کراچی کا کچھ ہوگا بھی یا پھر ڈرامہ بازی

September 06, 2020

ایسی خوفناک بارش جس نے سب کچھ اُلٹ پلٹ دیا۔ کراچی پہ کئی بپتائیں بیتیں لیکن قدرت کے ہاتھوںایسی تباہی کب کراچی والوں نے دیکھی تھی۔ سیلابوں میںدیہات کے دیہات بہہ جاتے تھے اور شہری، امرا موسم کے مزے اُڑاتے۔ لیکن اس بار طوفانی بارشوں سے کچی آبادیاں تو ڈوبنی ہی تھیں لیکن ڈی ایچ اے جیسے پوش علاقوں کی بھی خیر نہ رہی۔

اسی لیے اسے قومی ایمرجنسی قرار دیا گیا۔ کراچی میں عمارتوں اور ناجائز قبضوں کے جنگلوںاور شہری سہولیات اور ماحولیات کی بربادی اور تگڑے اسٹیک ہولڈرز کی قبضہ گیری اور باہمی ٹکرائو کے ہاتھوںجو ہوا اس کا خمیازہ سبھی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ویسے بھی بڑے میگا شہروں کا بندوبست سنبھالنا دو بھر ہو چلا ہے۔ لیکن جدید سائنس و ٹیکنالوجی، اچھی منصوبہ بندی اور موثر گورننس سے درپیش مسائل کا حل نکالا جا رہا ہے اور لوگ بھی اب بڑے شہروں سے چھوٹے شہروں اور قصبات کا رُخکر رہے ہیں۔

لیکن کراچی کا معاملہ ہی علیحدہ ہے۔ جتنے یہاںگو نا گوںنسلیاتی گروہ ہیں (جو اسے کاسموپولیٹن بناتے ہیں)، اُتنے ہی پیچیدہ مسائل۔ کبھی کراچی ایک مچھیروں، دستکاروں اور تاجروںکی خاموش بستی تھا اور اس کے آبادی 1947 میں چار لاکھ کے لگ بھگ تھی اور یہاںانگریزوںنے اپنی فوجی و تجارتی آئوٹ پوسٹ بنائی۔ مہاجروںکی آمد کے بعد اس شہر کی آبادی چھلانگیںمارتی پھیلتی چلی گئی۔

جو بنیادی انفراسٹرکچر برطانوی نوآبادکاروں نے تعمیر کیا تھا، چند دہائیوںمیں یہ آبادی کے بڑھتے ہوئے بوجھ تلے دب کر بے بس ہو گیا۔ اب نوبت یہ ہے کہ آبادی کے گھنے پن کے حساب سے کراچی میں فی مربع میل63,000 نفوس ہیں اور ہر سال باہر سے 45,000 افراد کراچی میں سکونت اختیار کرتے ہیں۔ مہاجروں (48.52 فیصد) کی آمد کے بعد سے کراچی کا نسلیاتی جغرافیہ اتنا بدلا کہ یہ منی پاکستان کہلایا جہاں سندھیوں (7.22فیصد)، پشتونوں (11.42فیصد)، بلوچوں (4.34فیصد)، پنجابیوں (13.94فیصد)، سرائیکیوں (2.12فیصد)، گجراتیوں کے علاوہ بنگلہ دیشی، بہاری، افغانی، روہنگیاز، برمیز، یوغور اور جانے کون کون اور کہاںکے لوگ آباد ہو گئے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر معاشی ہجرت ہے جو لوگوں کو بڑے شہروں کی جانب کھینچتی ہے۔

پاکستان بننے پر کراچی دارالحکومت بنا اور ترقی کا سارا زور بھی وہیں رہا جس کا زیادہ تر فیضکراچی والوں ہی کو ملا۔ جب دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہوا تو یہ بڑا دھچکا تھا۔ جس کا نتیجہ ایوب خان کے خلاف زبردست مزاحمت کی صورت میں نظر آیا۔ یہ کراچی والوں کی آمریت کے خلاف پہلی اور آخری مزاحمت تھی۔ پھر 1973کا آئین بنا اور صوبائی خودمختاری ملی اور سندھ کو وَن یونٹ کے خاتمے کے بعد اُس کی تاریخی شناخت واپس ملی۔ بعد ازاں سندھی زبان کے سرکاری اعتراف پر ہم نے ’’اُردو کا جنازہ ہے‘‘ کی رقعت آمیز آوازیں سُنیں۔

اور پھر ضیا الحق کی بھٹو دشمنی میں مہاجر کارڈ کو متحرک ہوتے دیکھا۔ نسلیاتی و لسانی تقسیم اور نفرت انگیزی نے لطیف بھٹائی کی سندھڑی کو خوفناک لسانی فسادات کے شعلوںمیں لپٹتے دیکھا۔ پھر الطاف حسین کے کلٹ اور ایم کیو ایم کی فسطائیت کے ہاتھوںکراچی دہائیوں تک یرغمال بنائے رکھا گیا۔ دہشت گردی، بھتہ خوری کے پھیلائو اور بوریوں میںلاشوں کے ڈھیر لگتے دیکھے۔ جو میونسپل ادارے بنے بھی تو وہ اسی مافیا اور دیگر مافیائوں کے لے پالک ہوتے۔

