اسلام اور مذہبی رواداری

September 22, 2020

اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے۔ اقلیتوں کو جتنے حقوق اسلام نے دیے ہیں کسی اور مذہب نے نہیں دیے۔ اسلام نے انسانیت کو سب سے مقدم رکھا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو رب العالمین کہا ہے اور اپنے وعدے کے مطابق وہ ایسا ہی کرتا ہے۔ قرآن مجید میں ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ جس نے ایک انسان کو قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا اور جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا۔ تقسیمِ رزق میں بھی اللہ کریم یہ نہیں دیکھتا کہ کون اس کو مانتا ہے اور کون نہیں مانتا، سورۃ الکافرون میں ارشاد فرمایا کہ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کافروں سے کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ پاک کو نہیں مانتے تو میں بھی تمہارے خدائوں(بتوں) کو نہیں مانتا، پس تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین ہے۔ اس آیت مبارکہ کی تفسیر و تشریح سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کوئی اپنی مرضی سے اسلام قبول نہیں کرتا تو اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ بلاشرعی عذر کسی غیرمسلم کو قتل کرنے یا اس کو ایذا پہنچانے کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔ اللہ کریم کا بڑا فضل پاکستان کا معرض وجود میں آنا بھی ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور وطن عزیز کو اسلام کا قلعہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اقلیتوں کے لئے پاکستان محفوظ ترین ملک ہے۔ یہاں ہر مذہب اور ہر عقیدے کے لوگ آزادی کے ساتھ رہتے ہیں۔

پاکستان میں جو بنیادی انسانی حقوق مسلمانوں کو حاصل ہیں وہی حقوق یہاں رہنے والے کسی بھی اور مذہب عقیدے سے تعلق رکھنے والوں کو حاصل ہیں۔ اسی طرح ریاستی حقوق بھی سب کو برابری کی سطح پر حاصل ہیں۔ یہاں قومی و عوامی سطح پر عین اسلام کی ہدایات و احکاماتِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایات و رہنمائی اور خلفائے راشدین کے اسلامی طرز حکمرانی کی طرح مسلمان اور حکومت عمل پیرا ہیں۔ پاکستان کی عدالتوں میں مروجہ قوانین کے مطابق جو رویہ اور فیصلے مسلمانوں کے بارے میں کئے جاتے ہیں اسی طرح یہاں کے غیرمسلم شہریوں کے بارے میں کئے جاتے ہیں۔ پڑوسی ملک بھارت میں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ وہاں مسلمانوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جاتا ہے جس سے وہاں کے حکمرانوں کو اور کچھ نہیں تو ان کے سرشرم سے جھکنے تو ضرور چاہئیں۔ بھارتی حکمرانوں کو شرم کیوں نہیں آتی کہ وہ دیکھتے بھی ہیں کہ پاکستان میں ہندو اور سکھ برادری کے ساتھ کس طرح برابری کا سلوک کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں غیرمسلم موجود نہ ہوں۔ افواجِ پاکستان میں اعلیٰ عہدوں پر غیرمسلم افسران موجود ہیں۔ شعبہ طب میں بڑے بڑے نامور ڈاکٹر ہوں یا حکیم، وہاں اقلیتوں کی نمائندگی ہے۔

سرکاری ملازمتوں میں سول سروس میں اقلیتی طبقہ کے ملازمین اور افسران موجود ہیں۔ کاروبار میں ہندو اور سکھ برادری کے افراد بڑے پیمانے پر موجود ہیں۔ مندر، گوردوارے اور عیسائی برادری کے لئے گرجا گھر موجود ہیں اور ان کی یہ عبادت گاہیں پاکستان کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے شہر میں موجود ہیں۔ جہاں وہ مکمل مذہبی آزادی کے ساتھ جاتے اور وہاں اپنے اپنے مذہب کے مطابق عبادات کرتے ہیں بلکہ ان کے مذہبی تہواروں میں مسلمان بھی ان کی حوصلہ افزائی کے لئے شرکت کرتے ہیں۔ اسی طرح اقلیتیں بھی مسلمانوں کے ساتھ مذہبی تہواروں میں شریک ہوتی ہیں۔ رمضان المبارک کا احترام کرتے ہیں۔ سیاست، تعلیم، وکالت اور صحافت کے شعبوں میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد ملکی ترقی اور خوشحالی کے لئے اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ پاکستان کی چاروں صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ آف پاکستان میں اقلیتوں کے نمائندے موجود ہیں۔ غور کریں تو صاف نظر آئے گا کہ پاکستانی معاشرہ قومی کے علاوہ مذہبی حوالے سے بھی ایک خوبصورت گلدستے کی مانند ہے۔ جہاں کے رہنے والے سب لوگ مکمل مذہبی آزادی، امن و آشتی اور پیار و محبت سے رہتے ہیں۔

کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کے ساتھ نہ کوئی جبر ہوتا ہے نہ ہی ان کے ساتھ مخاصمانہ رویہ روا رکھا جاتا ہے، نہ کسی کے مذہب کی توہین کی جاتی ہے، نہ کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کی جاتی ہے اور نہ ہی کسی غیرمسلم کو مذہب تبدیلی کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے تقریباً ہر شہر اور قصبے میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہیں۔ کراچی سمیت اندرون سندھ، بلوچستان، پنجاب اور کے پی کے میں اقلیتیں موجود ہیں۔ سندھ کے جامشورو، میرپورخاص اور تھر پارکر میں بڑی تعداد میں ہندو برادری کے افراد آباد ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کے کوئٹہ سمیت دیگر شہروں میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد بستے ہیں۔ کے پی کے میں پشاور کے علاوہ بونیر اور تیراہ میں بڑی تعداد میں سکھ اور ہندو برادری کے لوگ موجود ہیں اور زیادہ تر کاروبار سے منسلک ہیں۔ اور یہ بھی خوش کن اور اطمینان بخش بات ہے کہ پاکستان میں بسنے والے اقلیتوں کے افراد نہایت سکون کے ساتھ ملکی ترقی کے لئے کوشاں اور حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار ہیں۔ تازہ ترین مثال کرتارپور کی ہے جہاں پاکستان نے نہ صرف سکھوں کے مقدس مقام کی خود تعمیر نو کی۔ وہاں تمام بنیادی اور ضروری سہولیات فراہم کی ہیں بلکہ وہاں بھارت سے آنیوالے سکھ یاتریوں کو پیار و محبت کے ساتھ خوش آمدید بھی کہا جاتا ہے۔ دوسری جانب بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے، کشمیری مسلمانوں پر ظلم و بربریت کے جو پہاڑ توڑے جاتے ہیں، وہ دنیا کے سامنے ہیں۔ امید ہے کہ اب اقوامِ عالم بھارتی مظالم پر ضرور توجہ دے گی۔