طوفانی اور دھماکہ خیز انتخابی مہم؟

April 29, 2013

11مئی 2013ء کو منعقد ہونے والے عام انتخابات کی انتخابی مہم دو مختلف انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ صوبہ پنجاب میں سیاسی گہما گہمی انتہائی عروج پر ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف طوفانی انداز میں اپنی انتخابی مہم کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ اس کے برعکس صوبہ خیبرپختونخوا، بلوچستان، صوبہ سندھ بالعموم اور کراچی بالخصوص دھماکہ خیز مہم کی زد پر ہیں۔ گزشتہ چند روز میں عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پر متعدد بم حملے کئے گئے جن میں دو درجن کے قریب سیاسی اور انتخابی کارکن جاں بحق ہوئے۔ بالکل اسی طرح صوبہ بلوچستان آئے دن بم دھماکوں سے لرز رہا ہے اور تازہ ترین اطلاعات کے مطابق انتہا پسندوں کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں کے بعد بلوچستان کے انتخابی عملے نے پولنگ کا انتظام سنبھالنے سے انکار کردیا ہے۔ اس صورتحال کے باوجود نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن اس بات پر مصر ہیں کہ وہ آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کرا کر دم لیں گے۔
توجہ طلب امر یہ ہے کہ سابق حکمراں جماعت پاکستان پیپلزپارٹی انتخابی مہم سے عملاً دور نظر آتی ہے اور وہ بنیادی طور پر میڈیا مہم کے ذریعے اپنے رائے دہندگان تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انتہا پسندوں نے جن تین جماعتوں کو انتخابی عمل کے دوران نشانہ بنانے کی دھمکی دی تھی، ان میں پاکستان پیپلزپارٹی بھی شامل ہے تاہم انتہا پسندوں کے حملوں کی زد پر دو جماعتیں یعنی عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیوا یم زیادہ ہیں جن کی انتخابی مہم کو بطور خاص کو انہوں نے سبوتاژ کرر کھاہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورتحال سے کس طرح نکلا جاسکتا ہے؟جو دہشت گرد انتخابی مہم کو نقصان پہنچا رہے ہیں، وہ کو ئی باقاعدہ سیاسی جماعت نہیں ہیں بلکہ کالعدم عسکری تنظیمیں ہیں۔ اس انتہائی مشکل صورتحال سے نکلنے کا بظاہر راستہ نظر نہیں آتا لیکن اس کے لئے جن جماعتوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں ملی ہوئی ہیں، انہیں اپنے طور پر بھی حفاظتی اقدامات کرنے ہوں گے اور اپنی انتخابی مہم کو آگے بڑھانے کے لئے متبادل ذرائع تلاش کرنے ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ نگراں حکومت ، اس امر کو یقینی بنائے کہ اسلحہ اور گولہ بارود کی ترسیل ممکن نہ ہوسکے اور یہ ترسیل بین الصوبائی سطح پر اور اندرون شہر بھی روکی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ انتخابی امیدواروں کی کارنر میٹنگز، انتخابی جلسوں اور ڈور ٹو ڈور مہم کو غیر معمولی تحفظ فراہم کیاجائے کیونکہ اگر یہ تین جماعتیں اپنی مہم نہ چلا سکیں اور نتائج انیس بیس ہوئے تو پاکستان کا نوزائیدہ سیاسی نظام منہدم ہوسکتا ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں پاکستان کے حکمران، عدلیہ اور فوج کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ گزشتہ روز عوامی نیشنل پارٹی کی کارنر میٹنگ پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری دہشت گردوں نے قبول کرتے ہوئے مزید حملوں کا عندیہ دیا ہے۔ اگر ہم ان تین حملوں کا جائزہ لیں تو پہلا حملہ پیپلز چورنگی پر، دوسرا نصرت بھٹو کالونی اور تیسرا مومن آباد ، اورنگی ٹاؤن میں کیا گیا ہے۔ پہلے دو حملے ایک ہی سڑک پر پائے جانے والے دو دفاتر پر ہوئے جبکہ تیسرا حملہ بھی کراچی کے مضافات سے جڑے علاقے میں ہوا۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے حوالے سے گزشتہ کئی سالوں سے انتباہ کیاجارہا تھا لیکن اس پر حکمرانوں نے کان نہ دھرا بلکہ سیاسی جماعتیں بھی اس پر یقین کرنے کو تیار نہ تھیں۔ آج وہ سیاسی جماعت بھی ان دہشت گردوں کا نشانہ بن رہی ہے جو ان کی پناہ گاہوں سے انکار کر رہی تھی۔
گزشتہ بم دھماکوں میں بے گناہ بچے بھی زخمی ہوئے لہٰذا مبینہ طور پر کفر کے نظام کیخلاف ہونے والے جہاد کے مرکزی کرداروں سے یہ درخواست ہے کہ وہ طاقت کے بجائے دلیل سے اپنی بات سامنے لائیں اور خواتین اور بچوں کا خیال رکھیں اور بزدلانہ حملوں کے بجائے اگر وہ اخلاقی جرأت رکھتے ہیں تو سامنے آکر عقل اور دلیل کی بنیاد پر اپنے موٴقف کو درست ثابت کریں۔ بصورتِ دیگر دہشت گردی سے تائب ہو کر اپنے آپ کو قانون کے حوالے کریں۔ اسلام سمیت کوئی بھی نظام انسانی خون بہانے کی اجازت نہیں دیتا جبکہ ہم اس بات کے دعویدار ہیں کہ اسلام امن کا دین ہے اور نظریات یا اختلاف کی بنیاد پر گردنیں مارنے کے بجائے ہم علم اور منطق کا سہارا لیں۔ اسلام ازل سے فلاح اور تحفظ کا دین ہے اور اسے تشدد کا دین قرار نہیں دیاجاسکتا اور نہ ہی مسلمان اس رجحان کے متحمل ہوسکتے ہیں کیونکہ اگر ہم نے اس تشدد کی راہ کو ترک نہیں کیا تو دنیا ہمیں اپنے سے الگ تھلگ کردے گی اور ہم ناپسندیدہ اقوام کی صف میں کھڑے کردیئے جائیں گے۔ ایک اللہ، ایک رسول اورایک کتاب کے ماننے والے آج اللہ کی کتاب سے روگردانی کرتے نظر آرہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ کے پیغام سے بھی صرفِ نظر کئے ہوئے ہیں اور مخصوص مفادات کے حصول کیلئے دین اسلام کی تشریح اپنے انداز میں کر رہے ہیں۔ خدارا امن ، ترقی اور خوشحالی کے لئے تعلیم دشمنی کو ترک کیاجائے۔ ترقی کی راہ میں حائل نہ ہوا جائے بلکہ اللہ کے رسول ﷺ کی سنت اختیار کرکے کردار اور علم کی بنیاد پر اب اپنے پیغام کو آگے بڑھایاجائے۔ پاکستان کے طول و عرض میں چلنے والی انتخابی مہم کو کفر کے نظام سے تعبیر کرنے والے اس بات کی وضاحت کریں کہ کیا اس نظام میں شامل صرف تین جماعتیں ہی کفر پر ہیں اور کیا باقی جماعتیں کیوں نہیں ہیں؟ لہٰذا اپنے مطالبات سامنے لائیں تشدد کا راستہ ترک کریں اور اپنے مطالبات کو درست ثابت کرنے کے لئے دلائل کے ساتھ بات چیت کرکے نظا م میں اصلاحات لائی جاسکتی ہیں۔ یہ ناممکن نہیں لیکن تشدد کا راستہ ہمیں تباہی کی طرف لے جائے گا۔