اسے شہری آبادی اور دیہی جاگیرداروںکے جھگڑے کا نام بھی دیا گیا اور اندرونِ سندھ اور شہری علاقوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا گیا۔ اس خانہ جنگی میںمافیاز پیدا ہوئیں اور وہ بھتہ خوری، پانی کے ٹینکر سے چائنا کٹنگ اور بڑے پیمانے پر زمینوں کے ہتھیانے تک ہر طرح کے سماج دشمن دھندوںمیں شامل ہو گئیں۔

اس سب کا خمیازہ سب سے زیادہ کراچی والوں نے بھگتا اور جو تباہی ہوئی اس کا خمیازہ آج سب بھگت رہے ہیں۔ شکر ہے کہ افواجِ پاکستان نے کراچی میںدہشت گردی کا قلع قمع کر دیا اور امن بحال ہوا۔ فسطائیت کی کمر ٹوٹی اور ماحول کھلا ہوا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ دیہی سندھ اور شہری سندھ کے مینڈیٹ متصادم ہیں اور درجن بھر کرپٹ مقامی ادارے کراچی کو تگنی کا ناچ نچا رہے ہیں۔ کہاںکس کی عملداری شروع ہوتی ہے اور کہاں کس کی ختم، بس اسی پہ سیاسی مناظرے جاری ہیں اور کراچی کی انتظامی حالت اور شہری سہولیات ایک مستقل سوہانِ روح بن کے رہ گئے ہیں۔

سندھ حکومت کی بنیادی ترجیح اس کا دیہی حلقۂانتخاب ہے اور کراچی سمیت دوسرے شہروں میں اس کی کارکردگی ویسی نہیںجیسی ہونی چاہیے۔ دوسری طرف شہری علاقوں کے نمائندے بھی کھیلیںگے نہ کھیلنے دیں گے کے بے مقصد مجادلے میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔

ایسے میں وزیراعظم عمران خان اِک نئے منصوبے کے ساتھ آج بوقتِ تحریر کراچی جا رہے ہیں۔ لیکن پہلے کی طرحوہ صوبائی حکومت سے کوئی مشاورت کر رہے ہیں اور نہ اُسے آن بورڈ لے رہے ہیں۔ خبر ہے کہ کورونا وائرس کے کنٹرول کے ادارے کی طرحکا کوئی ادارہ بنایا جائے گا جس کی صدارت کریں گے تو وزیرِ اعلیٰسندھ، لیکن کنٹرول اُنہی کا ہوگا جنہوںنے کورونا کو روکنے کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم چلایا۔ شہری سیلاب کے دوران فوج کو سول انتظامیہ کی امداد کے لیے بلانا ایک مستحسن قدم تھا۔ ایمرجنسی کی حالت چند ہفتوں میں ختم ہو جائے گی۔

بہتر ہوگا کہ کراچی کے مسائل کے حل کیلئے آئینی راستہ اختیار کیا جائے۔ اٹھارہویںترمیم کے دائرے میں صوبائی حاکمیت قائم رہے اور مرکز صوبے کی ضروری مدد کرے۔ صوبہ سندھ کو بھی اور دیگر صوبوں کو بھی ایک موثر مقامی حکومتوں کا نظام لانا ہوگا اور اختیارات و ذرائع کو مقامی کونسل اور وارڈ تک منتقل کرنا ہوگا۔ البتہ اس امر کا خیال رکھنا ہوگا کہ کوئی ایک سیاسی یا نسلیاتی گروہ دوسروںکو نکال باہر نہ کرے۔

رہا ماسٹر پلان تو اس کو وقت درکار ہوگا اور اس پر کام کی ضرورت ہے۔ ایک ہفتے میںماسٹر پلان تیار نہیں ہوتے، انہیں وقت لگتا ہے اور نہ ہی ہفتوں مہینوں میں بڑے مسئلے حل ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام لوگوں کو اعتماد میں لیا جائے اور بڑے مسئلوںکا بتدریج حل نکالا جائے۔

پانی کی فراہمی، نکاسیِآب، غلاظت کی صفائی، بجلی کی سپلائی اور ٹرانسپورٹ سسٹم کو ہنگامی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ وزیراعظم کی پہل قدمی باعثِ انتشار بنے اور کراچی کے لوگ پھر منہ دیکھتے رہ جائیںاور ایک اور طوفانی بارش کا بے بسی سے انتظار کریں۔

کاش کوئی یہ بھی سوچے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے اور مستقبل میںکراچی سمیت سندھ کے ساحلی علاقوںکو سمندر میںغرق ہونے سے بچایا جائے۔ کراچی والو! تمہارا اللہ ہی حامی و ناصر ہے۔