عبدالمجید اچکزئی کی رہائی پر ہاہاکار کیوں؟

September 07, 2020

سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے دور میںانصاف کی تیز ترین فراہمی کے لئے ملک بھر میں ماڈل کورٹس بنانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ 15جولائی2019ء کو ماڈل کریمنل ٹرائل کورٹس نے کام شروع کیا اورنومبر 2019ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر ماڈل ٹرائل کورٹس کے ججوں میں نہ صرف ایوارڈز تقسیم کئے بلکہ 57نئی ماڈل کورٹس قائم کرنے کی منظوری بھی دی۔ماضی میں حکومتوں کی طرف سے ماڈل ویلیج اور ماڈل پولیس اسٹیشن کا تصور متعارف کرواتے ہوئے ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے مگر اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے اس طرح کا اقدام اپنی نوعیت کی پہلی مثال تھا۔3ستمبر2020ء کو کوئٹہ میں قائم کی گئی ایک ایسی ہی ماڈل کورٹ نے انصاف کی تیز ترین فراہمی کی مثال قائم کرتے ہوئے سابق ایم پی اے عبدالمجید اچکزئی کو قتل کے مقدمے میں بری کردیا۔بتایاگیاہےکہ عدالت نے پختونخواملی عوامی پارٹی کے رہنما عبدالمجید اچکزئی کو ثبوت کی عدم دستیابی پر رہا کیا ہے اور یہ خبر سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ برپا ہے ۔اس واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ کوئٹہ کے ٹریفک سارجنٹ حاجی عطااللہ 23جون 2017ء کوزرغون روڈ پرجی پی او چوک میں اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف تھے ،ان کے پیچھے آتی ہوئی سفید رنگ کی لینڈ کروزر نےانہیں روند ڈالا۔ٹریفک سارجنٹ عطااللہ کو سول اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے راستے میں ہی دم توڑ گئے۔کوئٹہ پولیس نے بہت سمجھداری کا مظاہرہ کیا اور سول لائن پولیس اسٹیشن میں نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی مگر برا ہواس صہیونی سوشل میڈیا کا جو پاکستان اور جمہوریت کے خلاف سازش کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ۔کچھ ہی دیر میں ٹریفک سارجنٹ کو نہایت بے رحمی سے کچلنے والی گاڑی کی ویڈیو وائرل ہوگئی ۔سی سی ٹی وی فوٹیج سے حاصل کی گئی اس ویڈیو میں نہ صرف سارا واقعہ محفوظ ہوگیا بلکہ عبدالمجید خان اچکزئی کو بھی ڈرائیونگ سیٹ پر دیکھا جاسکتا ہے۔یہ ویڈیو دیکھ کر آج بھی بدن میں کپکپی طاری ہو جاتی ہے اور ہر وہ انسان دہشت زدہ ہو جاتا ہے جس کے سینے میں دل دھڑکتا ہے ۔ پورے معاشرے کے دہشت زدہ ہونے پر پولیس کو چار وناچار عبدالمجید اچکزئی کے خلاف مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتار کرنا پڑا ،مقدمے میں دہشتگردی کی دفعات کا بھی اضافہ کیا گیا ۔اس دوران عبدالمجید خان اچکزئی نے میڈیا سے گفتگوکے دوران نہ صرف حادثے کا اعتراف کیا بلکہ یہ بھی تسلیم کیا کہ گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر وہ خود براجمان تھے ۔انہوں نے کہا کہ قبائلی نظام کے تحت مقتول کے ورثا کو دیت دیکر راضی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور بعد ازاں یہ خبریں بھی آتی رہیں کہ کوئی راضی نامہ طے پا گیا ہے۔مقدمے کی کارروائی آگے بڑھی تو عبدالمجید اچکزئی نے دہشتگردی کی دفعات ختم کرنے کے لئے درخواست دائر کردی۔دہشتگردی کی دفعات کا اطلاق تب ہوتا ہے جب کوئی شخص ایسے فعل کا مرتکب ہو جس سے معاشرے میں خوف و ہراس پھیل جائے اور لوگ خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگیں ۔جس طرح دن دہاڑے ایک شخص کو نہایت رعونت ،سفاکی اور بے رحمی سے کچل دیا گیا ،اس سے نہ صرف تب لوگ دہشت زدہ ہوئے بلکہ اب بھی جب کوئی شخص اس حادثے کی ویڈیو دیکھتا ہے تو کانپ اُٹھتا ہے ۔مگر عدالتی کارروائی کے دوران عبدالمجید خان اچکزئی کی یہ درخواست منظور کرلی گئی اور ان کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر سے دہشتگردی کی دفعات ختم کردی گئیں یوں ان کا مقدمہ انسداد دہشتگردی عدالت سے ماڈل کریمنل ٹرائل کورٹ میں منتقل ہوگیا اور اس عدالت نے اپنے مینڈیٹ کے عین مطابق انصاف کی تیز ترین فراہمی کو ممکن بناتے ہوئے انہیں باعزت بری کردیا۔

