گے ‘‘ چنانچہ اس کے بعد ’’ کب ‘‘ کی مدت کے تعین پر بحث چھڑ گئی۔ بالآخر تمام پہلوئوں کا جائزہ لینے کے بعد تین سال پر اتفاق ہوا،اور یوں جنرل پرویز مشرف کو( تین سال عملاً ڈھائی سال یعنی اس فیصلے کے ڈھائی سال بعد عام انتخابات ہو گئے۔)

ظفر علی شاہ کیس سے قبل جناب سرتاج عزیز، مسلم لیگ کے لیڈر کی طرف سے ایک پٹیشن دائر کی گئی۔کہ اگرانتخابی فہرستوں کو اپ ڈیٹ نہیں کریں گے۔تو کروڑوں ووٹرز حقِ رائے دہی سے محروم رہ جائیں گے۔اور اتنے لوگوں کی حق تلفی سے الیکشن شفاف کیسے ہو سکتے ہیں اس کے بغیر الیکشن نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے یہ استدعاکی کہ الیکشن کمیشن انتخابی فہرستیں اپ ڈیٹ کرے۔ ظفر علی شاہ کیس کے دوران بھی چیف الیکشن کمشنر نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ہمیں ساری الیکٹورل رول (انتخابی فہرستوں) کو اپ ڈیٹ کرانا ہے Delimitation (حلقوں کی حد بندیاں) کرانی ہیں، ہم نے Objections لینے ہیں۔ الیکٹوول رول کے اپ ڈیٹ ہونے پر کسی کو اعتراض نہیں تھا میں نے کہا کہ جب ہم اس چیز کا جوڈیشل نوٹس لیتے ہیں کہ الیکٹورل رول اپ ڈیٹ نہیں ہیں۔تو ہم کیسے کہہ دیں کہ کل الیکشن کرا دو۔ ہمارا تو دل چاہتا ہے کہ فوراً الیکشن کرا دیں۔ مگر الیکٹورل رول اپ ڈیٹ نہ ہونے کے باعث ایسا ممکن نہیں ہے جبکہ چیف الیکشن کمشنر کہتے ہیں انہیں دو سال کا عرصہ درکار ہے۔ اس پر ہم نے کہا کہ ہم تین سال دیتے ہیں اور اس مدت کا پہلا دن ٹیک اوور سے شروع ہو گا۔ اس وقت ٹیک اوور کو چھ ماہ ہو گئے تھے باقی ڈھائی سال میں الیکشن کرانے کا حکم دے دیا۔ جنرل مشرف کو تین سال میں انتخابات کرانے کا پابند مسلم لیگ ن کے وکیل خالد انور،(معاون دوست) ایس ایم ظفر اور دیگر وکلاء صاحبان کے دلائل اور سرتاج عزیز کی پٹیشن کی روشنی میں کیا گیا۔

ایک الزام یہ بھی ہے کہ مارشل لا کو تین سال دینے کے عوض، انعام کے طور پر چیف الیکشن کمشنری مرحمت ہوئی، یہ الزام بھی بے بنیاد ہے، اصل قِصہ یہ ہے کہ جب میر ی بحیثیت چیف جسٹس مدت پوری ہونے کو آئی تو مارشل لا انتظامیہ کی طرف سے شریف الدین پیرزادہ پیشکش لائے، کہ ہم آپ کو بہ طور چیف جسٹس آف پاکستان تین سال کی توسیع دینا چاہتے ہیں، میں نے ایک لحظہ کے توقف کے بغیر جواب دیا، کہ مجھے توسیع منظور نہیں، خواہ وہ ایک دن کی کیوں نہ ہو۔ پھر فوجی حکومت کی طرف سے زور دیا گیا، کہ چونکہ آپ نے ہمیں ایک معینہ مدت کے اندر الیکشن کرانے کا پا بند کیا ہے لہٰذا اب آپ کم ازکم الیکشن تو خود کراکر جائیں۔ چنانچہ میں نے ملک و قوم اور آئین و جمہوریت کے بہترین مفاد میں یہ پیشکش قبول کر لی۔ پھر ملک و قوم نے دیکھا کہ مقررہ مدت کے اندر اندر عام منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات ہوئے اور فو ج واپس بیرکوں میں چلی گئی، یہ سپریم کورٹ کے ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے کا نتیجہ تھا، کہ ماضی کے برعکس عوام کو آمر سے نجات کے لئے، نہ کوئی اے آرڈی چلانا پڑی، اور نہ کوئی خون خرابہ ہوا۔ آئین پوری قوت کے ساتھ نافذ اور جمہوریت بحال ہو گئی۔ (جاری ہے)