ٹائی ٹینک کیوں ڈوبتے ہیں؟

November 02, 2020

آر ایم ایس ٹائی ٹینک سے میری جذباتی وابستگی رہی کیونکہ اس نے دس اپریل کو سفر کا آغاز کیا اور یہی میرا جنم دن ہے۔

ٹائی ٹینک دنیا کا سب سے بڑا ہی نہیں پرتعیش، جدید اور بہترین بحری جہاز تھا۔ 53 ہزار ٹن وزنی جہاز جو 882 فٹ طویل اور 90 فٹ بلند تھا، اسے بہترین آلات اور مشینری سے لیس کیا گیا تھا۔

10اپریل 1912ء کو یہ جہاز انگلینڈ سے اپنے پہلے سفر پر روانہ ہوا۔ یہ بحری جہاز، جس کی منزل امریکی شہر نیویارک تھا،بحر اوقیانوس میں کینیڈا سے 370میل کی دوری پر ایک بہت بڑے برفانی تودے سے ٹکرا کرغرق ہوگیا۔

اس حادثے پر جیمز کیمرون نے ”ٹائی ٹینک“کے نام سے فلم بنائی جو 1997ء میں ریلیز ہوئی تو مقبولیت کے سب ریکارڈ ٹوٹ گئے۔اس فلم نے 11آسکر جیتے اور 2ارب ڈالر سے زائد کا بزنس کیا۔2010ء میں جیمز کیمرون کی ہی ایک اور شاہکار فلم Avatar نے ”ٹائی ٹینک“کا ریکارڈ توڑ کر دنیا کی مقبول ترین فلم کا ٹائٹل حاصل کرلیا۔

گویا یہ منفرد اعزاز جیمز کیمرون کو ہی حاصل ہے کہ دنیا کی بہترین فلموں میں سرفہرست دونوں فلمیں اس نے بنائیں۔ویسے تو ’’ٹرمینیٹر‘‘ بھی اس کی بہترین فلموں میں سے ایک ہے مگر آج ہمارا موضوع ”ٹائی ٹینک“ہے۔جہاز کے روانہ ہونے سے پہلے اس کا مالک شیخیاں بگھارتا دکھائی دیتا ہے۔

اخباری نمائندوں کو بریفنگ دیتے ہوئے جب سوال کیا جاتا ہے کہ کیا جہاز میں کسی ہنگامی صورتحال کے پیش نظر معقول تعداد میں کشتیاں موجود ہیں تو جہاز کا مالک ہے کہتا کہ ٹائی ٹینک دنیا کا بہترین جہاز ہے، اسے کوئی حادثہ پیش نہیں آسکتا لیکن ہمارے پاس کشتیاں موجود ہیں۔

ٹائی ٹینک کے روانہ ہونے کے بعد جہاز بنانے والی کمپنی ”وائٹ اسٹارلائن“کا منیجنگ ڈائریکٹر جس کا حقیقی نام بروس اسمے تھا، فلم میں اُس کا کردار اداکار جوناتھن ہائیڈ نے ادا کیا، وہ تمام تر آپریشنل اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور کپتان کی حیثیت محض کٹھ پتلی کی سی رہ جاتی ہے۔

جہاز کا کپتان جس کا اصل نام کیپٹن ایڈورڈ سمتھ ہے،اس کا کردار اداکار برنارڈ ہِل نے نبھایا ہے۔کیپٹن سمتھ برطانوی بحریہ کا افسر ہے،اس کا تجربہ 45برس پر محیط ہے۔یہ اس کا آخری سفر ہے اور وہ دنیا کے سب سے بڑے جہاز کو منزل تک پہنچانے کے بعد ریٹائرمنٹ لینے کا ارادہ ظاہر کر چکا ہے لیکن یہ اس کے کریئر کا ہی نہیں بلکہ زندگی کا آخری سفر ثابت ہوتا ہے۔ کئی بار جہاز کے کپتان اور مالک میں بحث وتکرار ہوتی ہے۔

منیجنگ ڈائریکٹر جسے آپ جہاز کا مالک کہہ سکتے ہیں وہ بار بار جہاز کی رفتار بڑھانے کا کہتا ہے تاکہ ٹائی ٹینک مقررہ وقت سے ایک دن پہلے نیویارک پہنچ کر نیا ریکارڈ قائم کر سکے۔جہاز کے مالک کا خیال ہے کہ پہلے سفر کے دوران ٹائی ٹینک کی استعداد کار کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے،اِس لئے اسے کارکردگی کی بلند ترین سطح تک لے جایا جائے۔

