پاکستانی ناول نگار ’’صبا امتیاز‘‘

July 16, 2020

پاکستان میں واضح طور پر دو زبانوں میں لکھے گئے ناولوں کو بہت زیادہ مقبولیت ملتی رہی ہے، دیگر مقامی زبانوں میں بھی ہر دور میں ادب تخلیق ہوتا رہا ہے اور بہت اچھی اچھی کہانیاں پیش کی جاتی رہی ہیں، لیکن پھر بھی شہرت کے لحاظ سے اردو اور انگریزی کے لکھنے والوں کو زیادہ فائدہ پہنچتا رہا ہے۔ آپ اگر اردو زبان میں لکھ رہے ہیں ، تو پاکستان، انڈیا اور دنیا کے ایسے خطے جہاں اردو سمجھی جاتی ہے، وہاں تک آپ کی آواز پہنچ جائے، لیکن آپ انگریزی زبان میں لکھ رہے ہیں، شاید پاکستان میں آپ کی مقبولیت، انگریزی بولنے اور پڑھنے والے طبقے تک مخصوص رہے ، مگر انڈیا سمیت یورپی ممالک اور امریکا تک آپ کی بات باآسانی پہنچ جائے گی،کیونکہ قارئین میں ناول کی صنف مقبول ہے۔

انگریزی زبان میں لکھنے والے پاکستانی ادیب، اپنے ملک سے زیادہ بیرون ملک شہرت رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے، ان کی کتابیں پاکستان کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک سے بھی شائع ہوتی ہیں اور ان کو عالمی سطح کا ادب پڑھنے والے قارئین میسر آتے ہیں، البتہ ان کی کتابوں کا ترجمہ اردو میں ہوجائے تو پھر وہ مقامی قارئین میں بھی شناسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ پاکستان کے انگریزی ادبی منظرنامے پر گاہے بگاہے نئے ناموں کا اضافہ ہوتا رہا ہے، ابھی کچھ عرصے سے ایک نیا نام انگریزی زبان کے ادبی اُفق پر طلوع ہوا ہے، اُنہیں’’صبا امتیاز‘‘ کہتے ہیں۔

صبا امتیاز پیشے کے اعتبار سے صحافی، محقق اور ناول نگار ہیں۔ ان کی عمر محض 35 سال ہے، لیکن اتنی کم عمری میں کافی بڑے بڑے کام کر رہی ہیں۔ دبئی میں پیدا ہونے والی یہ نوجوان نسل کی ابھرتی ہوئی ناول نگار کراچی میں رہتی ہیں، انہوں نے اپنی بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انگریزی صحافت میں طبع آزمائی کی، جز وقتی صحافی کے طور پر کالم اور فیچرز لکھتی رہیں، کچھ رپورٹس پر بھی کام کیا، فنون لطیفہ اور سماجیات کے علاوہ مختلف موضوعات پربھی لکھتی ہیں۔ پاکستانی کے دو بڑے انگریزی اخبارات سے قلمی کیرئیر کی ابتدا کی، جن میں سے ایک اخبار’’دی نیوز‘‘ ہے۔ کئی بین الاقوامی اخبارات کے لیے بھی لکھ رہی ہیں۔

انہوں نے اپنا پہلا ناول’’کراچی، یو آر کلنگ می‘‘ لکھا، جس کی اشاعت 2014 کو انڈیا سے ہوئی۔ اس ناول پر ہندوستانی میڈیا نے مثبت تبصرے کیے، اسی طرح پاکستانی اور دیگر عالمی سطح کے کچھ اخبارات نے بھی ان کے لیے نیک تمنائوں کا اظہار کیا۔ 2015 میں انہوں نے ایک پاکستانی فلم’’دیکھ مگر پیار سے‘‘ کا اسکرپٹ بھی لکھا، یہ فلم تاحال نمائش کے لیے پیش نہیں ہوئی۔ اب یہ دوسرا ناول’’نو ٹیم آف اینجلز‘‘ لکھ رہی ہیں اور اپنے لکھنے پڑھنے کے کام کے لیے پر جوش ہیں۔ پاکستان میں ہونے والے ادبی میلوں میں بھی شریک ہوتی ہیں۔

