خیبر پختون خوا کے خواجہ سرا تحفظ کیلئے سرگرداں

October 04, 2020

خواجہ سرا ہمارے معاشرے کا ایک ایسا مظلوم طبقہ ہے، جسے ہر کوئی حقارت و نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس ضمن میں انتہائی افسوس ناک امر یہ ہے کہ اِس رویّے کا آغاز کہیں اور سے نہیں، اُن کے اپنے والدین اور رشتے داروں ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔ اولاً یہی لوگ انھیں اپنانے سے کتراتے ہیں اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے، جب والدین، خاندان اور معاشرے سے دُھتکارے جانے کے بعد وہ پناہ کی تلاش شروع کردیتے ہیں اور ایسے موقعے پر اُنھیں پناہ اُن ہی کے جیسے لوگ فراہم کرتے ہیں، جن کی اپنی گزر بسر ناچ گانے یا بھیک مانگنے پر ہوتی ہے۔

پناہ کے متلاشی یہ خواجہ سرا ان گروپس میں شامل ہو جاتے ہیں، جہاں اُن کی آمد پر باقاعدہ جشن منایا جاتا ہے اور انہیں دل سے قبول کر لیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے آج بھی 95فی صد سے زاید خواجہ سرا ناچ گانے ہی پر گزربسر کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں مزید حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کا وجود برداشت نہ کرنے والے بسا اوقات ان کی جان کے درپے ہو جاتے ہیں۔ آئے روز ایسے واقعات رونُما ہوتے رہتے ہیں، جن میں یہ کم زور، بے بس افراد اپنوں اور پرایوں کے ہاتھوں جان کی بازی ہار بیٹھتے ہیں۔

اِسی قسم کا ایک واقعہ گزشتہ دنوں پشاور میں پیش آیا، جب9 اور 10ستمبر کی درمیانی شب تہکال کے علاقے، پلوسی میں منہدی کی ایک تقریب میں ناچ گانے کے لیے خواجہ سرائوں کو مدعو کیا گیا۔ تین گھنٹے کے پروگرام کے بعد خواجہ سرا گاڑی میں سوار ہو رہے تھے کہ اُن پرفائرنگ کردی گئی، جس کے نتیجے میں گل پانڑہ نامی خواجہ سرا جاں بحق اور چاہت زخمی ہو گیا۔ فائرنگ کے بعد بھگدڑ مچ گئی۔ لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے زمین پر لیٹ گئے، جب کہ شدید زخمی گل پانڑا اور چاہت خون میں لت پت، بے یارومددگار زمین پر پڑے رہے۔

خواجہ سرا پر حملے کا ملزم پولیس کی حراست میں

جب خوف کی فضا چَھٹی، تو موقعے پر موجود افراد اور خواجہ سرائوں نے اپنے زخمی ساتھیوں کو طبّی امداد کے لیے خیبر ٹیچنگ اسپتال منتقل کیا، جہاں گل پانڑا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دَم توڑ گیا۔واقعے کی اطلاع ملتے ہی درجنوں خواجہ سرا اسپتال پہنچ گئے۔ اپنے ساتھی کے قتل پر اُن کے احساسات دیکھ کر وہاں موجود افراد بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور آب دیدہ ہوگئے۔ زخمی خواجہ سرا، چاہت نے پولیس کو بتایا’’مَیں9 اگست کو عمّاد ولد ابراہیم سکنہ چاند ماری کی منہدی کی تقریب میں شرکت کے لیے گل پانڑا، گڑیا، عدنانے اور میری کے ہم راہ گیا تھا، جہاں سے واپسی پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا۔‘‘گل پانڑہ کی لاش پوسٹ مارٹم کے بعد ورثاء کے حوالے کردی گئی، جسے بعدازاں آبائی گائوں، پشتہ خرہ میں سُپردِ خاک کیا گیا۔

