زینب الرٹ بل میں ترمیم لاکر سزا مزید سخت کرنا ہوگی، فیصل جاوید

September 13, 2020


کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ“میں گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر فیصل جاوید نے کہا ہے کہ زینب الرٹ بل میں ترمیم لانا ہوگی سزا کو مزید سخت کرنا ہوگی،وزیر اطلاعات پنجاب، فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے آرڈر کیا ہے کہ پنجاب پولیس اور پنجاب ہائی وے پولیس سیالکوٹ موٹر وے کو ٹیک اپ کرے 91 کلو میٹر کو تین حصوں میں تقسیم کرکے پیٹرولنگ کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے،ماہر قانون، ریما عمر نے کہا کہ سر عام پھانسی دینا پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہے۔رہنما پی ٹی آئی،سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ زینب الرٹ بل آیا تھاجس کے بعد اتھارٹی کا قیام ہونا تھا اس میں یہ ساری چیزیں کور ہیں اگر پولیس افسر تاخیر کرتا ہے تو اس کو سزا ہوجاتی ہے ۔سزاؤں کو سخت کرنا پڑے گا، کیس بڑھ رہے ہیں جب تک آپ خوف پیدا نہیں کریں گے۔ روک تھام کے لئے مجرموں کو نشان عبرت بنانا پڑے گااور اس کے لئے سخت سے سخت سزاؤں کی طرف جانا پڑے گااور یہ سرعام پھانسی بھی دی جاسکتی ہے،جو لوگ انسانی حقوق کی بات کریں تو سوال یہ ہے کہ اس بچے یا بچی کے انسانی حقوق کوئی نہیں ہیں ۔ہمیں اس بحث میں جانا پڑے گا،زینب الرٹ بل میں ترمیم لانا ہوگی سزا کو مزید سخت کرنا ہوگی۔جب سزائیں ہوں گی تو ان کو پتہ چلے گا کہ اس پر سزا بھی ہوتی ہے ابھی تو ان کی سوچ میں ہے کہ سزانہیں ہوتی ہے۔زینب الرٹ میں یہ شامل ہے کہ اگر پولیس والا زیادتی کیس میں دو گھنٹے میں کارروائی نہیں کرتاتو اس کو سزا ہوجانی ہے بہت جامع بل ہے۔وزیر اطلاعات پنجاب، فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ اندوہناک اور شرمناک واقعہ جو آج سے تین روز قبل ہوا تھا۔جس کی وجہ سے پورا پاکستانی معاشرہ وہ سخت افسردہ تھا آج ہم نے اس واقعہ کی تفتیش کے حوالے سے ایک اہم انتہائی مرحلہ کامیابی سے کیا۔آئی جی پنجاب انعام غنی اور پنجاب پولیس نے اچھے طریقے سے یہ پہلا مرحلہ مکمل کیا،وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے آرڈر کیا ہے کہ پنجاب پولیس اور پنجاب ہائی وے پولیس سیالکوٹ موٹر وے کو ٹیک اپ کرے 91 کلو میٹر کو تین حصوں میں تقسیم کرکے پیٹرولنگ کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ماہر قانون، ریما عمر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے 1994ء کے فیصلے میں کہا ہے کہ جتنا بھی سیریس جرم کیوں نہ ہومجرم کا رویہ کچھ بھی ہو اس نے کوئی بھی جرم کیا ہوسر عام پھانسی دینا پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہے ۔اس کے بعد لاہور ہائی کورٹ کا بھی کچھ سال پہلے کا اسی طرح کا فیصلہ ہے ۔مجھے بڑا افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کے لیڈرزکہتے ہیں کہ مجرموں کے کوئی حقوق نہیں ہوتے ۔ بنیادی حقوق ہمارے آئین کے مطابق سب کے ہوتے ہیں آ پ نے ان کے حقوق گارنٹی کرنی ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ سزا نہیں نہ دیں تفتیش نہ کریں لیکن کس طرح سے یہ ہوگاآپ نے منصفانہ سماعت تو کرنی ہے ۔ ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ ہم اپناکرمنل جسٹس سسٹم کیسے بہتر بنا سکتے ہیں۔جس نے جرم کرنا ہے اس کو یہ خوف ہونا چاہئے کہ وہ پکڑا جائے گاخوف اس کا ہوتا ہے خوف اس کا نہیں ہوتا کہ پھانسی سر عام دی جائے گی یا کہیں بند کمرے میں دی جائے گی۔