شہباز شریف جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے

September 29, 2020


مسلم لیگ نون کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ ریفرنس کی سماعت کے دوران لاہور کی احتساب عدالت نے نیب کی درخواست قبول کرتے ہوئے شہباز شریف کو 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں دے دیا۔

احتساب عدالت کے جج جواد الحسن نے نیب کو شہباز شریف کو دوبارہ 13 اکتوبر کو پیش کرنے کا حکم بھی دیا۔

اس سے قبل عدالت نے نیب کی جانب سے شہباز شریف کا جسمانی ریمانڈ دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

گزشتہ روز گرفتار ہونے والے مسلم لیگ نون کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف نے آج اپنا کیس خود لڑنے کا فیصلہ کیا، انہوں نے احتساب عدالت میں اپنے کیس کی سماعت کے سلسلے میں کسی وکیل کی خدمات نہیں لیں۔

لاہور کی احتساب عدالت کے جج جواد الحسن ریفرنس پر سماعت کی، جبکہ نیب کی جانب سے پراسیکیوٹر عاصم ممتاز اور عثمان علی راشد دلائل دینے کیلئے پیش ہوئے۔

شہباز شریف نے عدالت میں خود دلائل دینے کے لیے درخواست کی کہ میں اپنا کیس خود لڑوں گا۔

احتساب عدالت میں منی لانڈرنگ ریفرنس کی سماعت کے دوران جیل حکام نے شہباز شریف کے صاحبزادے اور نون لیگی رہنما حمزہ شہباز کو عدالت میں پیش نہیں کیا۔

جیل کے ڈاکٹر نے عدالت کو بتایا کہ حمزہ شہباز ابھی آئسولیشن وارڈ میں ہیں، ان کا دوبارہ کورونا وائرس کا ٹیسٹ کیا جائے گا۔

عدالت میں شہباز شریف کی اہلیہ اور صاحبزادی سے متعلق رپورٹ جمع کروا دی گئی۔

احتساب عدالت کے ایڈمن جج جواد الحسن نے شہباز شریف کی صاحبزادی جویریہ علی کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کی مستقل حاضری سے معافی کی درخواست منظور کر لی۔

عدالت نے شہباز شریف کی صاحبزادی جویریہ علی کو حاضری لگا کر واپس جانے کی اجازت دے دی جبکہ نعمان ایڈووکیٹ کو بطور ان کا نمائندہ پیش ہونے کا حکم دے دیا۔

عدالت نے شہباز شریف کے صاحبزادے سلیمان شہباز کے ورانٹِ گرفتاری سے متعلق پیش رفت رپورٹ طلب کر لی۔

فاضل جج نے استفسار کیا کہ سلیمان شہباز کے ورانٹِ گرفتاری جاری ہوئے تھے اس پر کیا رپورٹ ہے؟

پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ وزراتِ خارجہ کی رپورٹ کچھ دیر بعد عدالت میں پیش کر دیں گے۔

احتساب عدالت میں منی لانڈرنگ ریفرنس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو شہباز شریف نے خود دلائل دیئے۔

شہباز شریف نے کہا کہ میں اپنا کیس خود لڑوں گا، جج صاحب میرے وکلاء نے ہائی کورٹ کو بتایا ہے کہ میرے خلاف نیب کے کسی گواہ نے بیان نہیں دیا۔

انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جب میرے والد صاحب کا انتقال ہوا تو ہم جدہ میں تھے، ہم تینوں بھائیوں اور ایک بہن نے جائیداد کو تقسیم کیا، اللّٰہ تعالیٰ میری والدہ کو تندرستی اور زندگی دیں، ان کی موجودگی میں جائیداد کو تقسیم کیا گیا۔

شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان آتے ہی میں نے وہ جائیداد اپنے بچوں کے نام کر دی، میرے آفس ہولڈر ہونے کی وجہ سے میرے بچوں کے کاروبار کو نقصان پہنچا، میں نے پنجاب کے کاشت کاروں کا نقصان نہیں ہونے دیا، سرکاری خزانے کا ناجائز استعمال نہیں کیا، میں جانتا ہوں کہ یہ پیسہ غریبوں، یتیموں، بیواؤں اور عام شہریوں کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے 2017ء میں پنجاب حکومت کے چیف سیکریٹری نے سمری دی، سمری میں کہا گیا کہ پنجاب میں چینی اضافی ہے، اسے ایکسپورٹ کرنا چاہتے ہیں، میں نے کہا کہ اچھی بات ہے، چینی ایکسپورٹ ہونی چاہیے۔

صدر نون لیگ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے اوپر الزام ہے کہ میرے دورِ حکومت میں میرے بچوں کے اثاثہ جات میں اضافہ ہوا، میں نے تو وزیرِ اعلیٰ پنجاب ہوتے ہوئے اپنے بچوں کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا، میں نے چینی کے معاملے پر بچوں کو سبسڈی نہیں دی، میرے فیصلوں سے بچوں کے کاروبار کو 90 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔

