تو لاڑکانہ میں رہ کر دیکھتے ہیں

May 03, 2013

اگلے روز محترمہ فریال تالپور سے لاڑکانہ میں ملاقات انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی، فریال تالپور صاحبہ اس وقت تقریباً پارٹی سربراہ کے طور پر کام کررہی ہیں اور حلقہ 207 لاڑکانہ سے امیدوار بھی ہیں۔ جس میں غنویٰ بھٹو، ڈاکٹر خالد سومرو اور دیگر امیدوار بھی اُن کا مقابلہ کررہے ہیں۔ فریال تالپور صاحبہ پُرامید ہیں کہ وہ وہاں سے کامیاب ہو جائیں گی۔ جس کے آثار اس طرح دیکھے گئے کہ خواتین کو انہوں نے متحرک کیا ہوا ہے اور منظر وہ تھا جو کراچی میں ایم کیوایم کی خواتین کا خاصا ہے۔ اب لاڑکانہ کی خواتین متحرک ہوں تو لگتا ہے کہ اندرون سندھ کی خواتین منظم اور طاقتور ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لاڑکانہ اور رتوڈیرو کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُن کے علاقے کی خواتین ایئرہوسٹس بنیں اور قوم کی خدمت کرتے ہوئے سندھ کے نوجوان جو اب ایک بڑی تعداد میں فوج میں چلے گئے ہیں ان میں سے صرف لاڑکانہ میں سے چار فوجیوں نے جام شہادت نوش فرمایا۔ قاضی فضل اللہ، محمد ایوب کھوڑو، ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ اس سرزمین سے اٹھے اور پاکستان پر حکمرانی کرتے رہے اور اب آپ ایک کرشماتی شخصیت کے طور پر ابھر رہی ہیں کہ جس میں انتظامی صلاحیت بھی موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ صلاحیت نواب شاہ کی نظامت کے دوران پیدا ہوئی۔ پھر میں نے پارٹی کے کشمیر کے معاملات کو خوش اسلوبی سے انجام دیا اور اب پارٹی کے ٹکٹوں کی تقسیم بھی اُن کے زیرنگرانی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہے تو درست مگر ہماری پارٹی میں تھنک ٹینک ہیں، دوست احباب کے مشورے شامل ہوتے ہیں مگر میرا کہنا تھا کہ فیصلہ تو پھر آپ ہی کا تھا کہ آپ پارٹی کے چیئرمین کی پھوپھی اور پارٹی کے کوچیئرمین کی سب سے چھوٹی بہن ہے۔ جن سے آصف علی زرداری صاحب کو اتنا پیار ہے کہ وہ بچپن میں اسکول جاتے ہوئے آپ کا بستہ بھی خود اٹھا کر چلتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تین بہنیں ہیں جن میں سب سے چھوٹی میں ہوں اور اس وجہ سے سب میرا خیال کرتے ہیں۔
سوال یہ تھا کہ آپ اس قدر خاموش اور مطمئن کیوں ہیں، کیا الیکشن نہیں ہو رہے ہیں یا آپ نے ایسی حکمت عملی وضع کر لی ہے کہ جس سے جیت آپ کا مقدر ہونے جارہی ہے کہ آپ نے عمران خان کو نوازشریف کے پیچھے لگا دیا ہے۔ زیادہ امیدوار کھڑے کر دیئے ہیں کہ پی پی پی اپنے انتخابی نشان کی مناسبت سے تیر کی طرح نکل آئے۔ انہوں نے کہا کہ ہر ایک کو اپنی پالیسی بنانے کا اختیار ہے اور ہم نے ایسی ہی پالیسی بنائی ہے کہ ہم جیت جائیں گے۔ میں نے اُن سے پھر پوچھا کہ کیا واقعی آپ جیت جائیں گے جبکہ آپ کو سندھ میں پیرپگارا کے دس جماعتی اتحاد سے چیلنج کا سامنا ہے اور پنجاب میں آپ کے عمران خان اور میاں نواز شریف مدمقابل ہیں، جہاں پی پی پی نظر نہیں آتی۔ اس شہر لاہور جہاں پی پی پی کے خلاف ایک بات سنی نہیں جاتی تھی وہاں نواز شریف قابض ہیں اور اب وہاں نوازشریف کو عمران خان سے چیلنج کا سامنا ہے مگر پی پی پی اس پوزیشن میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو ہمارے امیدواروں کو بھی نظر میں رکھنا چاہئے کہ کہیں وہی نہ کامیاب ہو جائیں، آپ پی پی پی کے لاہور کے امیدواروں میں سے مسز اعتزاز احسن کو کیونکہ نظرانداز کرسکتے ہیں۔ اسی طرح پارٹی نے بہت مضبوط امیدوار کھڑے کئے ہیں اُن کو کامیابی کی بھی امید ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ آپ کی حکمت عملی تو یہی نظر آتی ہے کہ میاں نواز شریف اور عمران خان اور جماعت اسلامی کے ووٹ کٹیں تو آپ جیتیں۔ پھر ایک جملہ یہ بھی کہا کہ آپ کا جیالا تو میدان میں نظر نہیں آرہا تو انہوں نے کہا کہ آپ نے لاڑکانہ کی پُرجوش خواتین کو نہیں دیکھا۔ جیالے بھی میدان میں نکلیں گے اور اپنی پارٹی کو کامیاب بنائیں گے تو میں نے کہا کہ ٹھٹھہ تو آپ کے ہاتھ سے نکل گیا تو انہوں نے کہا کہ وہاں کچھ کمزوری ضرور نظر آتی ہے مگر ہم جلد اُسے کور کرلیں گے جبکہ پیر پگارا کا اتحاد ہمارے لئے چیلنج نہیں ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے لئے زمین ہموار نہیں۔ طالبان نے پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی کو دھمکی دی ہوئی ہے تو آپ کی راہ میں رکاوٹیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا تو ہے مگر اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔ میں نے کہا کہ آپ نے اپنے دور حکومت میں کراچی کو خون میں نہلائے رکھا تو انہوں نے کہا کہ کراچی ایک بڑا شہر ہے جس میں سب طرح کے لوگ آگئے ہیں۔ اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنا پڑے گا اور سب لوگوں کو مل کر اس مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ میں نے اُن کے منشور کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے دہشت گردی کا مقابلہ کیا ہے۔ ہم نے 35 لاکھ خواتین کو بے نظیر انکم پروگرام کے تحت امداد فراہم کی ہے۔ میں نے کہا کہ ڈالر سو روپے کا ہوگیا ہے تو انہوں نے کہا کہ ہماری فصلیں خوب ہوئی ہیں، زمیندار کو بہت فائدہ ہوگا اور وہ موٹرسائیکل کی جگہ کاروں میں پھریں گے۔ میں نے کہا کہ یہ تو مصنوعی ترقی ہے کہ ہم اپنی حیثیت سے زیادہ سامان تعیش کو اہمیت دیتے ہیں۔ ہماری شرح نمو جس سے ہمارا روپیہ مستحکم ہو وہ تو نہیں ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بہرحال دیہی آبادی کو زراعت سے تو فائدہ پہنچا ہے۔ چھوٹی صنعتیں لگانا پڑیں گی۔ فریال تالپور صاحبہ کو شکایت تھی کہ کراچی والے خصوصاً عام طور پر ہر شہری دیہاتوں کو نہیں سمجھتے۔ میں نے کہا کہ لاڑکانہ میں تو حکمراں پیدا ہوتے ہیں اور لاڑکانہ میں رہ کر حکمرانی کے خواب دیکھنا شروع کرتے ہیں۔ احمد فراز سے معذرت کے ساتھ لاڑکانہ میں حکمران پیدا ہوتے ہیں تو لاڑکانہ میں رہ کر دیکھتے ہیں۔
المختصر پاکستان پیپلزپارٹی اپنی تمام تر خراب کارکردگی، حکومتی بے عملی، اُن کے خلاف قائم محاذ کے باوجود پُرامید ہے کہ وہ انتخابات جیت جائے گی۔ اس کے امکانات تو نظر نہیں آتے ہیں کہ بڑی پارٹیوں کو پی پی پی سے خطرہ محسوس نہیں ہورہا ہے۔ وہ خود بھی کسی سے بھی انتخابی اتحاد نہیں کر رہی ہے اُن کی حکمت عملی یہ ہے کہ جب لوگ اپنے اپنے جیتے ہوئے امیدواروں کے ساتھ ملیں گے تو پھر جوڑتوڑ اور تال میل کا سلسلہ شروع ہوگا۔