قومی انتخابات اور حقیقی تبدیلی

April 25, 2013

2013ء کے انتخابات ایک بڑے چیلنج کی صورت میں موجودہ الیکشن کمیشن کے سامنے موجود ہیں اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آزاد الیکشن کمیشن کام کر رہا ہے۔ اگرچہ اس ضمن میں کئی شکوک و شبہات بھی ہیں کہ الیکشن کمیشن اپنا وہ کردار ادا نہیں کر رہا جو اسے کرنا چاہئے۔ کراچی میں جعلی ووٹر لسٹوں کے حوالے سے جماعت اسلامی سمیت کئی سیاسی جماعتوں کے تحفظات برقرار ہیں کیونکہ سپریم کورٹ کے دوٹوک فیصلے کے مطابق کراچی میں فوج کی موجودگی میں گھر گھر جاکر ووٹر لسٹوں کی درستی کا عمل ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ یہ بات الیکشن کمیشن کی کارکردگی کے حوالے سے ایک سوالیہ نشان ہے؟ گیلپ کے سروے کے مطابق 74فیصد لوگوں کی رائے ہے کہ آئندہ انتخابات کے ذریعے پاکستان کے مسائل سے نجات ممکن ہے اور 65فیصد پاکستانیوں کی رائے میں کامیاب انتخابات سے غیر آئینی مداخلت کا راستہ ہمیشہ کیلئے بند ہو سکتا ہے۔ پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ کمزور معیشت بھی ہے جو 2008ء سے کم معاشی نمو اور بلند افراط زر کے گرداب میں جکڑی ہوئی ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں قرضے دگنے ہو گئے ہیں اور بیرونی سرمایہ کاری بھی پست ترین سطح پر ہے۔ پاکستانی روپیہ مسلسل اپنی قدر کھو رہا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی تیزی سے کمی آرہی ہے۔ الیکشن جوں جوں قریب آرہے ہیں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خضدار اور پشاور میں دھماکے بھی الیکشن کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کا حصہ سمجھے جا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود سنجیدہ قومی و سیاسی حلقے کسی بھی طور پر الیکشن ملتوی کرانے کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ جمہوریت اور انتخابات کے تسلسل سے ہی ملک موجودہ مسائل سے نجات پا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں غیر معمولی واقعات کے باوجود جمہوری نظام کی بقا کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال امریکہ ہے جہاں انتخابات سے ایک ڈیڑھ ماہ قبل آنے والے زبردست طوفان ’سپرسینڈی کی تباہی و بربادی بھی ان کے التوا کا سبب نہیں بن سکی۔غیر جمہوری قوتیں ملک میں انتخابات کا التوا، لیکن پاکستانی عوام ان کا بروقت انعقاد چاہتے ہیں اور وہ ایک بڑی حقیقی تبدیلی کی طرف امید بھری نظریں لگائے بیٹھے ہیں۔ عوام مستقبل کے لئے ایسی قیادت کے خواہشمند ہیں جو صاف ستھرے کردار کی حامل اور ملک و ملت سے محبت کرنے والی ہو ہمیں اس وقت دیانتدار، باکردار قیادت کی ضرورت ہے ۔گزشتہ پانچ سالہ دور حکومت میں پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں نے عوام کو مایوس کیا ہے اس لئے قوم انتخابات کے ذریعے سابقہ حکمران ٹولے سے ”چھٹکارا“ چاہتی ہے۔ اس مرتبہ جماعت اسلامی نے بھی ملک بھر میں اپنے امیدواروں کو انتخابات کیلئے میدان عمل میں اتارا ہے۔ ماضی کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے ایک ہزار کے لگ بھگ نمائندے، بلدیاتی ناظمین سے لے کر صوبائی، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان بھی منتخب ہوتے رہے ہیں جن کی دیانت اور کردار پر کبھی کوئی انگلی نہیں اٹھا سکا۔ یہ بات بھی جماعت اسلامی کے کریڈٹ میں ہے کہ ”وکی لیکس“ کے انکشافات میں اس کے کسی رہنما کا نام اور کوئی تذکرہ شامل نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کے ارکان اسمبلی نے منتخب ایوانوں میں عوام کی نمائندگی کا بھرپور حق ادا کیا۔ ملکی و بین الاقوامی ایشوز پر حق بات کہنے سے کبھی منہ نہیں موڑا۔
جماعت اسلامی نے اپنا جو انتخابی منشور جاری کیا اس میں مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست کو بہترین ماڈل قرار دیا ہے۔ اپنے منشور کے مطابق جماعت اسلامی پاکستان کو اسلامی، فلاحی مملکت بنانے کا عزم رکھتی۔ ”گزشتہ دنوں جماعت کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے لاہور میں اپنی پارٹی کے انتخابی منشور پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی برسراقتدار آکر بنیادی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں کمی کر کے عوام کو ریلیف دے گی۔ بجلی و گیس کو 30 فیصد سستا کیا جائے گا۔ توانائی کے بحران کے حوالے سے لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ ڈیموں کی تعمیر ازحد ضروری ہے پاکستان کو چھوٹے بڑے ڈیم تعمیر کرکے توانائی بحران کو حل کرنا ہوگا۔
جنرل(ر)پرویز مشرف آج کل مکافات عمل سے دوچار ہیں۔ اب ان کے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس سے لگتا تو یہی ہے کہ جیسے ان کا متوقع انجام انہیں پاکستان کھینچ لایا ہے۔ پاکستان کے عوام متعدد حوالوں سے انہیں قومی مجرم سمجھنے اور یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ انہیں اپنے کئے کی عبرت ناک سزا ملنی چاہئے اور مستقبل کے حوالے سے ان کے یہ اندیشے بھی درست ہیں کہ کہیں پھر ایسا نہ ہو کہ حسین حقانی اور ریمنڈڈیوس کی طرح امریکہ انہیں بھی اُچک کر پاکستان سے نہ لے جائے۔ قوم کو اس حوالے سے ہوشیار رہنا چاہئے۔ آئندہ انتخابات کے نتائج کو ہر لحاظ سے قابل اعتبار ہونا چاہئے اس لئے لازم ہے کہ پولنگ منصفانہ اور شفاف ہو کیونکہ حقیقی جمہوریت وہی ہوتی ہے جو آزادانہ، غیرجانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے معرض وجود میں آئے۔ اس قوم کی کشتی کو بحرانوں کے طوفان سے انتخابات ہی نکال سکتے ہیں اور ان نتائج کے حصول کے سیاسی عزم، بصیرت اور درست فیصلوں کی ضرورت ہے۔ اگر انتخابات شفاف اور آزادانہ ہوں تو ان کے ذریعے لاقانونیت اور دہشت گردی کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔ اب الیکشن کمیشن کی ذمہ داریوں میں ”نگرانوں کی نگرانی“ بھی شامل ہے اور دیگر ان تمام عوامل کو ختم کرنا بھی ہے جو الیکشن کمیشن کی پوری مشق کو مشکوک کر سکتے ہیں۔ قبل از انتخابات دھاندلی پر قابو پانے کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن چاروں صوبوں میں سابقہ حکومتی جماعتوں کی منظور نظر بیوروکریسی تبدیل ہو اور وہاں غیرجانبدار بیوروکریٹ لگائے جائیں تاکہ الیکشن میں کسی کے بھی حق میں دھاندلی کی راہ ہموار نہ ہو۔ نگران وفاقی وزیر داخلہ ملک حبیب آج کل اپنے ایک بیان کے باعث زیر بحث بن گئے ہیں۔ ان کی بیانات کی زبان ”پھسلنے“ اور ”لڑکھڑانے“کا سلسلہ اگر یونہی جاری رہا تو سارا انتخابی عمل بھی بے معنی بن سکتا ہے لہٰذا ”نگرانوں کی نگرانی“ بھی چیف الیکشن کمشنر اور ان کی ٹیم کا کام ہے۔ نگران وزیر داخلہ کو بھی ہمارا مشورہ ہے کہ اگر انہیں کسی پارٹی سے لگاؤ ہے تو ضرور رکھیں لیکن اس کے حق میں بیانات کا شوق 11مئی کے الیکشن کے بعد اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو کر اس شوق کو پورا کریں۔آخر ایسے بناتا سے سارے انتخابی عمل کو مشکوک بنانے کی کیا ضرورت ہے؟
اس سال13 دسمبر کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔11مئی کے انتخابات اگر شفاف اور غیر جانبدار ہوتے ہیں تو اس کا سہرا یقینا چیف جسٹس اور الیکشن کمیشن کے سر ہو گا۔11مئی کے انتخابات کو آزادانہ اور منصفانہ بنانے کیلئے اب تک عدلیہ کا کردار قابل تحسین ہے۔ عدلیہ کی آزادی نے پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط بنا دیا ہے لیکن اسے مضبوط تر بنانے کیلئے پاکستان کے عوام کو جو قرضوں کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں۔ نجات دلانا بے حد ضروری ہے کیوں کہ ہمارا آج پیدا ہونے والا ہر بچہ71ہزار کا مقروض ہے جبکہ ہمارے ہاں جون 2013ء تک پیدا ہونے والا بچہ83ہزار روپے کا مقروض پیدا ہوگا۔ ویسے بھی عالمی مالیاتی بحران کے بعد اب تمام ترقی پذیر ممالک کو اپنے ہی وسائل پر انحصار کرنا چاہئے۔ آئی ایم ایف نے بھی یہی کہنا شروع کر دیا ہے کہ اس سال نہیں تو آئندہ سال تو پاکستان کو اپنے وسائل پر ہی اکتفا کرنا ہو گا۔ اسلئے اب پاکستان کو خود انحصاری کی منزل کی طرف بڑھنے کی منصوبہ بندی کرنا چاہئے۔ پاکستان کی معیشت یقینا پائیدار اور مضبوط ہو سکتی ہے کیونکہ اس کا شمار دنیا کے بہترین زرعی پیداواری ممالک میں ہوتا ہے۔ گزشتہ سال جب ملک سیلاب میں پھنسا ہوا تھا اور بیرونی امداد مانگ رہا تھا تب بھی ملک گندم اور چاول برآمد کر رہا تھا۔ ٹیکسٹائل کی صف میں پاکستان پانچویں اور دھاگے کی برآمدات میں چوتھے نمبر پر ہے۔ یہاں بیش قدر معدنی وسائل بھی موجود ہیں جنہیں استعمال کر کے پاکستان بہت تیزی سے ترقی کر سکتا ہے، ہمیں اس جانب پیشرفت کرنی چاہئے۔ اس کے علاوہ ہمیں ٹیکسوں کے نظام کو بھی موثر بنانا ہو گا۔ ٹیکس کی بھرپور وصولی، اقتصادی سرمایہ کاری اور مقامی وسائل کو بروئے کار لانے سے ہی ہماری خوشحالی کا راستہ کھلے گا، خودانحصاری حاصل ہوگی۔ انشاء اللہ انتخابات کے بعد بے یقینی بھی ختم ہو گی اور ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی بحال ہو گا اور غیرملکی سرمایہ کاری کی راہیں بھی کھلیں گی۔ پاکستانی معیشت اپنے اندر بے پناہ ترقی کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ جمہوری عمل کے تسلسل سے اس بات کا قوی امکان ہے کہ ملک میں موجود بے یقینی کی کیفیت میں کمی واقع ہو گی اور نئی حکومت یکسوئی کے ساتھ ملک کو مشکلات سے چھٹکارا دلانے کی جدوجہد کرے گی۔