سیاست کے عروج و زوال

May 07, 2013

حالات کی ستم ظریفی اور سیاست کی مجبوری ملاحظہ فرمائیے کہ پی پی پی جیسی پرانی اور سخت جان سیاسی پارٹی کھڈے لائن لگ گئی ہے ۔ میں 1970ء سے لیکر اب تک تمام انتخابات اور جلسے جلوسوں کا عینی شاہد ہوں ۔سچ یہ ہے کہ ہمیشہ انتخابی سرگرمیوں، جلسوں، جلوسوں اور نعرہ بازی کی جان پی پی پی ہوا کرتی تھی اور اسکے جیالے نہ صرف سیاسی زندگی کی حرکت تیز تر کر دیتے تھے بلکہ اپنے جوش وخروش سے انتخابی فضا کو بھی گرما دیتے تھے ۔ کس قدر مقام افسوس ہے کہ نصف صدی تک انتخابی میدان پر چھائی رہنے والی پارٹی آج بظاہر اکھاڑے میں موجود ہی نہیں اور اس کا ”اصلی“ چیئرمین ایوان صدر میں بیٹھا چالیں سوچ رہا ہے ۔ بلاشبہ پی پی پی کا اپنا ووٹ بنک ہے جو اب بھی اس کے امیدواروں کو ملے گا لیکن تاریخی طور پر یہ ووٹ بنک بہت سے عوامل کے سبب گھٹتا بڑھتا رہا ہے ۔جب پارٹی اور اسکی قیادت میدان میں موجود ہو اور جلسے جلوسوں کے ذریعے لوگوں کو گرما رہی ہو تو ووٹ بنک بڑھ جاتا ہے ۔ اور جب پارٹی قیادت معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرکے کھڈے لائن لگ جائے تو ووٹ بنک کم ہو جاتا ہے ۔ میرے سامنے 1988اور 1990ء کے انتخابات کی مثالیں موجود ہیں ۔1988ء میں پی پی پی کی جارحانہ انتخابی مہم اور ہمدردی کی لہر نے اسے تمام تر سازشوں اور رکاوٹوں کے باوجود کامیابی سے ہمکنار کیا لیکن 1990ء میں کرپشن کے الزامات کے سبب پی پی پی کی قیادت کو دفاعی حکمت عملی اختیار کرنی پڑی تو وہ اپوزیشن میں چلی گئی۔اب پی پی پی نے حکمت عملی کے تحت انتخابی میدان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے لئے کھلا چھوڑ دیا ہے ۔ حکمت عملی شاید یہ تھی کہ تحریک انصاف مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بنک تقسیم کرے گی جس کا فائدہ پی پی پی کو ہو گا ۔ میں اس سے قبل کئی بار لکھ چکا ہوں کہ یہ مفروضہ بے بنیاد ہے کیونکہ تحریک انصاف مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی دونوں کے ووٹ بنک پر چھاپہ مارے گی اور تحریک انصاف کو سب سے زیادہ فائدہ نئے ووٹروں کا ہو گا جن کی تعداد چار کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ بلاشبہ نوجوان ووٹر اپنے اپنے ذہنی پس منظر کے حوالے سے تقسیم ہو چکے ہیں لیکن ان کی زیادہ تعداد آج بھی عمران خان کے ساتھ ہے ۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پی پی پی کا ”اصلی قائد “ ایوان صدر میں بیٹھا اپنا نقشہ بنا رہا ہے اور دوسری بار منتخب ہونے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے ۔لیکن میرے اندازے کے مطابق اس بار انتخابات پرانے اندازوں کو الٹ پلٹ دیں گے اور خاص حد تک انتخابی نتائج عام توقعات سے مختلف ہوں گے۔
سیاست سخت جان کھیل ہے ۔ طالبان کے خوف سے بلاول اور صدر زرداری صاحب اپنے اپنے ایوانوں تک محدود ہو چکے ہیں ۔ پی پی پی کے امیدواران اپنے اپنے حلقوں میں انفرادی مہم چلا رہے ہیں اور انہیں قیادت کی پیدا کردہ لہر کی حمایت حاصل نہیں ۔ اس لئے اس بار نہ پی پی پی بہتر کارکردگی کامظاہرہ کر سکے گی اور نہ ہی بڑی پارٹی کی حیثیت سے ابھر سکے گی ۔ سیاست کی اسی ” سخت جانی “ کا نتیجہ تھا کہ میاں نواز شریف کے صاحبزادے سیاست سے تائب ہو چکے ہیں ۔ انہیں پرویز مشرف کے ایک ہی جھٹکے نے کوچہ سیاست سے نکلنے پر مجبور کر دیا حالانکہ حسین نواز تو لاہور میں اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کر چکا تھا اور 1997ء کے بعد ہونے والے اگلے انتخابات میں امیدوار بھی تھا ۔ کچھ ایسا ہی حادثہ پی پی پی کے ساتھ ہوا کے ضیاء الحق کے مارشل لاء نے بھٹو صاحب کے دونوں فرزندوں کو ملک میں آنے نہ دیا ۔ بے نظیر بھٹو اور ان کی والدہ جرات و حوصلے سے مصائب کا مقابلہ کرتی رہیں چنانچہ پارٹی قیادت ان کے حصے میں آ گئی ۔ اب حسین نواز کے خلاء کو مریم بیٹی پر کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اسکی سیاسی تربیت جاری ہے ۔ کہیں اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہماری خواتین مردوں سے زیادہ سخت جان ہیں اور جہاں نوجوان سیاست کی سختی سے گھبرا کر کنارہ کش ہو جاتے ہیں وہاں خواتین آگے بڑھ کر جھنڈا تھام لیتی ہیں ؟
