ووٹر۔ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

May 05, 2013

گیارہ مئی میں ایک ہفتہ باقی ہے ۔ طرح طرح کے خطرات اور مصائب میں گھر ے پاکستانیوں کو خود سے بحران در بحران کی کیفیت سے نکلنے کا موقع ملنے کو ہے۔ اس سے توکوئی ہوش مند پاکستانی اختلاف نہیں کر ے گا کہ ہماری شناخت و پہچان پاکستان گزشتہ پانچ سال میں بہت ہی تکلیف دہ حالات سے گزرا ہے ۔ اس گزرے نصف عشرے میں ہمارے مصائب کی فہرست بھی طویل ہوتی گئی اور ان کی نوعیت بھی اذیت ناک ہے ۔ اس صورت حال کے ذمہ دار وہ ہیں جنہیں ہم بحالی جمہوریت کے ساتھ ، ان کے ماضی کو معاف کرتے ہوئے بڑی امیدوں سے ایک بار پھر برسر اقتدار لائے تھے ۔ اقتدار کی اس پانچویں باری میں انہوں نے کون سادکھ ہے جو ہمیں نہیں دیا ، جیسے آٹا ، دالیں ، چینی ، گھی ، سبزیوں اور دودھ و گوشت کی قیمتوں میں مسلسل اور غیر معمولی اضافہ ، پورے ملک خصوصاً کراچی اورخیبر پختونخوا میں امن عامہ کی انتہائی تشویشناک اور بے قابو صورت حال ، لوڈ شیڈنگ کا بڑھتا عذاب اور اس سے پیدا ہو نے والی صنعتوں کی بندش اور بے روز گاری ، ریلوے، پی آئی اے، محکمہ پاسپورٹ کی تباہی، پھر ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں ناقابل برداشت اضافہ ، اعلیٰ تعلیم و تحقیق میں ہونے والی تیز تر پیش رفت کو ریورس گیئر لگنا اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کو سیاست زدہ کر کے اس کے بنتے وقار و اعتبار کو مشکوک بنانا، حج میں بھی اربوں کی کرپشن، بجلی پید اکر نے کے نجی منصوبوں کے نام پر کھربوں کی لوٹ مار۔ حکمران خاندان کاغیر قانونی فروخت سے اربوں کی کالی کمائی کرنا ،اوگرا میں 73ارب روپے کی اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 50ارب روپے کی کھلی کرپشن ، اپنی فصلیں اور فارم ہاؤسز بچانے کے لیے سیلاب کا رخ غرباء کی بستیوں کی طرف موڑنا ، مالی نظام کو تباہ کرنے والی کھربوں کی کرنسی نوٹوں کی چھپائی ، ”جہاں پیسہ وہاں گھپلا“کے لوٹ مار کلچر کا عام ہونا اور نجانے پی پی ،اس کے اتحادی کیسے کیسے چرکے عوام کو لگا کر رخصت ہوئے۔ یہ آج پھر میدان انتخاب میں ہیں اور ان کے امیدوار عوام کے ووٹوں کے زیادہ سے زیادہ ووٹ سمیٹنے کے لیے کوشاں ہیں ۔
گویا پاکستانیوں کو ایک بار پھر موقع ملا چاہتا ہے کہ وہ اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل قریب کا فیصلہ خود کریں ۔ بڑوں کے فیصلے بچوں پر اثر انداز ہو نگے ، وہ متاثر ہو گئے تو ان کے بچے بھی غیر محفوظ رہیں گے ۔ اب تو شناختی کارڈ والے بچوں کو بھی موقع مل رہا ہے کہ وہ پاکستان کی آئندہ شکل صورت سنوارنے یا بگاڑنے ( اللہ نہ کرے ) میں اپنا کردار ادا کریں ۔ ووٹ کے حق کا بہترین حصول اسی طرح ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے حلقے کے امیدواروں کے بارے ممکنہ حد تک جانیں ۔ ان کے ماضی و حال ، طرز زندگی اورلوگوں سے رویے کی جتنی معلومات ہمارے پاس ہونگی ، ہم اتنے ہی بہتر نتائج اپنے ووٹ کے صحیح استعمال سے نکال سکتے ہیں ۔ یہ تو ووٹ سے بہتر سے بہتر نتیجہ حاصل کر نے کی ایک شرط ہے کہ ہم اپنے حلقے کے امیدواروں کے کردار ، اعمال، دیانت ،خلوص ، ذہنی سطح اور اس کی مجموعی شخصیت سے زیادہ سے زیادہ واقف ہوں۔