گل پانڑہ

خیبر پختون خوا کے دیگر شہروں کے مقابلے میں پشاور میں خواجہ سرائوں کی تعداد کافی زیادہ ہے، اِسی لیے یہاں آئے روز انھیں نشانہ بنانے کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ کبھی انہیں اغواء کیا جاتا ہے، تو کبھی وہ تشدّد اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔ تہکال واقعے سے پانچ روز قبل تھانہ فقیر آباد کی حدود میں رِنگ روڈ پر بھی خواجہ سرائوں پر فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں ایک خواجہ سرا زخمی ہوا۔ مجروح خواجہ سرا طائوس ولد گل زار کا کہنا تھا کہ’’ وہ اپنے ساتھی خواجہ سرائوں کے ساتھ قاضی کلے میں شادی کی تقریب میں شرکت کے بعد واپس آرہا تھا کہ رِنگ روڈ پر دو موٹرسائیکلز پر سوار مسلّح افراد نے اُنہیں روکا اور اسلحے کی نوک پر 50ہزار روپے چھین لیے۔

مزاحمت کی، تو مسلّح افراد نے اُن پر فائرنگ کردی۔‘‘ قبل ازیں، تھانہ مچنی گیٹ کی حدود میں ایک خواجہ سرا کو اغواء کرکے گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔ متاثرہ خواجہ سرا نے پولیس کو بتایا کہ ملزمان نے زیادتی کا نشانہ بنانے کے دَوران اُس کی ویڈیو بھی بنائی، جسے رپورٹ درج کروانے کی صُورت میں سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کی دھمکیاں دیں اور پھر ایسا ہی ہوا۔ ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی، اُنہیں گرفتار کیا گیا، تاہم متاثرہ خواجہ سرا نے عدالت میں راضی نامہ پیش کردیا، جس پر ملزمان ضمانت پر رہا ہوگئے۔

اگر دیکھا جائے، تو بیش تر کیسز میں خواجہ سرائوں کے ساتھ زیادتی گھر، رشتے داروں اور محلّے ہی سے شروع ہوتی ہے۔مگر معاشرہ بھی اُنہیں ایک باعزّت شہری تسلیم نہیں کرتا، جس کی وجہ سے مرتے دَم تک انہیں ہر موقعے اور مقام پر نفرت، تحقیر کا سامنا رہتا ہے۔خواجہ سرائوں کا شکوہ ہے کہ جب بھی اُن کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی ہے اور وہ اُس کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں، تو کسی تفتیش کے بغیر اُنھیں ہی غلط یا ملزم ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ بچپن میں جب اُن کی بعض عادات لڑکیوں کی طرح ہوتی ہیں، تو گھر ہی سے اُن کے ساتھ ناانصافی شروع ہو جاتی ہے۔ بہن بھائی اور والدین اُنہیں اصل نام کی بجائے’’ ہیجڑا‘‘ کے نام سے پکارنا شروع کردیتے ہیں۔آہستہ آہستہ یہ نام گھر سے نکل کر محلّے کے بچّوں کے کانوں تک پہنچ جاتا ہے، جس کے بعد بچّے بھی اُنھیں اسی نام سے پکارنے لگتے ہیں۔

والدین، بہن بھائیوں اور رشتے داروں کی جانب سے باقی بچّوں کے مقابلے میں انہیں کم توجّہ دی جاتی ہے اور ان کے ساتھ کُھلی نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اسی معاشرتی حقارت کی وجہ سے خواجہ سرا رفتہ رفتہ اپنے والدین، بہن بھائیوں کے لیے بوجھ بن جاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ گھر سے راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ وہ کسی ایسی جگہ کی تلاش میں ہوتے ہیں، جہاں انہیں کم ازکم انسان تو تسلیم کیا جائے۔عموماً وہ پناہ کی تلاش میں بڑے شہروں کا رُخ کرتے ہیں، جہاں سے خواجہ سرائوں کے بالا خانوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ اس پر والدین بھی سُکھ کا سانس لیتے ہیں کہ وہ بھی لوگوں کے طعنوں سے تنگ آ چُکے ہوتے ہیں۔خواجہ سرائوں کے بالا خانوں میں بیش تر ایسے ہی ہوتے ہیں، جنہیں والدین، بہن بھائیوں یا رشتے داروں نے بوجھ سمجھ کر سر سے اتارا ہوتا ہے، لیکن یہاں انہیں اچھے انداز میں خوش آمدید کہا جاتا ہے، تو وہ محسوس کرتے ہیں کہ یہی وہ مقام ہے، جہاں وہ محفوظ ہیں۔ جہاں اُن کا وجود تسلیم کیا جاتا ہے اور آس پاس کے لوگ اُن سے نفرت نہیں کرتے۔