بات دور نکل گئی ۔میں کہہ رہا تھا کہ جس پی پی پی کو جنرل ضیاء الحق کے کوڑے، قلعے اور سختیاں اور پرویز مشرف کی پابندیاں اور قیدوبند سیاسی میدان سے نہ نکال سکیں ، وہ پی پی پی آج طالبان کے خوف سے چار دیواری کے اندر سہمی بیٹھی ہے ۔ظاہر ہے کہ زندگی عزیز ترین متاع اور سب سے زیادہ پیاری شے ہوتی ہے ۔ بے نظیر کی بے وقت موت نے پی پی پی کے لئے خوف اور دھمکیوں کو حقیقت میں بدل دیا ہے اور اب پی پی پی کی قیادت کی ساری توجہ جوڑ توڑ پر ہے جس کے ذریعے وہ زیادہ سے زیادہ فائدے اٹھانے کی کوششیں کریگی۔میرے نزدیک یہ الیکشن گزشتہ الیکشنوں سے مختلف ہے اس لئے میں اس کا موازنہ نہیں کرتا۔ اس بار لیفٹ اور رائٹ یعنی دائیں اور بائیں بازو کی سیاست اور روایتی محاذ آرائی وقت کے دریا میں بہہ گئی ہے چنانچہ انتخابات سے نظریاتی تقسیم یا محاذ آرائی کا پہلو تقریباً غائب ہو چکا ہے ۔ مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف، مسلم لیگ (ق) جماعت اسلامی بنیادی طور پر دائیں بازو کی جماعتیں ہیں جبکہ پی پی پی اور اے این پی لیفٹ کی نمائندگی کرتی ہیں متحدہ بین بین ہے اور وقت اور ضرورت کے سانچے میں ڈھلنے کا فن جانتی ہے ۔ چنانچہ بائیں بازو کی جماعتوں کی محدود سرگرمیوں کے سبب انتخابی میدان پر دائیں بازو کی جماعتوں کی اجارہ داری ہے ۔ میرے نزدیک اے این پی اور متحدہ قومی موومنٹ شاباش کی مستحق ہیں جو بے پناہ خطرات اور جانی قربانیوں کے باوجود انتخابی میدان میں ڈٹی ہوئی ہیں ۔ اس صورتحال کے سبب انتخابی عمل کمزور رہے گا اور اگر حالات مزید خراب ہوئے تو یہ امکان موجود ہے کہ کچھ حضرات انتخابات کا بائیکاٹ کردیں یا پھر انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیں ۔ آنے والے جمہوری دور کیلئے یہ برا شگون ہو گا اور ایجی ٹیشن کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
آج کی صورتحال کے مطابق ملکی سطح پر جو پارٹیاں متحرک ہیں اور جلسے کرکے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کر رہی ہیں ان میں مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نمایاں ہیں ۔ گزشتہ انتخابات میں ہمدردی کی لہر پی پی پی کے ساتھ تھی ۔پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے الحاق اور چارٹر آف ڈیموکریسی نے مسلم لیگ (ن) کو بھی فائدہ پہنچایا تھا ۔ اس بار انتخابی مہم کے آغاز میں یہ لہر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ تھی ۔ دوسری طرف تحریک انصاف نے لاہور اکتوبر جلسہ عام کے عروج کو چھو کر کچھ اس طرح کی غلطیاں کیں کہ وہ بلندیوں سے نیچے لڑھکنے لگی تھی لیکن گزشتہ چند روز کی سیاسی پیش رفت اور انتخابی سرگرمیاں واضح اشارے دے رہی ہیں کہ تحریک انصاف ایک بار پھر بلندیوں کی جانب محو سفر ہے ۔ عمران خان نے دن میں کئی کئی جلسے کرکے اپنی انتخابی مہم میں تازہ روح پھونک دی ہے ، اس کا نوجوان دستہ حرکت میں آ چکا ہے اور خود چندے اکٹھے کرکے نئے ولولے کے ساتھ میدان میں اتر چکا ہے ۔ انہوں نے ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنوں تک لیجانے کی منصوبہ بندی بھی کر لی ہے ۔ اگرچہ کئی دیہاتی علاقوں میں مسلم لیگ (ن) کے پرانے کھلاڑیوں اور روایتی سیاست دانوں کو تحریک انصاف کے نئے چہروں پر سبقت حاصل ہے لیکن اکثر شہری حلقوں میں تحریک انصاف جھنڈے گاڑ رہی ہے اور اس حوالے سے گیارہ مئی کے انتخابات بہت سی حیرتیں اور بہت سی سیاسی کرامات ظاہر کرینگے۔ پنجاب میں بھی دہشت گردی کا خطرہ موجود ہے اگر یہ خطرہ حقیقت بن گیا تو انتخابی نتائج اندازوں کے برعکس ہونگے فی الحال تھوڑا لکھے کو بہت سمجھیں۔