جہاز کا کپتان اس سے اتفاق نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ جب تک میں کپتان ہوں،آپ میرے عملے کو براہ راست کوئی احکامات نہیں دیں گے۔جہاز کا مالک کپتان کی اس بات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیتا ہے اور نیچے بوائلر میں جاکر عملے کو اپنی نگرانی میں کام تیز کرنے کا حکم دیتا ہے۔

کپتان کے ماتحت کام کرنے والے افسروں کو اس کی طرف سے بار بار جہاز کی رفتار بڑھانے کو کہا جاتا ہے۔جب کپتان پوچھتا ہے کہ ہم اس قدر تیزی کیوں دکھا رہے ہیں تو بتایا جاتا ہے کہ یہ بروس کی ہدایت ہے۔

دیگر بحری جہازوں کی طرف سے’’ٹائی ٹینک‘‘ کے عملے کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ آگے برف کے تودوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔مالک کی آپریشنل معاملات میں مداخلت کے باعث جہاز کے عملے کو اندازہ نہیں ہوپاتا کہ وہ ایک بھیانک انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

14اپریل کو مسافر اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ سامنے برف کا پہاڑ کھڑا ہے۔فوراً ہنگامی گھنٹی بجائی جاتی ہے اور جہاز کے عملے کو اس خطرے سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ڈیوٹی پر موجود کپتان کا نائب دوربین سے دیکھتا ہے تو حواس باختہ ہوجاتا ہے کیونکہ صرف ایک کلومیٹر کے فاصلے پر بہت بڑا برفانی پہاڑ نظر آتا ہے۔جب برفافی پہاڑ نظر آتا ہے تب بھی ٹائی ٹینک 41کلومیٹر کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہوتا ہے جبکہ اس کی زیادہ سے زیادہ حد رفتار 44کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔

صورتحال کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ گاڑی کا اسپیڈ ومیٹر اور انجن کی استعداد بتاتی ہے کہ یہ زیادہ سے زیادہ 200کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتارسے دوڑ سکتی ہے،آپ اسے 186کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑا رہے ہیں اور اچانک پتہ چلتا ہے کہ ایک کلومیٹر بعد سڑک پر بہت بڑی چٹان نے راستہ روک رکھا ہے۔یعنی آپ کے پاس بچاؤ کی تدبیر کرنے کے لئے صرف پونے دو منٹ ہیں۔

اگر جہاز کی رفتار کم ہوتی تو بہت آسانی سے اس کا رُخ موڑا جا سکتا تھا لیکن اب اس برفانی پہاڑ سے بچنا مشکل ہی نہیں، تقریباً ناممکن تھا۔جہاز کے عملے نے راستہ بدلنے کی پوری کوشش کی لیکن ٹائی ٹینک برفانی تودے سے ٹکرانے کے کچھ ہی دیر بعد ڈوب گیا۔

ٹائی ٹینک میں کشتیاں کم تھیں اسلئے2200مسافروں میں سے صرف 700زندہ بچنے میں کامیاب ہوسکے۔جہاز کے کپتان سمیت 1500افراد لقمہ اجل بن گئے۔جہاز کے مالک کی بے جا مداخلت کے باعث یہ حادثہ پیش آیا، وہ سب سے پہلے جان بچا کر بھاگ نکلا اور لوگ زندگی بھر اس پر لعن طعن کرتے رہے۔

آج بھی لوگ سوال کرتے ہیں کہ ٹائی ٹینک کیوں ڈوبا؟ ٹائی ٹینک کا کپتان باصلاحیت تھا لیکن مالک کی غیر ضروری مداخلت کی وجہ سے جہاز کو حادثے سے نہ بچا سکا۔ اگر مداخلت اور من مانی کیساتھ ساتھ جہاز کے کپتان کی نااہلی کا مسئلہ بھی درپیش ہو تو حادثے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں مسافروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ حادثے کا انتظار نہ کریں بلکہ جہاز کی رفتار کم کروائیں۔