بقلم خود آپ بیتی،جگ بیتی

July 05, 2020

مصنّف: آزاد بن حیدر

صفحات: 688 ،قیمت: 1000 روپے

ناشر: تحریکِ پاکستان فاؤنڈیشن۔

کتاب ملنے کا پتا:فضلی بُک سُپر مارکیٹ،کراچی۔

وہ نسل اب لگ بھگ لبِ گور ہے، جس نے تحریکِ پاکستان کواپنے شعور کی منزلوں میں دیکھا اور وہ نسل تو اب تقریباً ناپید ہے کہ جس نے اس تحریک میں عملی طور پر حصّہ لیا۔ آزاد بن حیدر کا شمار ثانی الذکر نسل کی قریب المعدوم ہستیوں کے اُن چند گنے چُنے افراد میں کیا جا سکتا ہے، جو سماج کے لیے اب چراغِ سحری کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک طویل اور متحرّک زندگی کی ہنگامہ خیز یادیں، جس کا آغاز شہرِاقبال یعنی سیال کوٹ سے ہوتا ہے، جہاں مصنّف کی کتابِ حیات کا اوّلین صفحہ پُر ہوا، باب میں ڈھلا، باب ابواب میں منتقل ہوئےاور پھر رفتہ رفتہ کتاب دِل چسپ واقعات و حالات سے صفحہ در صفحہ ضخامت اختیار کرتی چلی گئی اور بالآخر مرتّب ہو کر تاریخ کی شکل میں محفوظ کر دی گئی۔اس آپ بیتی میں مصنّف کی زندگی کے روز وشب کا احوال تو ایک قصّۂ ناگزیر کے طور پر موجود ہی ہے، تاہم سماج سے گہری وابستگی کے باعث اسے یک ساں طور پر جگ بیتی کا رُوپ بھی عطا کیا گیا ہے۔

اور وہ بھی اس شکل میں کہ قیامِ پاکستان کے ابتدائی دِنوں سے لے کر تادمِ تحریر قومی، سیاسی اور سماجی رُخ پر بھی گہری روشنی ڈالی گئی ہے۔ کتاب کے مندرجات اتنے متنوّع ہیں کہ محض ان کا تعارف ہی کروایا جاسکتا ہے۔ تعلیمی ادارے، سیاسی جماعتیں، اُن کے رہنما، سیاسی تحریکیں، نمایاں دینی شخصیات اور اُن سے وابستہ دینی جماعتیں، دِل چسپ واقعات غرض یہ کہ مختلف نوعیت کی معلومات پر مبنی باتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ قاری کو اپنے سحر میں جکڑے رہتا ہے۔ خود مصنّف کا تعلیمی، سیاسی، روزگار اور دینی مشاغل کا احوال بھی کم دِل چسپی کا حامل نہیں۔ کوچۂ سیاست سے جُڑا ایک واقعہ مصنّف نے یہ بھی تحریر کیا ہے کہ پاکستان کے گورنر جنرل رہنے والے صاحبِ کردار سیاست دان،خواجہ ناظم الدین معزولی کے بعد کسی موقعے پر کراچی آئے۔

ڈھاکا سے جو تھوڑے بہت پیسے لائے تھے، ختم ہو گئے۔تاہم،زر سے محروم اور عزّتِ نفس سے مالا مال خواجہ ناظم الدین نے اس کا کسی سے تذکرہ بھی کرنا مناسب نہ سمجھا۔ قریبی احباب نے کوشش کر کے پانچ ہزار روپے کا بندوبست کرکےاور اُن کی خدمت میں پیش کیا۔ خواجہ ناظم الدین نے قرض لے کر اپنی خواہش کے مطابق ایک سادہ کاغذ پر تحریر کیا کہ رقم کے عوض ڈھاکا کا مکان گروی کیا جاتا ہے۔ اس قسم کے واقعات یاد دلاتے ہیں کہ سیاست کی مملکت میں ہمارے پاس بھی بہت سے تاج محل تھے۔ کتاب میں ’’تصویر کدہ‘‘ اور ’’یادِ رفتگاں مع تصاویر‘‘ کے تحت بھی دیکھنے، پڑھنے اور سمجھنے کو بہت کچھ ہے۔

بلاتکلّف یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ زیرِنظر کتاب کی صُورت میں مصنّف نے کتاب سے پیار کرنے والوں کے لیے ایک عُمدہ سوغات مہیا کی ہے۔ یوں تو مصنّف کی بہت سی کُتب ہیں، تاہم ’’تاریخ آل انڈیا مسلم لیگ:سر سیّد سے قائداعظم تک‘‘اور ’’علّامہ اقبالؔ:یہودیت اور جمہوریت‘‘نے پڑھنے والوں سے بہت داد سمیٹی اور دونوں کتابیں حوالے کے طور پر جانی جاتی ہیں۔کتاب کی ضخامت کے حساب سے قیمت بھی بہت مناسب ہے۔