زمین کا کینسر

October 23, 2020

اکتوبر کا مہینہ خواتین میں چھاتی کے کینسر سے آگاہی کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔ ازل سے انسان کے وجود میں سرایت یہ بیماری تشخیص کے آئینے میں دیر سے نمودار ہوئی۔ یہ ایک ایسا زہریلا سانپ ہے جسے برسوں انسان خود پالتا ہے۔ اس کی چھوٹی موٹی علامتوں اور حملوں کی طرف دھیان ہی نہیں دیا جاتا۔ جب پھن پھیلاتا ہے تو بچاؤ کا وار کارگر نہیں ہوتا، اندر سے وجود سرنڈر کر چکا ہو تو باہر کا دوا دارو اثر نہیں کرتا۔ وقت ہی کم بچتا ہے وہ بھی پچھتاوے، توبہ تائب اور لاحاصلی کی اذیت سہنے کے لئے۔

کینسر کی بیماری صرف خواتین یا انسانوں تک محدود نہیں۔ یہ بلا کائنات کے ہر مظہر کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے۔ اس کا سایہ روشنی، خیر، توانائی اور امکانات کے چشموں پر تخریب کی کالی چادر پھیلا کر ترسیل کا رستہ مسدود کر دیتا ہے۔ اسے کوئی بھی نام دے سکتے ہیں لیکن یہ زہر ہر وجود کا مقدر ہے۔ فطرت نے ہر شے کے اندر خطرے کا الارم فٹ کر رکھا ہے، مسلسل بجنے کے باوجود اس جانب متوجہ نہ ہوا جائے تو یہ خاموش ہو جاتا ہے۔ زمین کے سینے میں بھی اس زہر کے جراثیم موجود ہیں۔ اسے بھی چھاتی کا کینسر لاحق ہوتا ہے، علاج نہ ہونے کی صورت لمبے عرصے کے لئے کومے میں چلی جاتی ہے۔ پھر کوئی طوفان یا سیلاب اس کی ویرانی اور بنجر پن کے خاتمے کا سامان کرتا ہے۔ آج کل پوری دنیا کی زمین اور فضاؤں میں کینسر کا زہر پھیلا ہوا ہے۔ یہ زہر کبھی وبائوں کی صورت میں حملہ کرتا ہے اور کبھی بلاؤں کی صورت میں۔ صرف ظاہری علاج کی فکر کرنا وقتی حل ہے۔ اس کے مستقل سدِّباب کے لئے اس کی وجوہات دریافت کرناضروری ہیں۔ آج کے ترقی یافتہ انسان کو اپنے کردار کا پوسٹ مارٹم کرنا ہے۔

جب زمین پر مسلسل بے رحمی، ظلم اور بے انصافی کا کھیل کھیلا جائے، جب فضائوں کو نفرت کی پھنکار سے آلودہ کر دیا جائے، جب پودوں، فصلوں اور درختوں کی جڑیں بے گناہوں، معصوموں اور بے بسوں کے لہو سے لتھڑی ہوں تو پھر صحت مند ماحول کیسے تشکیل پا سکتا ہے؟ وہ فصل اور پھل کھانے والے زہر سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ وہ بھی اس جرم کے شریک ِکار ہو جاتے ہیں۔ ہم سب ایک اجتماعی نظام کا حصہ ہیں۔ کائنات ایک کنبہ ہے اور دنیا کے تمام افراد اس کنبے میں شامل ہیں بھلے وہ شکل و صورت اور مال ومرتبے میں ایک دوسرے سے مختلف ہوں۔ بات صرف انسانوں تک محدود نہیں، دیگر حیاتیاتی مظاہر بھی اِن اعمال کے حصہ دار بنتے ہیں اور اجتماعی خوشی غمی میں کردار ادا کرتے ہیں۔ ماضی میں اسی زمین کے لوگ جن کی غذا میں زمین کے خلوص سے پکے ہوئے پھل اور اجناس تھیں، طویل عمر رکھتے تھے اور صحت مند زندگی پاتے تھے۔ آج ہمارے پاس بہت سے آرام کے سلسلے ہیں، اچھی غذائیں ہیں مگر ان میں برکت نہیں ہے۔ دونوں طرف اخلاص کی کمی ہے، ہم نے بھی زہر والی کھاد وجود میں بھرنا شروع کر دی ہے اور زمین کو بھی اس سے آلودہ کر دیا ہے۔

ہمارے وجود سے خارج ہونے والی نفرتوں نے ہماری زمین کاسانس لینا دوبھر کر دیا ہے۔ اس کا دم گھٹنے لگا تو پورا کھیل بگڑ جائے گا۔ زمین کو سلامتی، شفقت اور محبت کے لمس کی ضرورت ہے۔ یہی اس کا رزق ہے اور کھاد بھی۔ رحم اور کرم کی بارش برسانے والے رب کی مخلوق کو بارش اور زمین کے درمیان حائل نفرت کے پردے ہٹانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے دائرہ اختیار میں رحمت کو شامل کرنا ہے، دکھ دینے سے گریز کرنا ہے،سوچ کو مثبت رکھنا ہے، دل کو شفاف کر کے دنیا کودیکھنا ہے ورنہ زمین کی چھاتی میں پھیلنے والا یہ کینسر لاعلاج بھی ہو سکتا ہے۔ یہ زہر ہری بھری کائنات کو زرد بھی کر سکتا ہے۔ ربیع الاول کا مبارک مہینہ ہے جس کے ساتھ رحمتوں کے سلسلے جڑے ہوئے ہیں ،اِس ماہِ مقدس میں یہ اعادہ کرنے کی ضرورت ہےکہ آئیے اپنے وجود،ملک اور کائنات کو نفرت کے کینسر سے نجات دلانے کے لئے رحمت اللعالمینؐ کی ذاتِ بابرکات کی پیروی کو عملی طور پر اپنا وظیفہ بنائیں۔ خیر کی ڈگر پر سفر شروع کریں اور اس دنیا کو باغ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ میاں محمد بخشؒ نے کہا تھا،

رحمت دا مینہ پا خدایا باغ سُکا کر ہریا

بوٹا آس امید میری دا کردے میوے بھریا