ماموں زاد ادارے کی تجاویز

July 07, 2020

پچھلے ہفتہ کا قصہ پڑھنے کے بعد میرے کئی ایک بڈھے ہم عصروں نے مجھ سے رابطہ کیا ہے۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ماموں زاد ادارے ایم ایف آئی کی ایک خفیہ فائل سے پار کئے ہوئے صفحوں میں بڈھوں کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے، میں وہ ان کو فوراً سے پیشتر بتا دوں، وہ جاننا چاہتے ہیں کہ خفیہ پنوں پر بڈھوں کے بارے میں کیا لکھا ہے۔ آئی ایم ایف کے ماموں زاد ادارے نے حکومت پاکستان کو ماموں بناتے ہوئے بڈھوں پر اُٹھنے والے غیرسود مند اخراجات کم یا پھر ختم کرنے کیلئے کیسی کیسی تجاویز دی ہیں؟

ہم، یعنی میرے ہم عصر بڈھے اب بہت کم رہ گئے ہیں۔ آپ ہمیں انگلیوں پر گن سکتے ہیں۔ ہم نے دوسری عالمی جنگ دیکھی۔ عالمی جنگ کے دوران ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر گرائے گئے ایٹم بموں کی تباہ کاریاں دیکھیں۔ تاجِ برطانیہ کو اپنی بےشمار کالونیوں سے دستبردار ہوتے دیکھا۔ نازی جرمنی کو ملیا میٹ ہوتے ہوئے دیکھا۔ ہندوستانی نوجوانوں کی سوچ پر کمیونزم کا غلبہ دیکھا۔آزادی کی تحریکوں کے سامنے انگریز کو ڈگمگاتے ہوئے دیکھا۔ اور پھر ہم نے ہندوستان کا بٹوارا دیکھا۔ فسادات کا کھولتا ہوا سمندر دیکھا۔ اگر کبھی ایک سو ممالک کا بٹوارا کیا جائے تب بھی اتنی بڑی تعداد میں لوگ نیست و نابود نہیں ہوں گے جتنے لوگ ہندوستان کے بٹوارے کے نتیجے میں تباہ و برباد ہوئے تھے اور موت کے گھاٹ اُتر گئے تھے، میری نسل کے بڈھے برصغیر پر نازل ہونے والی قیامتِ صغریٰ کے چشم دید گواہ ہیں۔

نوجوان نسل یہ مت سمجھے کہ ہم بڈھوں کی نسل تاریخ میں وہ بدنصیب نسل ہے جس نے صرف المیے دیکھے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ برصغیر میں ہم نے بجلی کی آمد دیکھی۔ جب کھمبوں پر تیل سے جلنے والی لال ٹینوں کی جگہ ٹمٹماتے ہوئے بلبوں نے لے لی تب ہم نے بر صغیر میں بہت کچھ تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا۔ ریڈیو کی آمد نے ہندوستانیوں کو حیرت میں ڈال دیا اور پھر ہم نے ایجادات کا ایسا سلسلہ دیکھا جس کے ہم نسل در نسل گواہ ہیں۔ ریل گاڑی کی پٹریوں کے ساتھ ساتھ کراچی سے کلکتہ اور کنیا کماری سے لیکر کشمیر تک ٹیلیفون کے تار بچھ گئے۔ سینما اور فلمیں ہندوستان کی انیک ثقاقتوں کے درمیان مشترکہ ثقافت کے طور پر چھا گئیں اس دوران برصغیر میں اسکول، کالج اور یونیورسٹیز تیزی سے کھلنے لگے۔ ٹیلی وژن، کمپیوٹر، موبائل فون، انٹرنیٹ برصغیر کی مشترکہ میراث بن چکے ہیں۔ ہم ہوشربا ایجادات کے تسلسل کے چشم دید گواہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ اتنا کچھ دیکھنے اور اس کا حصہ رہتے رہتے ہم بوڑھے تھک بھی چکے ہیں۔ اب ہم باری باری کہیں دور جاکر لمبی نیند سوجانا چاہتے ہیں۔ کوئی بھی شخص اس دنیا میں مستقل سکونت کا پروانہ اپنے ساتھ نہیں لاتا۔ ہم سب کو یہاں سے کوچ کرنا ہے مگر آئی ایم ایف کے ماموں زاد ادارے ایم ایف آئی کا کہنا ہے کہ پاکستانی بڈھے کوچ کرنے میں بہت دیر کردیتے ہیں بلکہ لگتا ہے افغان مہاجرین کی طرح پاکستان سے جانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ بڈھوں کی خدمت کرتے کرتے پاکستانی معیشت کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ معیشت کی کمر کسنے اور اقتصادی طور پر پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے لازمی ہو چکا ہے کہ پاکستان اپنے بڈھوں خاص طور پر ایسے بڈھوں سے جان چھڑائے جو پنشن یافتہ ہونے کے ناتے سرکاری خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ گرتی ہوئی دیوار کو صرف دھکا دینا ہے مگر احتیاط سے۔ کسی کو پتا لگنا نہیں چاہئے خاص طور پر الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے لوگوں کو۔خفیہ فائل سے نکالے ہوئے صفحوں پر بڑی تفصیل سے گرتی ہوئی دیوار کو دھکا دینے کی تدابیر لکھی ہوئی ہیں۔ اگر آپ میری طرح بڈھے ہیں تو پھر غور سے پڑھیں۔

