اپنا اپنا پریشر ککر

July 19, 2020

کبھی زمانہ طالب علمی میں بریگیڈیئر صدیق سالک کی تصنیف ’’پریشر ککر‘‘ پڑھی تھی، اس ناول کا لب لباب و مدعا بھی زمانے کی بےاعتنائی، جھوٹ اور مکر و فریب کے جاری نظام کی نوحہ خوانی ہے۔ اس تحریک کا بنیادی کردار، فطرت، جس کڑی آزمائش سے گزر کر اور ’دماغی پریشر ککر‘ میں جلنے کڑھنے کے بعد جو نتیجہ اخذ کرتا ہے یوں لگتا ہے اسی کردار کی طرح ہم سب کا بھی اپنا اپنا پریشر ککر ہے، مصنف کے الفاظ میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے ہمیں زبردستی جکڑ کر پریشر ککر میں لا پھینکا ہے اور اس کی سیٹی بج بج کر ہمیں خطرے سے آگاہ کر رہی ہے لیکن ہم دم سادھے بیٹھے ہیں اور بالآخر ایک دن یہ پریشر ککر پھٹ جائے گا اور تباہی کا موجب ہوگا۔ تین دہائیاں پہلے میں نے پاکستان سے برطانیہ ’’ہجرت‘‘ کی تو اس ملک کے بارے میں فیئرنس اور ٹروتھ نیس کی ہوشربا داستانیں میرے کانوں میں رس گھولا کرتی تھیں یہاں معاشرے کو قریب سے دیکھا تو یہاں کے بیرونی ڈھانچے کے اندر کا کھوکھلا پن بھی عود کر سامنے آیا لیکن یہ بھی پتا چلا کہ کبھی یہاں کے مقامی لوگ جھوٹ نہیں بولتے تھے اور سچ کہنے والے انسان کی بڑی تکریم کی جاتی تھی، سینئر ہجرت کاروں نے بتایا کہ رفتہ رفتہ جس رفتار سے ملٹی کلچرل سوسائٹی برطانیہ میں ترویج پاتی رہی یہاں بھی تکنیکی فراڈ یعنی قانون کے سقم کا فائدہ اٹھا کر مال بنانے کا رواج عام ہو گیا۔ برسوں پہلے تعلیم سے فارغ ہوا تو عملی زندگی شروع کرتے ہی میں خود کو یہی سمجھاتا رہا کہ بہرحال سچائی، وفاداری اور حق گوئی جیسے الفاظ کے درجات جھوٹ، مکاری، بےوفائی اور باطل سے کہیں اونچے ہوتے ہیں اور فتح ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے لیکن صد افسوس کہ وقت اور بدلتے حالات نے آشکار کر دیا کہ یہ سب کتابی باتیں اور اساطیری داستانوں سے زیادہ کچھ نہیں۔

شعبہ صحافت میں آنے کے بعد کم از کم میں یہی سمجھتا اور خود کو اس بات پر مائل کرتا رہا کہ میں اپنے پروفیشن کو بنی نوع انسان کی خدمت و عظمت کے لئے استعمال کروں گا اور معاشرے میں جا بجا پھیلی کج رویوں، زیادتیوں اور بےانصافیوں کو بے نقاب کروں گا جن سے میرے وطن کے کروڑوں انسان نبرد آزما ہیں لیکن یہ حقیقتیں مجھ پر بڑی تیزی سے آشکار ہوئیں کہ نہیں ’بھائی جان‘ جتنا امن، خوشحالی اور احساسِ تحفظ جھوٹ کے دامن سے لپٹے رہنے میں ہوتا ہے، سچائی کا علم اٹھا کر زیادتی، ظلم اور ظالم کے خلاف بولنے سے حاصل ہو ہی نہیں سکتا، کئی سال ہوئے مجھے اس حقیقت سے روشناس کرایا گیا میرے وطن کے عظیم دانشوروں اور ’قلمی جہادیوں‘ کی طرف سے کہ تھوڑا عقل سے کام لیں اور ’سارے جہاں کا درد اپنے جگر میں‘ میں بسانے کا جو سودا آپ کے دماغ میں سے نکلتا ہی نہیں، آنکھیں موند کر اسے نکال باہر کریں اور ہماری طرح بھیڑ بکریوں کے ایک وسیع تر ریوڑ میں شامل ہو کر مزے کریں۔ اور اس معراج کو پالیں جہاں وسیع و عریض خوشحالی کے عشرت کدے بھی ہیں اور جان و مال کی امان بھی! میری توجہ دلائی گئی کہ اگر تم چند گھسی پٹی اور بے ثمر اخلاقی قدروں کو بنیاد بنا کر اپنے لئے ایک آئیڈیل وضع کر لو گے تو پھر ساری عمر اس آئیڈیل ازم کے لئے سرگرداں رہو گے اور اسی حسرت و یاس میں بالآخر پیوند خاک ہو جائو گے کیونکہ یہ عملی معاشرہ ہے اور تم کتابوں میں لکھے سچ کی باتیں کرتے اور مبلغین کی مثالیں دیتے ہو، حالانکہ یہاں تو سچ وہی ہے جس کی آواز طاقتور رتبے اور اثر انداز ہونے والے افراد اور محل سرائوں سے نکلتی ہے لہٰذا زندگی جو پیمانہ تمہارے سامنے رکھے اس میں خاموشی سے فٹ ہو جائو کیونکہ تمہارے طریقے میں تکلیف، رکاوٹیں اور پریشانیاں ہیں جبکہ دوسرا راستہ نسبتاً آرام دہ اور آسان ہے۔