لوگ اس فیصلے پر برہم ہیں،خفا ہیں ،مشتعل ہیں اور نظام انصاف کی بے بسی پر مغموم اوررنجیدہ بھی۔ان کا خیال ہے کہ انصاف نہیں ہوا مگر وہ چند زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر غور کریں تو انہیںیہ فیصلہ ہرگز غیر متوقع محسوس نہیں ہوگا ۔ عبدالمجید اچکزئی نے سپریم کورٹ بار کے سابق صدر کامران مرتضیٰ ایڈوکیٹ کووکیل کیا ،اب اتنے بڑے وکیل کی خدمات حاصل کرنے کے بعد بھی انسان مقدمہ ہار جائے تو پھر بھاری فیس ادا کرنے کا کیا فائدہ ۔کامران مرتضیٰ ایڈوکیٹ بذات خود بھی جمہوریت پسند وکیل ہیں ،ان کا پیش ہوجانا ہی ملزم کی بریت کے لئے کافی تھا پھر عبدالمجید اچکزئی کی بھی جمہوریت کے لئے گرانقدر خدمات ہیں ۔وہ بلوچستان پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے تمام لوگوں سے جواب طلبی کرتے رہے ہیں اور اب انہیں کٹہرے میں کھڑا کئےرکھنا کہاں کا انصاف ہے ؟سب سے اہم بات یہ ہے کہ موصوف پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے بھائی ہیں اور ان کی جمہوریت کے لئے خدمات سے کون واقف نہیں۔میں خود محمود خان اچکزئی کا مداح ہوں اور آپ نے بھی قومی اسمبلی میں میں ان کی دھواں دار تقریریں سنی ہوں گی جس میں وہ غیر جمہوری قوتوں کو نتائج کی پروا کئے بغیر للکارتے دکھائی دیتے ہیں۔اگر آپ لوگ جمہوریت کی خاطر اس معاملے کوفراموش کردیں تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی اور پھر اس سے پہلے کیا کچھ نہیں ہوتا رہا ۔کیا شاہ زیب کے قاتل شاہ رُخ جتوئی کو سزا ہوگئی؟کراچی کے ایک نوجوان سرفراز شاہ کو گولیاں مارنے والے اہلکاروں کو کیفر کردار تک پہنچادیا گیا؟نقیب اللہ محسود کے ورثا کو انصاف مل گیا؟تربت میں قتل ہونے والے حیات کے مقدمے کا کیا ہوا؟تکلف برطرف،ہمارے ہاں یہی دستور ہے ،ڈائیلاگ بازی اپنی جگہ مگر سچ یہ ہے کہ ارض وطن میں نظام عدل اور نظام احتساب کیس نہیں فیس دیکھتا ہے ،ڈکٹیڑ آئین اور جمہوریت کو روند ڈالتے ہیں ،جمہوریت کے علمبردار قانون کی دھجیاں اُڑاتے ہیں ،ایسے میں ایک سابق رُکن پارلیمنٹ نے ٹریفک سارجنٹ کو کچل ڈالا تو ہاہاکار کیسی؟قومی سلامتی کے خاطر قربانیاں دیتے ہو،اسے جمہوریت کے لئے دی گئی قربانی سمجھ کر بھول جائو۔