قومیں کپاس اور کپڑا بیچنے سے ترقی نہیں کرتیں

October 29, 2020

انصافیا اور ٹائیگر ہونے کے ناتے کپتان کے ہر فرمانِ عالیشان پر سوچے سمجھے بغیر ایمان لانا میری تربیت کا تقاضا ہے، اس لئے چند روز قبل اپنے حلقہ انتخاب میانوالی کے ایک کیڈٹ کالج کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کپتان نے جب یہ کہا کہ قومیں کپاس اور کپڑا بیچنے سے ترقی نہیں کرتیں بلکہ تعلیم کی وجہ سے آگے بڑھتی ہیں تو میں ان کی دوراندیشی اور قائدانہ بصیرت پر عش عش کر اُٹھا۔ اس سے پہلے جب کپتان نے یہ راز کھولا تھا کہ قومیں سڑکیں بنانے سے ترقی نہیں کرتیں تو تب بھی مجھے اپنے قائد کے دیدہ ور ہونے پر ناز ہوا تھا۔ بعض اوقات کپتان کا فرمانِ عالیشان بے ڈھنگا محسوس ہو تو میں اسے اپنی کم عقلی اور کم مائیگی تصور کرتا ہوںاور سوچتا ہوں کہ شاید میں اپنی محدود سوجھ بوجھ کے باعث اس بات کی تہہ میںلپٹی حکمت و دانائی تک پہنچنے سے قاصر ہوں لیکن کپتان کا فرمایا ہوا ہر لفظ مستند ہے، اِس میں کوئی دو رائے نہیں۔ جب سے کپتان نے اس حقیقت سے پردہ اُٹھایا ہے کہ قومیں کپاس اور کپڑا بیچنے سے ترقی نہیں کرتیں بلکہ تعلیم کی وجہ سے آگے بڑھتی ہیں، تب سے پٹواریوںنے میرا جینا حرام کر رکھا ہے۔ ملک دشمن عناصر، مودی کے یار، غدار اور ’’را‘‘کے ایجنٹ مجھے زچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیںدیتے۔ چند روز پہلے ایسے ہی فسادیوں کے ایک گروہ نے مجھے ستانے کے لئے یہی موضوع چھیڑ دیا۔ ایک لفافہ صحافی جو کپتان کی مخالفت میں اُدھار کھائے بیٹھا تھا، کہنے لگا، کپاس اور کپڑا نہیں بیچیں گے تو تعلیم پر خرچ کرنے کے لئے پیسے بھنگ بیچ کر کمائیں گے ؟میں جواب دینے کے لئے پر تول رہا تھا کہ عینک والا ایک نام نہاد دانشور جو شکل سے ہی ’’غدار‘‘محسوس ہو رہا تھا، اس نے اپنی علمیت کا رعب جھاڑنا شروع کردیا۔ کہنے لگا، وہ بنگالی جن کو ہم کام چور اور ہڈ حرام کہا کرتے تھے، انہوں نے اپنے ملک کو ریڈی میڈ گارمنٹس اور ہوزری مصنوعات برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بنا دیا ہے اور ہم آج تک اسی خوش فہمی کا شکار ہیںکہ پاکستان کپاس پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ پہلے تو میں اس کی بات پر کھلکھلا کر ہنسا اور پھر گویا ہوا،ارے او بھائی صاحب!میں یوتھیا ضرور ہوں مگر اتنی بڑی بونگی تو نہ مارو۔ بنگلہ دیش پٹ سن بیچ سکتا ہے، مچھلیاں فروخت کر سکتا ہے مگر ریڈی میڈ گارمنٹس برآمد کرنے والے ممالک کی فہرست میں جگہ کیسے بنا سکتا ہے؟ وہاں تو کپاس کی پیداوا ر ہی بہت کم ہے۔ بظاہر میں نے بہت تگڑا جواب دیا تھا مگر اس عینک والے بذعم خود دانشور نے ایسا جواب دیا کہ میرے پیروں تلے سے زمین ہی سرک گئی۔ کہنے لگا،محترم ! یوتھیا کم یا زیادہ نہیں ہوتا، بس ہوتا ہے۔ اپنی اس دنیا سے باہر نکل کر دیکھوتو تمہیں معلوم ہو کہ زمانہ قیامت کی چال چل چکا ہے۔ بنگلہ دیش میںواقعی کپاس پیدا نہیں ہوتی لیکن ان کے ہاں کپتان جیسا کوئی ارسطو نہیں جو بتا سکے کہ کپاس اور کپڑا بیچنے سے قومیں ترقی نہیں کرتیں ۔ بنگلہ دیش میں کپاس یا روئی کی کھپت کا تخمینہ دیکھا جائے تو مجموعی طور پر جتنی کاٹن درکار ہوتی ہے اس کا صرف 2فیصد مقامی طور پر حاصل ہوتا ہے جبکہ باقی 98فیصد کاٹن درآمد کی جاتی ہے۔ بھلے وقتوں میں پاکستان بنگلہ دیش کو روئی کی گانٹھیں فروخت کرکے چار پیسے کمالیا کرتا تھا مگر اب یہ مارکیٹ بھی ہاتھوں سے نکل رہی ہے۔ چین، بھارت اور یہاں تک کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت قرار دیا جانے والا ملک امریکہ بھی بنگلہ دیش کے ناز نخرے اُٹھانے اور اپنا کوٹہ بڑھانے کی کوشش کرتا دکھائی دیتا ہے۔ بنگلہ دیش کاٹن درآمد کرنے والا اور امریکہ کاٹن برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ چین نے تجارتی جنگ کے دوران امریکہ سے کاٹن کی درآمد پر 25فیصد ڈیوٹی عائد کردی جس سے امریکی کاشتکاروں کے ہاں صفِ ماتم بچھ گئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکن کاٹن شپرز ایسوسی ایشن (ACSA)کے صدر سمیت 8رُکنی وفد بنگلہ دیش بھیجا تاکہ بنگالیوں کو امریکی کاٹن خریدنے پر قائل کیا جا سکے۔ گزشتہ برس بنگلہ دیش کو کپاس کی 8.6ملین گانٹھیں درکار تھیں اور41ممالک سے کپاس درآمد کرکے یہ ضرورت پوری کی گئی۔ بنگلہ دیش نے سب سے زیادہ کپاس بھارت سے درآمد کی جس کا تناسب 25فیصد ہے۔ پاکستان نے بھی بنگلہ دیش کو کاٹن برآمد کی لیکن ظاہر ہے۔ یہ بنگلہ دیش کی مجموعی ضرورت کے تناسب کے اعتبار سے ایک فیصد سے بھی کم رہی۔ بنگلہ دیش گزشتہ 10سال کے دوران دیکھتے ہی دیکھتے چین کے بعد ریڈی میڈ گارمنٹس برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ بنگلہ دیش ریڈی میڈ گارمنٹس کی فروخت سے ہر سال 36ارب ڈالر کما رہا ہے ۔ بنگلہ دیش کو ریڈی میڈ گارمنٹس کی مصنوعات سے جو زرِمبادلہ وصول ہوتا ہے، وہ اس کی مجموعی برآمدات کا 85فیصد ہے اور ہمارے کپتان فرماتے ہیں کہ قوم کپاس اور کپڑا بیچ کر ترقی نہیں کرتی۔

ابھی میں اِن اعدادوشمار کی بوچھاڑسے گھائل تھا کہ ’’را‘‘ کے ایک اور ایجنٹ نے الفاظوں کی بمباری شروع کردی۔ کہنے لگا تعلیم کے شعبہ میں کون ساتیر چلا لیا آپ نے؟ ہائر ایجوکیشن کا بجٹ کم کردیا۔ خیبرپختونخوا کی 15جامعات سمیت 100کے لگ بھگ پبلک یونیورسٹیاں مالی بحران کا شکار ہیں، تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں اور آپ بھاشن دے رہے ہیں کہ قوم کپاس اور کپڑا بیچنے سے ترقی نہیں کرتیں۔