بہتر جمہوریت، مگر کس طرز کی؟

July 09, 2020

فکر فردا … راجہ اکبردادخان
وزیراعظم پاکستان بجٹ کے با آسانی پاس ہوجانے کے بعد پارلیمنٹ کا باقی عرصہ اگر وہ چاہیں تو آرام سے گزار لیں گے۔ لیکن جس طرح ان کےمینڈٹ کو آگے بڑھنے سے روکا جارہا ہے ایسا لگتاہے کہ حالات انہیں مزید مجبور کردینگے کہ وہ وقت سے پہلے عام انتخابات کی طرف بڑھ جائیں۔ ان کا ایسا کرنا ان کااپنا فیصلہ ہوگا نہ کہ کسی عدم اعتماد کے حقیقی یا جعلی ڈر سے اور وقت سے قبل الیکشن کی طرف جانا ایک اچھا فیصلہ ہوگا۔ بجٹ میں حکومت کی شکست کروا دینا اسے گھر بھیجنے کا بہترین راستہ تھا جسے اپوزیشن اختیار نہ کرسکی۔ حقیقت میں کام کرنے کے لئے حکومت کے پاس دو سال ہی ہیں تیسرا سال تو الیکشن تیاریوں میں گزر جاتا ہے۔ وزیراعظم کو اپنا ایجنڈا اوپر اٹھانے میں جو واضح مشکلات ہیں ا ن کی وجہ سے پاکستانی ذرائع ابلاغ میں موجود جمہوریت کی افادیت کے بارے میں مباحثہ چل رہا ہے۔ اکثر ٹی وی چینلز اور اخبارات اس نقطہ پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ موجودہ سیاسی نظام میں بہتری لانے کی ضرورت ہے خواہ وہ صدارتی نظام کی شکل میں آئے۔ اسی نظام میں تبدیلیاں لانے سے آئے یا بنیادی جمہوریت جسے کنٹرولڈ ڈیموکریسی کا نام بھی دیا جاسکتا ہے ا سکے ذریعے آئے۔ اکثریت آمریت کو ناپسند کرتی ہے موجودہ نظام میں حکومت کی عوامی خدمت کے حوالوں سے ناکامیوں کی کئی وجوہات میں سے اہم ترین یہ ہیں کہ اس میں ووٹ لینے اور دینے کے دونوں طریقے بالعموم مشکوک ہیں۔2018 کے الیکشن میں رات 10بجے تک کوئی اور بھاری اکثریت سے جیت رہا تھا۔صبح دو تہائی اکثریت کسی اور کو مل گئی ان انتخابات میں ہر امیدوار بڑی رقم خرچ کرکے اسمبلی میں آتا ہے لہذا اس سے کرپشن اور اقرباء پروری کی توقع نہ کرنا احمقانہ سوچ ہے۔ اس پریکٹس کو دو طریقوں سے روکا جاسکتا ہے۔ ہر ممبر اسمبلی کی تعلیمی اہلیت ایم اے ہو، اور الیکشن اخراجات کو مانیٹر کرن نے کے لئے الیکشن کمیشن کو زیادہ بااختیار بنایا جائے اور ہر امیدوار صرف اسی حلقے سے انتخاب لڑے جہاں وہ بامعنی انداز میں رہائش پذیر ہو۔ ’’کام کازی‘‘ امیدوار نہ اچھے جیتے ہوئے ثابت ہوتے ہیں اور نہ ہی ہارے ہوئے کیونکہ اس حلقہ میں ا ن کی روٹس نہیں ہوتیں۔ وزیراعظم پر یہ پابندی ہو کہ وہ دو درجن سے زیادہ لوگوں کی کابینہ نہ بنائے خان صاحب بھی اپنے 42وزراء میں سے کافی کو شاید ہی پہچانتے ہوں کیونکہ ان کی یہ بھاری بھر ٹیم نہ متحد نظر آتی ہے اور نہ ہی مستند۔ جماعتوں کے اندر چند خاندانوں کے مستقل کنٹرول کو بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ مڈل کلاس طبقات کی انٹری ہی ختم کرپائے گی۔ تمام جماعتوں پر پابندی ہو کہ وہ غریب طبقات کو نمائندگی دیں۔ دوسرا آپشن بنیادی جمہوریت کو ایک بار پھر موقع فراہم کرنا ہے میں نے اس جمہوریت کو کام کرتے دیکھا ہے اور ا س کے تحمل مزاج اور ٹھہرائو بھرے طرز حکومت سے بھاری اکثریت اتفاق کرتی دیکھی۔ ایوب خان دور کے بارہ برسوں میں سے آخری ایک دو سال کو چھوڑ کر پرامن اور معاشی طور پر مستحکم ماحول تھا۔ کوئی شک نہیں کہ تعلیم زیادہ نہ تھی۔ میڈیا بھی نوخیز تھا اور سیاسی جماعتیں بھی آج کی طرح پھرتیلی نہ تھیں۔ اس کم آشوب ماحول میں بنیادی جمہوریت نے گائوں کی سطح سے لے کر صدر مملکت کے انتخاب تک لوگوں کو انگیج کیا اور اقتدار نے نچلی سطح پر ڈلیور کرنیکا طریقہ اختیار کرکے اچھی حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ بنیادی جمہوریت کے سٹریکچر میں بہت زیادہ مالی اخراجات جو مڈل کلاس طبقہ کیلئے سب سے بڑا مسئلہ چلے آرہے ہیں کے اٹھ نے کے بعد زیادہ مواقع نہیں ابھرتے۔ ہم یہ کہ معاشرے کے کمزور طبقات بھی ووٹ کے ذریعہ اپنے درمیان میں سے لوگ چن کر آگے بھیجتے ہیں جو دوسرے اور تیسرے مراحل پر اپنے ووٹ استعمال کرکے تحصیل اور ضلع کی سیاسی قیادتیں سامنے لانے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ اس طرح تحصیل اور ضلع کی سطح پر ایک سیاسی چین آف کمانڈ قائم ہوجاتی ہےجو ایک دوسرے سے جڑی رہنے کے علاوہ عوام سے بھی جڑی رہتی ہے۔ گائوں کے مسائل اور معاملات اس طرح ہر سطح کی انتظامیہ تک پہنچتے رہتے ہیں۔ آج کی ’’ڈاٹ کام‘‘ سوسائٹی میں یہ طرز حکومت پہلے سے کہیں زیادہ موثر ثابت ہوسکتا ہے۔ بنیادی جمہوریت کا نظام بالواسطہ جمہوریت کا ایک ایسا سسٹم ہے جس کا سیاسی سٹریکچر موجود ہے۔ آج کے حالات میں جہاں معاشرہ چھوٹے ٹکروں میں بٹ چکا ہے اداروں، پروفشنز اور خواتین کی نمائندگی کو نئے سیٹ اپ کا حصہ بنا کر پیچھے رہ گئی۔ کمیونٹیز کے نقصانات کا مداوا کیا جاسکتا ہے جس طرح ہم یہ حقیقت تسلیم کرنے کیلئے تیار ہیں کہ موجودہ سسٹم ڈلیور نہیں کررہا (ماسوائے چند سو خاندانوں کیلئے) اسی طرح اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا جانا چاہئے کہ عسکری قوتوں کے بغیر ملک فنکشنل نہیں رہ سکتا کیونکہ ہمارے اکثر ادارے نااہل ہونے کی وجہ سے اپنے کام نہیں کرسکتے اور ہر قدم پر ہمیں ان قوتوں کو مدد کیلئے بلانا پڑتا ہے اس لئے ان کو بھی قانون ساز اداروں میں نمائندگی دی جانی چاہئے تاکہ ان کی بھی سنی جاسکے۔ جمہوریت کی جو بھی شکل ہو اسے ماضی کے اچھے تجربات اور مستقبل کے قابل عمل خوابوں کے ایک انجکشن کی ضرورت ہے جو ایک فنکشنل اور شفاف حکومت کی شکل ہی میں ملک کو مل سکتا ہے۔ ملک میں مزید انتظامی اکائیاں بنانے سے بھی سروس ڈلیوری میں بہتری آسکتی ہے لیکن اس میں اخراجات بھی بہت ہیں اور خزانہ خالی ہے۔ وزیراعظم کو مختلف طاقتور طبقات کی طرف سے چیلنجز کا سامنا ہے اور اس وقت ایک Stand Stillکی صورتحال ہے۔ وزیراعظم ایک قدم بڑھتے ہیں تو انہیں پسند نہ کرنیوالی قوتیں دو قدم پیچھے کھینچ لیتی ہیں اور یہ صورتحال اسمبلی مدت پوری ہونے تک جاری رہے گی۔ اگرچہ ا ن کی مشترکہ اعدادی قوت حکومت سے زیادہ ہے۔ تاہم یہ جماعتیں اپنی حکمت عملیوں کے تحت حکومت گرانے پر متفق نہ ہیں اور نہ ہوپائیں گی۔ وزیراعظم نے اپنے تمام کارڈ میز پر رکھ دیئے ہیں آ نے والے دو سال میں خان صاحب کو بیوروکریسی کی گرفت سے نکل کر اپنے ورکرز اور مداحوں کے درمیان واپس آکر قوم سے اپنی کئی ناکامیوں کی وجوہات بیان کرکے اگلے انتخابات میں بھاری اکثریت کی اپیل کرنی چاہئے۔ ان دو سال میں شاید کوئی بھی بڑا پراجیکٹ مکمل نہ ہوسکے ا س لئے عام آدمی سے متعلق دیگر منصوبہ جات مثلاً پرائس کنٹرول، بہتر سکول اور ہیلتھ کیئر اور روزگار بہتر بنانے کے منصوبہ جات پر توجہ دیکر لوگوں کو ریلیف مہیا کریں۔