بالا خانوں میں پہنچنے کے بعد چوں کہ اُن کے پاس ناچ گانے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوتا، تو پیٹ پالنے کے لیے ناچ گانا سیکھنا ہی پڑتا ہے۔ کچھ ہی دنوں میں وہ باقاعدہ خواجہ سرا کا رُوپ دھار لیتے ہیں اور شادی بیاہ کی تقاریب میں جانا شروع کردیتے ہیں۔ بعض اوقات ان تقاریب میں شریک ہونے والے امیر اور بااثر افراد سے خواجہ سرائوں کی دوستی بھی ہو جاتی ہے۔ یہ امیر لوگ اُن پر ہزاروں، لاکھوں روپے لُٹا دیتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ دوستیاں بڑھتی جاتی ہیں اور بسا اوقات اُنہیں چاہنے والے اُن کے لیے اپنا گھر اور کاروبار تک چھوڑ دیتے ہیں۔

تاہم جب تک اُن کے پاس پیسے ہوتے ہیں، خواجہ سرا بھی دوستی برقرار رکھتے ہیں اور جیب خالی ہوتے ہی وہ اُن سے دُور بھاگنا شروع کردیتے ہیں، جس کی وجہ سے اُن کے سابقہ دوستوں کے ساتھ لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ دوستی برقرار رکھنے کے لیے اُنہیں مختلف طریقوں سے تنگ کرتے ہیں اور اگر پھر بھی بات نہ بنے، تو بات تہکال اور فقیر آباد جیسے واقعات تک جا پہنچتی ہے۔

اسد عرف سعیدہ

پشاور میں گل پانڑہ کے قتل کے 20گھنٹے بعد صوابی میں اسد عرف سعیدہ نامی خواجہ سرا کو اُس وقت فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا، جب وہ راول پنڈی سے صوابی اپنی ماں سے ملنے گیا۔ 18سالہ اسد عرف سعیدہ کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ اپنے بہن بھائیوں، والدین اور رشتے داروں کے طعنوں کی وجہ سے دو سال قبل راول پنڈی منتقل ہو گیا تھا اور شادی بیاہ کی تقاریب میں شریک ہو کر گزر بسر کر رہا تھا۔ وہ اکثر چوری چُھپے بہنوں اور والدہ سے ملنے جایا کرتا ۔ اِس بار بھی ملنے گیا، تو والد سوات گیا ہوا تھا، جب کہ والدہ قریبی گائوں میں رشتے داروں کے ہاں گئی ہوئی تھیں۔

بھائیوں کو اُس کا گھر آنا بُرا لگا اور13 سالہ سوتیلے بھائی ،حمّاد نے فائرنگ کرکے اُسے قتل کردیا۔ مقتول اسد کے بھائی، میر سلطان نے پولیس کو دئیے گئے بیان میں بتایا کہ’’ اسد جب بھی گائوں آتا، لوگ اُنہیں طعنے دیتے کہ’’ تمہارا بھائی خواجہ سرا ہے‘‘، اِس لیے جب بھی وہ گھر آتا، بھائیوں کی اُس کے ساتھ لڑائی ہوجاتی۔ٗ‘‘ ڈی پی او صوابی، عمران شاہد کا اِس ضمن میں کہنا ہے کہ’’مفرور ملزم حمّاد کی گرفتاری کے لیے ایس پی انویسٹی گیشن، بنارس خان کی نگرانی میں کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔‘‘’’خیبر پختون خوا سِول سوسائٹی نیٹ ورک‘‘ کے کوارڈی نیٹر، تیمور کمال کہتے ہیں’’ صوبے میں گزشتہ پانچ سال کے دَوران 70سے زاید خواجہ سرائوں کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔

اِسی طرح سیکڑوں خواجہ سرائوں کے ساتھ اغواء،جنسی زیادتی اور تشدّد کے واقعات رونما ہوئے۔ تاہم، اِس سب کے باوجود ان کے تحفّظ کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ خواجہ سرائوں کے ساتھ جب بھی کوئی زیادتی ہوتی ہے اور وہ رپورٹ درج کروانے تھانے جاتے ہیں، تو پولیس بات سُننے سے پہلے ہی اُنھیں قصور وار ٹھہرا دیتی ہے۔ اگر میڈیا میں واقعات رپورٹ ہونے کی وجہ سے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج ہوجائے، تب بھی ناقص تفتیش اور کم زور ایف آئی آر کی وجہ سے ملزمان جلد ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں۔‘‘ اُنہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ’’ خواجہ سرائوں کے ساتھ زیادتی کے مقدمات میں پولیس کو مدعی بننا چاہیے، کیوں کہ خواجہ سرا تو معاشرے کے کم زور ترین لوگ ہیں۔

جب وہ کسی کے خلاف ایف آئی آر درج کرواتے ہیں، تو اُنہیں طرح طرح کی دھمکیاں ملنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ابتدا میں تو ایف آئی آر رکوانے کے لیے اُنہیں دھمکایا جاتا ہے اور اگر ایف آئی آر درج ہو جائے، تو ملزمان اُنہیں راضی نامے پر مجبور کرنے کے لیے دھمکیاں دیتے ہیں اور خواجہ سرا خود کو کم زور اور غیر محفوظ سمجھ کر ملزمان سے راضی نامے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ملزمان کو بھی خواجہ سرائوں کی اِس کم زوری کا علم ہے، اِسی لیے جیلوں سے رہائی کے بعد وہ دوبارہ اُنہیں تنگ کرنا شروع کردیتے ہیں۔

چند سال قبل خواجہ سرائوں کو اپنی تقاریب میں لے جانے والوں کے لیے لازمی تھا کہ وہ متعلقہ تھانے میں اطلاع دیں۔پولیس تقاریب کرنے والوں سے مختلف ضمانتیں لیا کرتی۔ تقریب کے بعد جب وہ خواجہ سرائوں کو واپس اُن کے بالا خانوں میں پہنچاتے، تب بھی متعلقہ تھانے کو آگاہ کرتے، لیکن اب یہ سلسلہ ختم ہو گیا ، جس کی وجہ سے خواجہ سرائوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘

پشاور میں خواجہ سرا کے قتل کے بعد خیبر پختون خوا پولیس نے ان کے تحفّظ کے لیے اقدامات کرنے شروع کر دیے ہیں۔ سینٹرل پولیس آفس کے مطابق، خواجہ سرائوں کے مسائل کے حل کے لیے صوبے بھر کے تھانوں میں اسپیشل ڈیسک قائم کیے جائیں گے۔ نیز، پولیس ٹریننگ اسکول میں بھی خواجہ سرائوں کے حقوق کے حوالے سے سیشن ہوگا۔ پولیس اسٹیشنز میں خواجہ سرائوں کے ساتھ دیگر شہریوں ہی کی طرح برتاؤ ہوگا اور اُن کی داد رسی کی جائے گی۔ علاوہ ازیں، ہر ضلعے میں خواجہ سرائوں کے تحفّظ کے لیے کمیٹی قائم کی جائے گی، جہاں ڈی ایس پی یا اے ایس پی فوکل پرسن ہوں گے۔پولیس کے مطابق، صوبہ بھر میں خواجہ سرائوں کا ڈیٹا بھی اکٹھا کیا جائے گا۔

