ہیروشیما 3 دن، 3 رات جلتا رہا، لوگ پگھل کر مرتے رہے، ایٹمی حملے کے 75سال مکمل

August 07, 2020

ٹوکیو(عرفان صدیقی، جنگ نیوز ) ہیرو شیما ایٹمی حملے کے 75سال مکمل، حملے میں بچ جانیوالے (ہیبا کوشا )افراد کاکہناہےکہ جہنم نہیں گئے اسلئے نہیں جانتے وہ کیسی ہوگی لیکن جہنم شاید ویسی ہی ہو گی جس سے ہم گزرے تھے،تین دن تین رات شہر جلتا رہا اور لوگ پگھل کر مرتے رہے۔تفصیلات کے مطابق دوسری عالمی جنگ میں امریکا نے 6اگست کو جاپان کے شہر ہیروشیما جبکہ نو اگست کو ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے تھے ،اس اندوہناک واقعے کے 75 سال مکمل ہو رہے ہیں۔ ہیروشیما پر امریکی ایٹم بم حملے کے75برس مکمل ہونے پر یادگاری تقریب کا اہتمام کیا گیا ، جاپان سمیت دنیا بھر میں جاری کورونا کی وبا کے باعث تقریب میں شرکاکی تعداد کو مختصر رکھا گیا تاہم جاپان کے وزیر اعظم شنزو آبے ہیروشیما کے میئر سمیت کئی ممالک کے سفارتکار اور ہیروشیما میں ایٹم بم حملے کے دوران بچ جانے والے بزرگ جاپانی شہری بھی احتیاطی تدابیر کے ساتھ تقریب میں شریک ہوئے ۔ ہیرو شیما ایٹمی حملےمیں ریکارڈ شدہ اموات محض ایک تخمینہ ہیں لیکن یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ ہیروشیما کی ساڑھے تین لاکھ آبادی میں سے تقریبا ایک لاکھ 40 ہزار افراد جبکہ ناگاساکی میں کم از کم 74 ہزار افراد ان حملوں میں ہلاک ہوئے تھے۔غیرملکی میڈیا کےمطابق اِن ایٹمی حملوں میں زندہ بچ جانے والے ہیروشیما اور ناگاساکی کے رہائشیوں کو جاپان میں ’ہیباکوشا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، زندہ بچ جانے والوں کو ایک خوفناک انجام کا سامنا کرنا پڑا تھا جس میں ایٹمی تابکاری کے دیرپا اثرات اور نفسیاتی صدمے بھی شامل ہیں۔ان ہیبا کوشاافراد میں سے بمباری کے وقت بچنے والی ایک خاتون کاکہناتھاکہ میں جہنم میں نہیں گئی اس لیے میں نہیں جانتی کہ وہ کیسا ہوتا ہے، لیکن جہنم شاید ویسا ہی ہو گا جس سے ہم گزرے تھے، ایسا پھر کبھی کہیں نہیں ہونے دینا چاہیے،اُس دن شہر میں سب کچھ جل کر راکھ ہو گیا تھا۔ لوگ، پرندے، ڈریگن فلائیز، گھاس، درخت، سب کچھ۔‘ لوگ کہتے تھے کہ 75 سال تک یہاں کوئی درخت یا سبزہ نہیں اُگے گا لیکن اب ہیروشیما ایک ہرا بھرا خوبصورت شہر بن گیا ہے جہاں دریا بھی ہے۔ایک اور ہیبا کوشا خاتون کاکہناتھاکہ اس دن میری بہن یہ کہتے ہوئے گھر سے روانہ ہوئی کہ ’میں تمہیں بعد میں ملوں گی! وہ صرف بارہ سال مگر زندگی سے بھرپور شخصیت تھی،لیکن وہ کبھی واپس نہیں آئی، کوئی نہیں جانتا ہے کہ اس کا کیا ہوا،میرے والدین نے اسے بہت تلاش کیا، انہیں اس کی لاش کبھی نہیں ملی، اس لیے وہ ہمیشہ کہتے رہے کہ وہ کہیں زندہ ہو گی۔