بے زبان

July 25, 2020

ردا بشیر

وقت کا پہہیہ تیزی سے گھوما۔دن ہفتوں میں ہفتے مہینوں میں اور مہینیں سالوں میں بدلے۔شمسں و قمر اپنے اوقات مقررہ پر آتے جاتے رہے اور بھی بہت کچھ بدلا۔ٹی۔وی کی جگہ ایل۔ای۔ڈی نے لے لی۔جدید سے جدید ترین حیران کر دینے والی مشینری آئی لیکن ایک جگہ آ کر میرے دماغ کی سوئی حرکت کرنا بند کر دیتی ہے۔کیا ہم سب وہ کر رہے ہیں جس کاحکم اسلام اور خداوند نے دیا۔بیٹی جسے اللہ نے رحمت بنا کر بھیجا۔

اسے کتنا زحمت بنا دیا گیا ۔مانا عورت کا مقام گھر کی چار دیواری ہے لیکن یقین مانئے گھر سے باہر کام کرنے والی عورتیں بدکردار نہیں ہوتیں کہ انہیں اپنے کردار کی صفائیاں پیشں کرنی پڑیں۔اور ایسا مرد جو آ پ کے کردار کی صفائیاں بات بات پر مانگے اس سے کمزور سہارا کوئی نہیں۔وقت سے بڑا بے رحم کوئی نہیں اور وقت سے بڑا مرہم کوئی نہیں ۔نہ یہ کسی کے لئے رکا ہےنہ رکے گا۔دریا کی موجوں اور بے لگام گھوڑے کی طرح بسں دوڑتا چلا جاتا ہے ۔اسلام سے ذیادہ جدید مذہب کوئی نہیں۔اسلام حق حقوق دیتا ہے تو ہم انسان کیا اور ہماری حیثیت کیا ۔اسلام کو قرآن وسنت کو اپنے مفادکے لئے استعمال کرنے والوں مت پڑھاو اپنی بیٹیوں کو، پتہ ہےکیوں؟

کیوں کہ پڑھ لکھ کر ان میں سمجھنےاور سوچنے کی حسں آ جائے گی اور وہ اپنا اچھا برا سوچنے محسوس کرنے لگے گی۔پڑھا لکھا کر اتنے احسان کر کے جو گنتی میں بھی نہ آئے تو کسی ایک ایسے شخصں کے حوالے کر دینا ،جسں کی ذات اور سوچ اپنی ہی ذات کی `میںپر ختم ہو تو وہاں بیٹیاں آباد نہیں ہوتیں،نفسیاتی مریض بن جاتی ہیں اور بن چکی ہیں ۔ڈپریشن میں پست گھری آنے والے کل کو سوچتی ہوئیں نفسیاتی مریضائیں ۔والدین تو بے ساکھیاں ہیں، سہارے ہیں جب یہی سہارے کمزور پڑ جائیںنا تو نازوں سے پلی بیٹیاں منہ کے بل گر جایا کرتی ہیں۔

میں خود ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہوں جہاں اپنی بات کو سمجھانا نا فرمانی کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے ۔ایک بہت پڑھی لکھی فیملی کا حصہ ہوں یہ بات بہت سی لڑکیو ں کے لیے فخر نہیں ،کیوں کہ ان کے گھر والوں کی سوچوں کے زاویے بھی انہی لوگوں سے جا ملتے ہیں جہاں کہا جاتا ہے کہ اب ہم تجھے رخصت کر رہے ہیں سسرال سے تو تمہارا جنازہ ہی نکلے گا""۔میرا مذہب ایسا تو نہیں۔