دوسرے یہ کہ ووٹ دیتے ہوئے ہم اپنے ضمیر کا جگائے رکھیں ۔ برادری، کسی لیڈر سے عقیدت ، علاقے ، نسل و زبان اور چھوٹے چھوٹے ذاتی فائدے یا ان کی امید کو جھٹکتے ہوئے صرف و صرف امیدوار کی اہلیت و قابلیت اور کردار و رویے پر دیں ۔ حلقے کے امیدواروں کا یہ جائزہ لینا اشد ضروری ہے کہ ان کو ان کے قائد یا پارٹی نے ، آپ کی نمائندگی کے حق کے لیے کس بنیاد پر ٹکٹ دیا ہے ۔ فقط دولت کی بنیاد پر (اگر ایسا ہے تو یہ جائزہ لے لیں کہ یہ دولت کیسے آئی ) کہ ”پارٹی چندہ “بھی بہت دے سکتا ہے او ر انتخابی مہم میں پیسہ بھی خوب بہا سکتا ہے ، برادری کی بنیاد پر کہ حلقے میں اس کی برادری بڑی ہے اور ان کے ووٹ اسے مل جائیں گے ۔ ایسا تو نہیں کہ امیدوار کے انتخابی امیدوار بننے کی واحد وجہ یہ بنی کہ وہ پارٹی کے قائد یا کسی اہم رہنما کارشتہ دار ہے یا وہ قائد کی خوشامد میں پیش پیش ہے یا فقط پارٹی کی خدمت کے لیے وقف ۔ کوئی ایسا بھی آپ کا ووٹ نہ لے پائے جو آزمودہ ہے اور آزمائش میں آپ کی توقعات پر پو را نہیں اترا بلکہ جس نے سیاست کو صرف اپنی خوشحالی اور شہرت کا ہی ذریعہ بنایا۔ خدارا اپنا ووٹ دیتے ہوئے یہ ضرور ذہن میں رکھیں کہ جس شخص کو آپ اپنی نمائندگی کے لیے ووٹ دے رہے ہیں ، اس کا اسمبلی میں پہنچ کر ایک ہی کام ہے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود اور ملک کو مستحکم او ر خوش حال بنانے کے لیے قانون بنانے میں اپنا پارلیمانی کردار ادا کرے ۔ آپ نے اندازہ لگا نا ہے کہ اس میں اتنی ذہنی اور ابلاغی سکت ہے کہ وہ اسمبلی میں پہنچ کر اس اہم قومی فریضے کے لیے کوئی کردار ادا کر سکے گا ۔ انتخاب کے نتیجے میں بننے والے منتخب ایوانوں کی جو بھی کوالٹی ہو گی او ر وہ جتنا جیسا ڈلیور کریں گے اس کا تمام تر انحصار اسی پر ہے کہ آپ بطور ووٹر کتنا محتاط ہو کر ، امیدوار کو دیکھ بھال کر اور اپنے ضمیر کی بیداری سے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں ۔ برادری ، زبان، فرقے ، قائد سے عقیدت ، پارٹی کی پسند یا اپنے کسی معمولی فائدے یا اس کی امید پر ووٹ کا استعمال مطلوب معیاری منتخب ایوانوں کی تشکیل میں رکاوٹ بن جائے گا ۔ اس سے پاکستان میں رہا سہا ترقی کا عمل رک جائے گا ، عام لو گ تکالیف سے دوچار رہیں گے ، حکومتیں ڈگمگاتی رہیں گی اور جمہوری عمل بیمار کا بیمار رہے گا ۔ ملک میں دو قوا نین کی عملداری جاری رہے گی۔ بااثر لوگ قانون کے اطلاق سے بالاتر ہونگے اور عام لوگ ہی ضابطے کی پابندیوں میں جکڑے رہیں گے ۔ یہ صورت حال سماجی ناانصافی میں مزید اضا فے کا سبب ہو گی جس سے ملک کی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے ۔ آپ اور آپ کی آنے والی نسل غیر محفوظ ہو جائے گی ، یاد رکھیں کہ یہ جرم آپ کی گرد ن پر آئے گا ۔
جو قارئین کرام حق ووٹ سے متعلق اوپر بیان کی گئی سیدھی سادھی اور بنیای گزارشات کو پہلے ہی بخوبی سمجھتے ہیں، ان کا کردار استحکام پاکستان ، عوام کو تکالیف او ر اذیتوں سے نجات اور سماجی ناانصافی کے خاتمے کے لیے اہم ترین ہے ۔اس طرح کہ وہ اپنے گرد و نواح کے انتخابی تجزیے کی صلاحیت سے محروم سادہ ذہن ووٹرز سے 10مئی تک مسلسل رابطے میں رہیں ۔ انہیں ووٹ ڈالنے کی اہمیت اور انہیں اس کے صحیح استعمال کی متذکرہ مطلوب بنیادوں سے آگاہ کریں ۔
ان پر واضح کیا جائے کہ کون سا امیدوار ان کے ووٹ کا مستحق اور دوسرے کیوں نہیں۔ جن حلقہ ہائے انتخاب میں باشعور اور دوسروں پر اثر انداز ہو نے والے ووٹرز پر غیر مستحق امیدوار کا کوئی انجانا خوف محسوس کرتے ہیں ، وہ مقامی حالات کے مطابق اپنی حکمت عملی خود ہی ترتیب دیں ۔ سب سے بہتر یہ کہ اپنے جیسوں کے ساتھ مل کر مشترکہ کوشش کی جائے ۔ باہمی اتحاد کو بڑھایا اورقائم رکھا جائے۔ جو خواتین و حضرات خصوصاً نوجوان اپنے علاوہ ایک ووٹر کو بھی متاثر کر سکتے ہیں ، خدارا پاکستان کے لیے یہ کردار ادا کریں ملک و قوم کو جاری بحران سے نکالنے میں آپ اہم ترین ہیں۔ آپ کی اسی اہمیت اور اس کے مطابق کردار پر ہی تو مصور پاکستان حضرت علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ، ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ ۔