عدیم المثال -حضرت زینبؓ

August 28, 2020

عام طور پر تین قسم کی صفات یا اوصاف پائے جاتے ہیں۔ حسبی و نسبی، یا کسبی یا عطائی۔ حسبی و نسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان کو اپنے والدین اور خاندان کی جانب سے ملتے ہیں۔ کسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان اپنی محنت اور مجاہدے سے حاصل کرتا ہے۔ عطائی اوصاف اللہ پاک کی جانب سے عطا ہوتے ہیں۔ جب کسی شخصیت میں تینوں قسم کے اوصاف جمع ہو جائیں تو وہ عظمت کی بلندیوں کو چھونے لگتی ہے ۔ تینوں اوصاف کے کسی ایک شخصیت میں یکجا ہونے کی مثالیں عالمی تاریخ میں کم کم ملتی ہیں۔ میں دنیا کی نامور اور عظیم شخصیات کا مطالعہ کرتا رہا لیکن سچ یہ ہے کہ مجھے تاریخ میں کوئی بھی خاتون اتنے صبرو شکر، تسلیم و رضا، ایثار و وفا، جرأت اظہار اور عظمت کردار کی مالک نہیں ملی جتنی حضرت زینبؓ بنت علی المرتضیٰ ؓ تھیں۔ رب تعالیٰ نے انہیں مثال ہی پیدا کیا تھا اور وہ قیامت تک ایک مثال ہی رہیں گی۔ نہ کسی کو وہ حسب نسب مل سکتا ہے اور نہ ہی اس قدر صبر و شکر اور استقامت جو حضرت زینبؓ کو عطا ہوئی تھی۔ سانحہ کربلا نے حضرت زینبؓ کی شخصیت میں مضمر اوصاف بے نقاب کر کے عالمی تاریخ میں ایک بے مثال، مثال کی ابدی شمع روشن کر دی جو قیامت تک صبر و شکر، تسلیم و رضا کا درس دیتی رہے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زینبؓ کی پیدائش کے بعد پہلی دفعہ دیکھا اور بازوئوں میں اٹھایا تو فرمایا کہ زینبؓ اپنی نانی حضرت خدیجہ ؓ سے مشابہت رکھتی ہے۔ خانوادئہ نبویؐ کے شہزادے حضرت امام حسنؓ ، حضرت امام حسینؓ دنیا کی عظیم ترین ہستی اور محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے نانا جان سے مشابہہ تھے ۔ گویا حضرت امام حسنؓ، حضرت امام حسینؓ اور حضرت زینبؓ تینوں کو اپنے ننھیال سے سب سے زیادہ روحانی وراثت ملی تھی اور پھر حضرت فاطمہ ؓ کی گود اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کی پدرانہ شفقت، تربیت اور توجہ گویا سونے پہ سہاگے والی بات تھی۔ مجھے اکثر یہ خیال آتا ہے کہ حضرت خدیجہؓ، حضرت فاطمہؓ زہرہ اور حضرت زینبؓ کی موجودگی میں مسلمان خواتین کو کسی آئیڈیل کی طرف دیکھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ان ہستیوں کو قلب و نگاہ میں رکھیں اور پھر دیکھیں کہ کس طرح رضائے الٰہی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں ۔ اہل بیتؓ کی محبت سے روحانی روشنی حاصل ہوتی ہے، دنیا بھی سنورتی ہے اور آخرت بھی۔

سچ یہ ہے کہ عشق رسولؐ کے بغیر مسلمانی کی منزل نہیں ملتی نہ ہی قلب و نگاہ اور باطن منور ہوتے ہیں لیکن عشق رسولؐ اہل بیت کی محبت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ جن عظیم اور مقدس ہستیوں کو رسول ؐخدا نے بازوئوں میں اٹھا اٹھا کر کہا کہ اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر، علیؓ ، حسنؓ، حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں، جس کا میں مولا اس کا علی ؓمولا، کیا ان ہستیوں، عظیم ترین ہستیوں سے محبت کئے بغیر عشق رسولؐ کا سراغ مل سکتا ہے؟

