جمہوریت۔ ایمان نہ کفر

April 11, 2013

کالم کے اصل موضوع پر آنے سے پہلے میں اُن قارئین کرام کا بے حد مشکور ہوں جنہوں نے میرے گزشتہ کالم ”سیکولرز کی منافقت اور لبرل فاشزم کا مظاہرہ“پر مجھے بے پناہ سراہا اور میرے لیے دعائیں کیں۔ قارئین کے اس ردّعمل نے مجھے احساس دلایا کہ پاکستان کے لوگ جن میں بیرون ملک پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے، اسلام پسند ہیں۔ وہ اسلامی نظام کے لیے دل میں تڑپ رکھتے ہیں مگر ہماری بدقسمتی کہ پاکستان پر ہمیشہ ایسے افراد مسلط رہے جنہوں نے نظریہ پاکستان کی بات تو کی اور ملک کو ایک اسلامی آئین بھی دیا مگر عمل میں سب زیرو رہے نتیجتاً اسلامی جمہوریہ پاکستان ہونے کے باوجود ہمارا عملی طور پر کسی بھی طرح اسلامی ریاست کا چہرہ نہیں ۔ بلکہ ہم الٹا اسلام کے خلاف چل رہے ہیں اور اسی وجہ سے شرابی، زانی، چور اچکے، جعلی ڈگری والے ہمارے لیڈربن بیٹھے ہیں، سود اللہ اور اللہ کے رسولﷺ سے جنگ ہونے کے باوجود ہمارے معاشی نظام کا اہم حصہ ہے، بے حیائی اور عریانی خوب پھیل رہی ہے اور اسلام مخالفوں اور پاکستان کے اسلامی نظریہ کو نہ ماننے والوں کو خوب نوازا جارہا ہے ۔ اور اب تو صورتحال یہ ہے کہ داڑھی، نماز، پردہ وغیرہ کو انتہا پسندی سے جوڑ دیا گیا ہے جبکہ جہاد اور دہشتگردی کو گڈمڈ کر دیا گیا ہے۔اس سب کوختم کرنے کے لیے پاکستان کی خاموش اکثریت کو اپنی اسلام پسندی کے حق میں بولنا پڑے گا۔ جو جہاں بھی ہے، کسی شعبہ سے بھی اُس کا تعلق ہو، دنیا کے کسی بھی حصہ میں رہتا ہو اپنی مسلمانیت، اسلام اور اس عظیم مذہب کے پیغام کو فخرکے طور پر پیش کرنا ہو گا۔ کچھ قارئین کرام نے میرے کالم سے یہ تاثر لیا گویا میں لبرل فاشسٹوں کے حملہ سے گھبرا گیا۔ ایسے پڑھنے والوں کی خدمت میں عرض ہے جو اپنا کام عبادت سمجھ کر کرتا ہو اور جس کے لیے دعا کرنے والوں کی اتنی بڑی تعداد ہو وہ مفتے کی شراب پینے والوں، غیروں کی نوکریاں کرنے والوں، اپنی پہچان اور اپنے اصل سے شرمانے والے لبرل فاشسٹوں سے بھلا کیوں گھبرائے گا۔ میرا تو اپنے دین کی اس بات پر مکمل ایمان ہے کہ اگر ساری دنیا مل کر مجھے نقصان پہنچانا چاہے اور ایسا میرے رب کو منظور نہ ہو تو میرا کوئی ایک بال بھی بیکا نہیں کر سکتااور اگر ساری دنیا مل کر مجھے فائدہ دینا چاہے مگر میرے اللہ کو ایسا منظور نہ ہو تو مجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ ویسے میڈیا میں موجود لبرل فاشسٹوں کو اعجاز حیدر جیسے لبرل اور سیکولر سینئیر صحافی سے سیکھنا چاہیے کہ اختلاف رائے کی صورت میں بات کرنے کا سلیقہ کیاہوتا ہے۔
گزشتہ کالم کے حوالے سے بات ذرا لمبی ہو گئی۔
اب اصل موضوع کر طرف آتے ہیں۔ جمہوریت کسی کے لیے ایمان کا حصہ تو کسی کے لیے کفر کا نظام ہے۔ ایک طرف جمہوریت کے لیے سب کچھ قربان کرنے کا ایسا جنون ہے کہ بعض اوقات تو ایسا معلوم ہوتا ہے اسلام پیچھے چھوڑ دیا گیا اور جمہوریت آگے نکل گئی۔ دوسری طرف اس نظام حکومت سے تحریک طالبان پاکستان کی ایسی نفرت کہ مرنے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ میں ذاتی طور پر دونوں نقطہ نظر سے اختلاف کرتا ہوں۔ اگر مغربی یا لادینی جمہوریت کی بات کی جائے تو واقعی وہ ایک کفر کا نظام ہے جس میں فیصلے اور قانون سازی محض اکثریت کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ جہاں اکثریت اگر چاہے تو قانون سازی کے ذریعے ہم جنس پرستی جیسے عمل کو بھی صحیح قرار دیا جا سکتا ہے اور ایسا کئی مغربی ممالک میں بھی ہوا۔ جہاں اللہ کے قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، مذہب ذات تک محدود ہوتا ہے اور عوام کو اصل طاقت سمجھا جاتا ہے۔ جہاں عوام کے فیصلے کو حتمی سمجھا جاتا ہے۔ایسی جمہوریت کا بلا شبہ اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کی ضد ہے۔بحیثیت مسلمان اسلام محض ہمارا دین نہیں بلکہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسی وجہ سے اللہ کی کتاب اور سنّت رسول میرے لیے اصل آئین کی حیثیت رکھتا ہے۔ جمہوریت میرے ایمان کا حصہ نہیں مگر جب میں پاکستان کا آئین پڑھتا ہوں تو یہ آئین ایک ایسی جمہوریت کا عہد کرتا ہے جو مغرب سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ ہمارے نظام حکومت کو قرآن اور سنت کی حدوں کے اندر محدود کر دیا گیا ہے۔ جو ہو رہا ہے اُس سے مجھے بہت اختلاف ہے مگر آئین پاکستان ایک مکمل اسلامی نظام کے قیام کی بات کرتا ہے۔ مثلاً آئین میں درج قرارداد مقاصد کے کچھ متعلقہ مندرجات کہتے ہیں: ”چونکہ اللہ تبارک تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلا شرکت غیر حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کے مقرر کردہ حدوں کے اندر استعمال کرنے کا حق ہو گا، وہ ایک مقدس امانت ہے..........جس (ریاست) میں جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور عدل عمرانی کے اصولوں پر جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے، پوری طرح سے عمل کیا جائے گا؛ جس میں مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی حلقہ ہائے عمل میں اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگی کواسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق، جس طرح قرآن پاک اور سنت میں ان کا تعیّن کیا گیا ہے، ترتیب دے سکیں؛ جس میں قرار واقعی انتظام کیا جائے گا کہ اقلیتیں آزادی سے اپنے مذہب پر عقیدہ رکھ سکیں اوران پر عمل کر سکیں ...........۔“ اسی آئین کے آرٹیکل 2 کے مطابق ”اسلام کو پاکستان کا مملکتی مذہب اور قراردار مقاصد میں بیان کردہ اصول اور احکام کو دستور کا مستقل حصہ قرار دیا جاتا ہے۔اسی آئین کے آرٹیکل 31 کے مطابق پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کئے جائیں گے جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنّت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔ اسی آئینی شق میں یہ بھی کہا گیا کہ ریاست پاکستان، مسلمانوں کیلیے قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینے، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنے اور اس کے لیے سہولتیں بہم پہنچانے اور قرآن پاک کی صحیح اور من و عن طباعت اور اشاعت کا بھی اہتمام کرے گی“۔ اسی آئین کا آرٹیکل 227 کہتا ہے، ”تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت سے منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا.......... اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو۔“ دوسری اسلامی شقوں کے علاوہ یہی آئین اس بات کابھی تقاضا کرتا ہے کہ مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کا ممبر بنے والے کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ سمجھ دار، پارسا، ایمان داراورامین ہو، فاسق نہ ہو، وہ اچھے کردار کا حامل ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف نہ کرتا ہو، وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو اور اسلام کے مقررکردہ فرائض کا پابند ہو۔ نیز کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرتا ہو، کسی اخلاقی پستی میں ملوث نہ ہو اور وہ نظریہ پاکستان کا مخالف نہ ہو۔گویا آئین پاکستان ایک ایسی جمہوریت کی بات کرتا ہے جو مکمل اسلام کے دائرہ کار کے اندر ہو اور جس کے حکمران اور ممبران پارلیمنٹ باعمل مسلمان ہوں۔ اگر ہمارے سیاستدان، حکمران اور پارلیمنٹ ممبران اس آئین پر عمل نہ کریں تو ہمیں اصل بیماری کی طرف توجہ کرنی چاہیے نہ کہ آئین کو بغیر پڑھے بُرا بھلا کہنا شروع کر دیں۔ اختلاف کی بنیاد پر قتل و غارت کرنا، اپنے ہی لوگوں، فوج، پولیس وغیرہ کو مارنا، اسلامی جمہوریہ پاکستان کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ اسلامی نظام سے اگر طالبان کو دلچسبی ہے تو بندوق کو چھوڑ کر پر امن جدوجہد کی طرف آئیں۔ آئین پاکستان کی صورت میں یہاں اسلامی نظام کے نفاذ کا راستہ واضح ہے۔