اِس سلسلے میں پشاور میں خواجہ سرائوں کی سکیوریٹی کا جائزہ لینے کے لیے ایس ایس پی آپریشنز، پشاور، منصور امان کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ منصور امان نے کا کہنا ہے کہ’’ پشاور میں خواجہ سرائوں کے خلاف جرائم میں مخصوص گروپس ملوّث ہیں۔ تاہم اُن کی بہت جلد نشان دہی ہوجائے گی، جس کے بعد اُنھیں ہر صُورت قانون کی گرفت میں لایا جائے گا۔ پشاور پولیس خواجہ سرائوں سے متعلق کیسز کی پیش رفت کا جائزہ لے گی۔ہم نے خواجہ سرائوں کا ڈیٹا جمع کرنے کا بھی آغاز کردیا ہے۔ پشاور میں سِول سوسائٹی، خواجہ سرائوں اور ایس ایچ اووز پر مشتمل کمیٹیز قائم کی جائیں گی۔‘‘اِس حوالے سے تیمور کمال کا کہنا ہے کہ’’ جب کوئی خواجہ سرا قتل ہو جاتا ہے، تو پولیس سِول سوسائٹی اور خواجہ سرائوں کے عُہدے داروں کو بُلا کر کمیٹیز قائم کردیتی ہے، لیکن اس کے بعد کچھ نہیں ہوتا۔

تین سال قبل بھی پشاور میں ایک خواجہ سرا کے قتل کے بعد سِول سوسائٹی، خواجہ سرائوں اور پولیس افسران پر مشتمل کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن اُس کا آج تک نوٹی فکیشن جاری نہیں کیا گیا۔ 2016ء، 2017ء اور 2018ء کے بجٹ میں خواجہ سرائوں کی بہبود کے لیے 20کروڑ روپے مختص کیے گئے، جو اُن پر خرچ نہیں ہوئے۔ حکومت کی ذمّے داری ہے کہ وہ خواجہ سرائوں کے حقوق اور تحفّظ کے لیے قانون سازی کرے۔ اُن کے لیے ڈویژن اور اضلاع کی سطح پر ایسے سینٹرز قائم کیے جائیں، جہاں اُنہیں کوئی ہنر سِکھایا جائے تاکہ وہ اپنے لیے دو وقت کی روٹی کما سکیں۔‘‘

’’ شی میل ایسوسی ایشن، خیبر پختون خوا‘‘ کی صدر، فرزانہ کا کہنا ہے کہ’’ صوبائی حکومت اور پولیس خواجہ سرائوں کو تحفّظ فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چُکی ہے۔ جب کوئی خواجہ سرا قتل ہوتا ہے، تو حکومت اور پولیس فوری طور پر اُنہیں بلا کر کمیٹیاں قائم کرتی ہیں، لیکن اس کے بعد پوچھتی ہی نہیں۔صوبے بھر میں روزانہ کی بنیاد پر خواجہ سرائوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں، لیکن پولیس اُنہیں تحفّظ فراہم نہیں کر رہی۔ بہت سے کیسز میں تو پولیس اُن کی بات سُننے کو بھی تیار نہیں ہوتی۔

آئے روز خواجہ سرا قتل ہو رہے ہیں، اُن سے بھتّے طلب کیے جارہے ہیں، ریپ کیا جا رہا ہے، لیکن پولیس کی کم زور ایف آئی آر اور ناقص تفتیش کی وجہ سے ملزمان کو سزائیں نہیں ہو رہیں۔اگر پولیس ملزمان کے خلاف سخت ایف آئی آر درج کرے اور معیاری تفتیش کی جائے، تو ملزمان سزاؤں سے نہیں بچ سکیں گے۔اگر خواجہ سرائوں کے ساتھ زیادتی کے چند کیسز ہی میں ملزمان کو سزائیں مل جائیں، تو اس کے بعد کوئی بھی خواجہ سرا کو حقیر نہیں سمجھے گا۔ بہت سے ایسے خواجہ سرا ہیں، جو جب تک زندہ ہوتے ہیں، تو اُن کے والدین اور بہن،بھائی اُنہیں تسلیم نہیں کرتے، لیکن جب وہ قتل ہو جاتے ہیں، تو وہی ملزمان سے بھاری رقوم لے کر راضی نامہ کرلیتے ہیں اور اُن ہی کی وجہ سے ملزمان جلد رہا ہو جاتے ہیں۔‘‘