مفاہمتی شہباز شریف کی آزمائشیں کب ختم ہوں گی؟

November 05, 2020

وطن عزیز کے سیاسی ماحول کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو کشیدگی اور تلخی کی فضا بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے خلاف اس طرح صف آرا کھڑے ہیں جیسے وہ سیاسی حریف نہیں بلکہ دشمن ہیں۔ اپوزیشن اور برسر اقتدار سیاسی پارٹی کے درمیان بڑھتی ہوئی محاذ آرائی میں قومی اداروں کو بھی ’’متنازع‘‘ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی سیاست کا یہ رجحان انتہائی خطرناک تشویش کا باعث بن رہا ہے۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ حکومتی پارٹی اور اپوزیشن کی جماعتیں اپنے اپنے جارحانہ مقاصد کو ایسی منزل کی طرف لے جا رہے ہیں جہاں سے ملک میں انتشار اور بدنظمی کے پھیلنے کا خطرہ واضح طور پر محسوس کیا جا رہا ہے۔

سیاسی بے یقینی کی اس صورتحال نے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری کے ہاتھوں پسے ہوئے مجبور غریب عوام اور متوسط طبقے کی محرومیوں اور پریشانیوں میں مزید اضافہ کر رکھا ہے۔ عوام میں یہ بات شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ پی ڈی ایم کے تینوں بڑے جلسوں اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کے ’’جارحانہ طرزِ تخاطب‘‘ کی وجہ سے حکمران جماعت بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر ہٹ دھرمی کا نہ صرف مظاہرہ کر رہی ہے بلکہ وہ مسلم لیگ (ن) کے بعض رہنمائوں کے بیانات کو قومی مفاد کے منافی قرار دے کر انہیں غداری کے سرٹیفکیٹ بھی جاری کر رہی ہے۔ دونوں فریقین کے جارحانہ سیاسی طرزعمل کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ بھی ملکی تاریخ میں پہلی بار سخت ترین سیاسی تنقید اور سنگین نوعیت کے الزامات کا شکار ہے۔

’’کپتان‘‘ وفاقی کابینہ کے ارکان کو عوامی مسائل کی طرف توجہ مبذول کروانے کی بجائے انہیں اپوزیشن کو بھرپور انداز میں ’’ٹارگٹ‘‘ کرنے کے ’’خصوصی ٹاسک‘‘ کے بارے میں ہدایات دینے میں مصروف رہتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں وفاقی وزراء اور افسر شاہی کے ارکان ایک دوسرے پر الزامات ہی لگاتے رہتے ہیں اور وزیر اعظم کو بیشتر وزراء ہر لمحہ یہی باور کراتے رہتے ہیں کہ بیورو کریسی ہی ہماری حکومت کے فلاحی ایجنڈے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

پرائم منسٹر سیکرٹریٹ میں حکومتی ترجمانوں کے ہونے والے روزانہ کے اجلاسوں میں صرف ان مشیروں اور معاونین خصوصی کو سراہا جاتا ہے جو ٹی وی پروگراموں میں جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے اپوزیشن کے راہنمائوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ سیاسی حلقوں میں وزارتِ داخلہ کے بارے میں بھی یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ ’’احتساب اکبر‘‘ ہی تمام ذیلی اداروں کے سربراہوں کو اپنی ’’خصوصی ہدایات‘‘ سے نوازتے ہیں جبکہ وفاقی وزیر کبھی کبھی ’’متنازع بیانات‘‘ کے سہارے اپنی اہمیت کا احساس دلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں حالانکہ نجی محفلوں میں وہ اپنے دوستوں کو واشگاف طور پر اپنی بے بسی اور بے اختیاری کے بارے میں بتاتے رہتے ہیں۔

وفاقی دارالحکومت کے ایک اعلیٰ انتظامی افسر کے ’’طاقتور‘‘ہونے کے بارے میں بیشتر اعلیٰ بیورو کریٹوں کا کہنا ہے کہ وہ پرائم منسٹر سیکرٹریٹ کا اس قدر ’’لاڈلا اور چہیتا‘‘ ہے کہ اس کو کوئی بھی نہیں پوچھ سکتا۔ صوبائی دارالحکومت بھی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ گو حکومت پنجاب نے ’’اورنج لائن ٹرین‘‘کے مثالی منصوبے کا آغاز کر دیا ہے لیکن اسی روز مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں اس انقلابی فلاحی منصوبے کا ’’کریڈٹ‘‘ میاں شہباز شریف کو دیا گیا اور عوام نے بھی اس منصوبے کے بارے میں کھلے دل سے اعتراف کیا ہے کہ میاں شہباز شریف نے میٹرو بس کے بعد اورنج ٹرین منصوبے کی تکمیل کی خاطر جن مراحل کو طے کیا تھا وہ انتہائی دشوار گزار تھے۔

حکومت پنجاب کے ایک صوبائی وزیر نے ’’شریف برادران‘‘ کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کی اور اس سلسلہ میں یہ تھیوری پیش کی کہ مریم نواز کے بعض فیصلوں کی وجہ سے میاں شہباز شریف سخت نالاں ہیں جبکہ سب کو علم ہے کہ ’’مفاہمتی سیاست‘‘ کا مزاج رکھنے کے باوجود میاں شہباز شریف ہر مرحلہ پر اپنے بڑے بھائی کو اپنا قائد تسلیم کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ جس اولو العزمی اور بہادری سے میاں حمزہ شہباز شریف اور میاں شہباز شریف اور ان کا سارا خاندان اس آزمائش کو برداشت کر رہا ہے۔

اس سے یہ بات واضح ہے کہ وہ بڑے سے بڑے عہدہ کے مقابلہ میں اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف کے ہر حکم پر عمل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ حکومت میں شامل ناعاقبت اندیشوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہونی چاہئے کہ مشرف نے بھی انہیں وزیر اعظم بنانے کی کوشش کی تھی اور کئی دفعہ ان کو بھائی سے جدا ہونے کی صورت میں بڑے بڑے عہدوں کی پیشکش کی گئی جو انہوں نے آنِ واحد میں ٹھکرا دی۔ حکومت پنجاب مہنگائی کو روکنے کے سلسلہ میں جو اقدامات کر رہی ہے اس میں ابھی تک اشیائے ضروریات کی قیمتوں میں کوئی کمی نہیں آ سکی۔ عوام اس بات کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں کہ حکومت اس سلسلہ میں اب کیا فلاحی اقدامات کرتی ہے؟