تجویز نمبر ایک: پنشن لینے کی میعاد زیادہ سے زیادہ پانچ برس رکھی جائے۔ ریٹائر ہونے کے پانچ سال بعد پنشنر کو ایک سال کی پنشن ایڈوانس میں دینے کے بعد اس کی پنشن بند کردی جائے۔

تجویز نمبر دو: یہ جو پنشنر کے مرجانے کے بعد پنشن اس کی بیوہ کے نام ٹرانسفر ہوجاتی ہے، زیاں ہے۔ قانون سازی کرکے اس سلسلہ کو بند کر دینا چاہئے۔ حکومت پر پڑنے والا بوجھ کم کردیا جائے۔

تجویز نمبر تین: ٹیکس لازمی جز ہے۔ پنشنر کو کسی مد میں ٹیکس کی چھوٹ ہرگز نہ دی جائے۔ پنشن کی جمع پونجی پر پنشنر سے ٹیکس وصول کیا جائے۔ پنشنر کے پاس اگر اپنا ذاتی مکان ہے، تو پھر اس کو ملنے والی چھوٹ فوراً ختم کرکے اس سے پراپرٹی ٹیکس وصول کیا جائے۔

تجویز نمبر چار: فری میڈیکل ٹریٹمنٹ پنشنر، اس کی زوجہ، یعنی بیوی، اور صرف دو بچوں تک محدود کردی جائے۔ اگر کسی پنشنر کے دس بچے ہیں، ان میں سے صرف دو بچے فری میڈیکل ٹریٹمنٹ کے حقدار ہونگے۔ باقی آٹھ بچے جانیں اور ان کا نصیب جانے۔

تجویز نمبر پانچ: پانچ سال بعد پنشن بند ہوجانے کے بعد تجویز نمبر چاری میں دی گئی مراعات خود بخود بند کردی جائیں گی۔

تجویز نمبر چھ: اگرکسی پنشنر کی ایک سے زیادہ بیویاں ہیں، تو پھر پنشنر کے مرجانے کے بعد سب سے عمر رسیدہ یعنی بڈھی بیوی کے نام مرحوم کی پنشن ٹرانسفر ہوگی۔

تجویز نمبر سات: ریٹائر ہونے کے بعد دوسری یا تیسری شادی رچانے والے پنشنر کی پنشن فوراً بند کردی جائے۔

تجویز نمبر آٹھ: مامو ںزاد ادارے کے پُرکھوں کو پتا چلا ہے کہ بااثر لوگوں کی طرف سے حکومت پر دبائو ڈالا جارہا ہے کہ پنشنر کے انتقال کے بعد اس کی ایک ایک بیوہ کو مرحوم کو ملنے والی پنشن کے برابر پنشن ملنی چاہئے۔ ماموں زاد ادارہ کے پرکھوں نے متنبہ کیا ہے کہ اس سلسلہ میں حکومت کی ذرا سی لچک پاکستان کو ملنے والی امدادوں سے محروم کر سکتی ہے۔