انہوں نے کہا کہ میرے اس فیصلے سے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا فائدہ ہوا ہے، جبکہ اس سے کاشتکاروں کو بڑا ریلیف ملا، اربوں روپے کے فائدے سے اسپتالوں، صحت، بچوں کو لیپ ٹاپ اوراسکالر شپ دیں، میں بڑا پر اعتماد ہوں کہ مجھے انصاف ملے گا۔

شہباز شریف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے اوپر الزام ہے کہ میرے دورِ حکومت میں میرے بچوں کے اثاثہ جات میں اضافہ ہوا، حالانکہ میں نے تو وزیرِ اعلیٰ پنجاب ہوتے ہوئے بچوں کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا، میں نے اس وقت نشے میں یا بھنگ پی کر فیصلے نہیں کیئے، ہوش و حواس میں فیصلے کیئے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے سبسڈی دی تو پنجاب میں احتجاج ہوا، یہ سب ریکارڈ پر موجود ہے، ایتھنول پر میں نے 2 روپے کی ایکسائز ڈیوٹی لگا دی، شوگر مل مالکان ہائی کورٹ چلے گئے، میں نے ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت کی کہ عدالت کو بتائیں کہ ڈیوٹی درست لگائی ہے، اس ڈیوٹی سے 2 راب 50 کروڑ اکٹھے کیئے، میرے اس اقدام سے بھی میرے بچوں اور قریبی رفقاء کو نقصان ہوا۔

قائدِ حزبِ اختلاف نے کہا کہ انصاف کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، نیب نیازی گٹھ جوڑ کی وجہ سے انصاف نہیں ہو رہا، میں نے اینتھول پر ڈیوٹی نہیں ختم کی، اس حکومت نے ختم کی، میرے والد ایک غریب کسان کے بیٹے تھے اور 7 بھائی تھے، ہجرت کر کے پاکستان آئے اور اندرونِ شہر میں مقیم ہوئے، 7 بھائیوں نے مل کر ایک بند فیکٹری شروع کی، 1970ء میں یہ ادارہ پاکستان کا سب سے بڑا ادارہ بن گیا، 1972ء میں اس وقت کی حکومت نے یہ ادارہ نیشنلائز کر دیا، والد نے ہمت نہیں ہاری اور پھر 6 فیکٹریاں لگائیں، یہ الزام لگاتے ہیں کہ میری وجہ سے میرے بچوں کے اثاثے بڑھے، جب ہمیں ہماری فیکٹری واپس ملی تو اس وقت وہ کھنڈر بن چکی تھی۔

عدالت نے شہباز شریف سے سوال کیا کہ یہ جو آپ نے مجھے تفصیلات دی ہیں، یہ آپ نے نیب کو بتائی ہیں؟ آپ نے جو اچھے کام کیئے یہ نیب کو بھی پتہ چلنے چاہئیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ نیب کو علم ہے لیکن وہ بیچارے خاموش ہو جاتے ہیں، یہ بولتے نہیں ہیں، ’گھنے‘ بنے ہوئے ہیں، میں نے 3 ادوار میں پنجاب کی خدمت کی، کبھی ٹی اے ڈی اے نہیں لیا، جو سفر کیا اپنی جیب سے کیا، جہاز کا خرچ، کمرے کا خرچ خود برداشت کرتا تھا، میں نے ایک دھیلے کی بھی کرپشن نہیں کی۔

شہباز شریف نے اپنے ادوار میں کیئے گئے ترقیاتی کاموں کا کتابچہ بھی عدالت میں پیش کر دیا۔

عدالت نے ان سے سوال کیا کہ آپ یہ کتابچہ پیش کر رہے، کیا اسے ریکارڈ کا حصہ بنا دیا جائے؟

شہباز شریف نے کتابچے کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کی اجازت دے دی۔

فاضل جج نے شہباز شریف سے کہا کہ اگر آپ کھڑے کھڑے تھک گے ہیں تو بیٹھ جائیں۔

جس پر شہباز شریف کمرۂ عدالت میں کرسی پر بیٹھ گئے۔

تفتتیشی افسر نے کہا کہ کل شہباز شریف سے پوچھا گیا لیکن انہوں نے واضح کیا کہ وہ کچھ نہیں بتائیں گے، شہباز شریف کو کل گراؤنڈ آف اریسٹ پر دستخط کروائے گئے، انہوں نے کہا کہ میں کوئی جواب نہیں دوں گا، سب کچھ پہلے ہی بتا چکا ہوں۔

شہباز شریف نے اس موقع پر کہا کہ میں کوئی قانونی دلائل نہیں دوں گا، جتنا عدالت نے ریمانڈ دینا ہے دے دے۔

اس موقع پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا جو بعد میں سناتے ہوئے نیب کی درخواست منظور کر لی اور شہباز شریف کو 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں دے دیا جبکہ شہباز شریف کو دوبارہ 13 اکتوبر کو پیش کرنے کا حکم بھی دیا۔

اس سے قبل صدر مسلم لیگ نون شہباز شریف نے احتساب عدالت کے احاطے میں میڈیا سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیب نیازی گٹھ جوڑ ناکام ہے، اس کا مقابلہ کریں گے۔