ذرا سوچو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی آخر الزماں کی نواسی، خاتونِجنت حضرت فاطمہؓ کی بیٹی اور مولائے کائنات خلیفۂ چہارم حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا میدانِ کربلا میں اپنے پیارے بھائی حضرت امام حسینؓ اور اپنے دو جگر گوشوں حضرت محمد بن عبداللہؓ اور حضرت عون بن عبداللہؓ کے علاوہ اپنے بھتیجوں، بھانجوں، قریبی عزیزوں کی شہادت کے بعد صحرا کی وحشت اور رات کی تاریکی میں تنہا غموں کا پہاڑ اٹھائے بیٹھی تھیں لیکن نہ کوئی ماتم، نہ گریہ اور نہ ہی معصوم ہونٹوں پر شکایت۔ صبر کا دامن مضبوطی سے تھام رکھا تھا، اللہ کی رضا پر اس قدر راضی کہ اپنے رب سے ان قربانیوں کی قبولیت کی دعا میں مصروف تھیں۔ دوسری طرف دشمن کے خیموں میں فتح کا جشن منایا جا رہا تھا۔ قیامت کی اس رات بھی آپ نے نہ نمازِ تہجد قضا کی اور نہ ذکر و اذکار میں کمی آنے دی۔ سبحان اللہ ! صبر و شکر اور رضائے الٰہی کی انتہا ہے کہ جب اس لٹے پٹے غم کے لہو میں ڈوبے قافلے کو کوفہ کے گورنر عبیداللہ ابن زیاد کے دربار میں لایا گیا تو اس نے حضرت زینبؓ سے پوچھا آپ نے اپنے بھائی کے سلسلے میں خدا کے امر کو کیسا پایا؟ حضرت زینبؓ نے نہایت اطمینان اور یقین کے ساتھ جواب دیا ’’ہم نے اچھائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ خدا کی طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ انہیں مقتول دیکھے اور اب وہ لوگ خدا کی ابدی بارگاہ میں آرام کر رہے ہیں۔‘‘ سبحان اللہ! کیا صبر، شکر اور رضائے الٰہی پر راضی رہنے کی اس سے بڑی مثال دی جا سکتی ہے؟ ہو سکتا ہے میری کم علمی ہو، لیکن تاریخ عالم میں اس طرح کے صبر و شکر کی مثال موجود ہی نہیں۔

یزید کے دربار میں حضرت زینبؓ کا خطاب جرأت و بہادری اور حق گوئی کی ایک منفرد مثال ہے۔ سرکاری فوج کے حصار میں جب یہ لٹا پٹا بھوکا پیاسا ظلم و ستم کے زخموں سے چُور قافلہ یزید کے دربار میں پیش کیا گیا تو حضرت زینبؓ نے حکمت و دانش اور جرأت و بہادری سے کہا ’’تم اپنے زعم میں سمجھ رہے ہو کہ کامیابی مل گئی اور اہل بیت سرنگوں ہو گئے مگر حقیقت میں اہل بیت کا کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ یزید اور اس کے ساتھیوں نے اپنے آپ کو تباہ و برباد کر لیا ہے۔‘‘ تاریخ نے حضرت زینبؓ کے الفاظ پر مہر تصدیق ثبت کر دی اور واضح کر دیا کہ ؎

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

ہم صبرا ور شکر کی باتیں تو بہت کرتے ہیں،حال یہ ہے کہ پاؤں میں ذرا سا کانٹا چبھے ،کوئی مصیبت یا صدمہ کا سامنا کرنا پڑے تو صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور الله تعالیٰ سے گلے شکوے کرنے شروع کر دیتے ہیں۔کسی بدونے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ جہنم کی آگ کس شے سے ٹھنڈی ہوتی ہے؟ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا’’ دنیا کی مصیبتوں پر صبرکرنے سے۔‘‘ حضرت زینبؓ کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ کیا دنیا کی مصیبتوں پر صبر کی اس سے بڑی مثال مل سکتی ہے۔