صبا امتیاز کے ناول’’کراچی، یو آر کلنگ می‘‘ کی کہانی ایک 26 سالہ خاتون صحافی عائشہ کے ارد گرد گھومتی ہے، جس میں کراچی کے پس منظرکے تحت، اس کی صحافتی جدوجہد کو بیان کیا گیا ہے۔ صحافت کے ساتھ ساتھ رومان، خواب دیکھنے اور کچھ منفرد صحافت کرنے کے جذبات، ان کا تصادم اور تنہائی کے احساس کو کرداروں کے ذریعے قلم بند کیا گیا ہے۔ اس ناول کے تناظر میں دو باتیں سمجھنا ضروری ہیں، ایک تو یہ کہ ناول ایک عام اور سطحی انداز کی کہانی بیان کر رہا ہے، جس میں کوئی بھی ایسی بات نہیں، جس کو ادب کہا جاسکے، پھر بہت ساری جگہوں پر ایسا محسوس ہوتا ہے ، ناول نگار نے اپنی لگژری زندگی اور محدود صحافتی تجربے کو بنیاد بناکر ناول لکھا، مگر وہ خود اس بات سے انکاری ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ صبا امتیاز پاکستانی ناول نگار’’مونی محسن‘‘ اور برطانوی ناول نگار’’ہیلن فیلڈنگ‘‘ سے بھی متاثر ہیں، انہوں نے اس کا اعتراف خود بھی کیا ہے۔ ان کی یہ دونوں خواتین ناول نگاروں کے ناول، کچھ اسی طرح کے خطوط پر لکھے گئے ہیں، جس طرز کا ناول صبا امتیاز نے خود لکھا، بالخصوص برطانوی ناول نگار کے تخلیق کردہ ناول’’بریج جونز ڈائری‘‘ سے بہت متاثرہ ہیں۔ اس برطانوی ناول نگارکے ناول پر 2001 میں فلم بن چکی ہے اور صبا امتیاز کے ناول پر بھی انڈیا میں 2016 کو فلم بنی، جس میں کراچی سے ممبئی کو بدل کر فلم کانام رکھا گیا، اس فلم میں معروف انڈین اداکارہ’’سوناکشی سنہا‘‘ نے ’’نور‘‘ کے نام سے مرکزی کردار نبھایا ہے۔ فلم کا اسکرین پلے صبا امتیاز سمیت دیگر تین لوگوں نے مل کر لکھا جبکہ مکالمے ’’اشیتاموئیتراادھوانی‘‘ نے لکھے ہیں۔ ناول کی طرح فلم بھی ادبی رچائو سے محروم ہے اور باکس آفس پر بھی ناکام رہی ہے۔

یہ کہانی جس طرح ناول میں ایک ہلکے پھلکے انداز میں بیان کی گئی، فلم میں بھی اسی طرح اس کو بیان کر دیا گیا ہے، البتہ کچھ معمولی تبدیلیاں ضرور کی گئی ہیں لیکن چاہے فلم کی کہانی ہو یا ناول، ادبی رچائو پڑھنے اور دیکھنے کو نہ ملا، بطور پاکستانی انگریزی ناول نگار کے، صبا امتیاز کے لیے یہ اعزاز بہرحال تھا کہ ان کو عالمی سطح پر توجہ ملی اور اس پر فلم بھی بنی۔ اب یہ ان کی سمجھداری ہوگی، اگر اس شہرت کو سنبھالتے ہوئے اگلا ناول مزید بہتر اور ادبی رچائو سے بھرپور لکھیں، جس طرح، ان کے خیال میں محمد حنیف اور عمر شاہد حامد کے ناولوں پربھی فلمیں بننی چاہیں، یہ دونوں اپنا خاص اسلوب اور طرز بیاں رکھتے ہیں۔

پاکستان کے ان نئے لکھنے والوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے اور مقامی فلم سازوں کو بھی چاہیے، وہ ان کی کہانیوں سے استفادہ کریں اور انگریزی میں لکھنے والے ان نئے ادیبوں کو چاہیے، وہ اگر کسی عام انسان کی کہانی کو بیان کر رہے ہیں تو اسے زمینی حقائق کے ساتھ جوڑ کربیان کریں۔ صبا امتیاز کی پہلے ناول کے طور پر اچھی کوشش تھی، مستقبل کے لیے ہم پرامید ہیں۔