چنانچہ آج سے میں نے خود سے یہ عہد کر لیا ہے کہ میں درسی کتب اور اخلاقی اقدار کا وہ سارا محل مسمار کر دوں گا جسے میں کوئی تین دہائیوں سے اینٹ سے اینٹ جوڑ کر تعمیر کرتا رہا ہوں اور خود کو ایک معمولی تنکے کی طرح جاری زمانے کے کثیر الجماعتی گروہ کے بہائو کے سپرد کر دوں گا، میں نے سوچ لیا ہے کہ اب میں دن کو رات اور رات کو دن کہوں گا کیونکہ ’آج‘ کی ڈیمانڈ ہی یہی ہے اور اگر فی زمانہ زندگی کی نوید کے لئے کسی انسان میں یہ اوصاف ہونا ضروری ہیں تو پھر میں کیوں جی کو جلاتا رہوں، کڑھتا کلبلاتا رہوں، میں کیوں ’’مارکیٹ‘‘ کے حساب سے بیوپار نہ کروں؟ شاید میری اپروچ درست نہیں تھی، کیا یہ میرا کام ہے کہ اربابِ اختیار کو یہ بتائوں کہ کہاں ظلم و زیادتی ہو رہی ہے اور اس بات کی دہائی دوں کہ ملک کا متوسط طبقہ غائب ہو رہا ہے، مجھے قطعی یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ملک میں کسی کی عزت محفوظ نہیں اور نہ ہی جان و مال کا تحفظ ہے، مجھے اس بات سے بھی غرض نہیں ہونی چاہئے کہ ملک کی خارجہ پالیسی کیا ہے، اور کیا کشمیر بھارت کی جھولی میں ڈال دیا گیا ہے؟ مجھے تو فقط اپنی ’ضروریات‘ پر نظر رکھنی چاہئے لہٰذا میری نظروں کے سامنے ہوتا ہوا ہر غلط یعنی دو نمبر کام مجھے اندر ہی اندر سہنا اور برداشت کرنا ہوگا لیکن کچھ کہنا اور بولنا میرا کام نہیں، بس لکھو تو سب ’ہرا ہی ہرا‘ لکھو اور عوام کو بتائو کہ ہر طرف امن ہی امن اور آشتی ہے جو ملک کے قریہ قریہ میں موجزن ہے، یہ مزدور کی قسمت، کسان کا مقدر، بھوک و پیاس سے مرتے لوگ، خودکشیاں کرتی مائیں، عصمت دری کے بعد قتل ہوتے بچے، لاقانونیت، ناانصافیاں یہ سب کچھ اپنے دماغ کے کینوس سے حذف کرکے مجھے بس اپنے ’رہنمائوں‘ کی ہدایات پر عمل کرنا اور اپنے پریشر ککر میں ابلنا ہوگا جیسے میرے قماش کے لوگ اپنے اپنے پریشر ککر میں تاحیات ابلتے رہتے ہیں۔