تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ کی ضرورت کیوں ؟

August 01, 2020

ان دنوں ہمارے میڈیا میں پنجاب تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ 2020ءزیر بحث ہے۔ حمایت اور مخالفت میں الفاظ کی زور آزمائی خوب کی جا رہی ہے۔ درویش کو ایک چیز ہمیشہ پریشان کرتی ہے کہ ہماری سوسائٹی میں ہر غیر مذہبی چیز کو اسلامی اور غیر اسلامی رنگ میں کیوں دیکھا جاتا ہے، حالانکہ95 فیصد معاملات محض انسانی ہوتے ہیں، جن پر مذہبی چھاپ لگانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہوتی۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ بالعموم حکومتیں جب عوامی حمایت سے محروم ہوتی ہیں یا اپنی پاپولیریٹی کھو رہی ہوتی ہیں۔ مذہبی لبادہ اوڑھ کر اس کابیجا استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتیں کہ مذہب سے زیادہ کشش کسی اور شے میں نہیں ۔ تاہم اسے مذہب خیال نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ مضبوط جمہوریتوں میں اس نوع کی قانون سازی کی جاتی ہے کہ آپ سیاست میں بالعموم اور انتخابی مہمات میں بالخصوص مذہب کا استعمال نہیں کریں گے، فی زمانہ مذہب کے سیاسی استعمال کو کوئی بھی پڑھا لکھا باشعور مہذب انسان بہ نظر تحسین نہیں دیکھتا۔

وطن عزیز میںذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاءالحق دو ایسی ہستیاں گزری ہیں جنہوں نے پاکستان بننے کے بعد سب سے بڑھ کر مذہبی دکانداری چمکائی۔ بلاشبہ اس سے پہلے بھی پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ کی قیادت نے‘ جو بالعموم سرمایہ داروں اور جاگیرداروں پر مشتمل تھی اور کانگریس کے بالمقابل کسی طرح بھی عوامی اٹھان، پہچان یا جڑیں نہیں رکھتی تھی، سیاست میں مذہب کا خوب استعمال کیا مگر ایک موقع پر اس کے تباہ کن نتائج دیکھنے کے بعد اس کو روکنا بھی چاہا اور کسی حد تک اس میں توقف آیا بھی، سوائے قرارداد مقاصد یا 56ءکے آئین میں چند مذہبی شقوں کے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ بھٹو اور ضیائی مارشل لاسے پہلے اتنی انّی نہیں مچی تھی۔ اس دور کے اگر اخبارات وغیرہ نکالے جائیں تو مذہبی نوعیت کی خبریں بہت ہی کم یا معمولی نوعیت کی ہوتی تھیں۔ایک چھوٹے سے بچے کو، جس پر مذہبیت بری طرح حاوی ہو چکی تھی، اس بات پر چبھن ہوتی تھی کہ مذہبی قیادت اور نظریات کو ہمارا میڈیا اور سوسائٹی ابھرنے کیوں نہیں دے رہے ہیں؟ اور پھر جب یہ ابھرے اور اس نسبتاً لبرل سوسائٹی پر پوری طرح مسلط ہوتے ہوئے اسے یرغمالی بنا لیا تو وہی بچہ رونے لگا کہ میں نے یہ تو نہیں چاہا تھا، یہ بہار کیسی آئی جو خزاں بھی ساتھ لائی۔آج نصیحت کی جاتی ہے کہ برف کی سل پر لیٹ کر لکھا کرو، درویش دن رات برف و برف ہو گیا ہے پھر بھی اہل جفا کا الزام ہے کہ اس راکھ یا خاکستر میں ہلکی سی چنگاری بھی کیوں ہے؟

ایک شخص جو زندگی کا بیشتر حصہ خود سکہ بند مولوی رہ چکا ہو بلکہ مولویت کے گہرے چھپڑ میں ڈوب کر سراغ ِزندگی یا راز حیات پا چکا ہو۔ خود بہ نفس نفیس برسوں بریلوی، دیو بندی، وہابی، شیعہ، جماعتیہ، اشعری، معتزلی اور نیچری تک نہ صرف رہ چکا ہو بلکہ مذاہب عالم کا تقابلی جائزہ اس کی سرشت بن کر قلب و نظر پر حاوی ہو چکا ہو، اب وہ مسکین فلسفہ تصوف پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مُوتو قبل الموت کے تحت خود کو راکھ اور خاک میں ملا دے شاید پھر بھی کوئی نہ کوئی سانس تو باقی رہ ہی جائے گی اور وہ طاقتوروں کی سوسائٹی کا دھتکارا ہوا غریب مسکین اگر جارج فلائیڈ کی طرح سیاہ فام مین کر ان سفید فام سفاکوں سے محض اتنا کہتا ہے کہ اسے سوسائٹی کے خداوندو میرے آقاؤ! میری سانسیں اکھڑ رہی ہیں میں مر رہا ہوں، یہ جبر کا شکنجہ یا گھٹنا تھوڑا سا ڈھیلا کر دو تو سوسائٹی کے جابر سلاطین کا آوازہ گونجتا ہے کہ یہ بدبخت ہنوز ہمیں چیلنج کرنا چاہتا ہے....

انگریزی زبان کا ایک محاورہ ہے کہ Excess of every thing is bad سوسائٹی کے اے ”بڑے“ لوگو! خدا کے لئے پاکستان کی اس اسلامی سوسائٹی کو اب معاف کر دو، اسے بخش دو جس چیز کو کھلا کھلا کر آپ نے اس بدنصیب سوسائٹی کا قومی ہاضمہ تباہ کر دیا ہے، وہ بدہضمی سے پھٹ رہی ہے، اس کی مزید خوراکیں آپ کسی اور کے لئے رکھ لو۔ چائنہ جیسے جگری دوست سے اتنی درآمدات کرواتے ہو کچھ برآمدات بھی ادھر کیلئے رکھ دو، جذبہ خیر خواہی کے تحت اپنے ان بھائیوں کو بھی تو آپ نے الحاد و بے دینی کی دلدل سے نکالنا ہے۔

آپ اس درویش کا یقین کرو یا نہ کرو، جس چیز کو آپ مذہب و اخلاقیات کی بنیادیں مضبوط بنانے کے نام پر پیش کر رہے ہو یہی چیز ان بنیادوں کو کھوکھلا ہی نہیں کرے گی بلکہ منافرت کا ایک ایسا الاؤ بھڑکے گا جس کا پرتشدد دھماکہ اس سوسائٹی کو القاعدہ اور داعش کے اعلیٰ مقام تک پہنچا دے گا۔ یہاں کوئی کسی بھی مذہبی فرقے سے اس کی مبادیات نہیں چھڑوا سکتا، چاہے الٹا لٹک جائے کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے سے جبری احترام و تقدس منوائے۔ رہ گیا کتابوں پر بندشوں کا ایشو درویش پوری ذمہ داری سے لکھے دیتا ہے کہ کوئی بدترین ڈکٹیٹر بھی اس لایعنی و بے بنیاد مطالبے کو نہیں منوا سکتا،چہ جائیکہ یہ بیچارے جو خود بیساکھیوں پر کھڑے ہیں۔