چند سیپیاں سمندروں سے (سفر نامہ)

November 22, 2020

مصنّفہ: پروین شیر

ترتیب،پیشکش و اہتمام:راشد اشرف

صفحات: 232 ،قیمت: 200 روپے

ناشر: فضلی بُک سُپر مارکیٹ، کراچی۔

سفر بنیادی طور پر تلاش اور جستجو ہے۔یہ تلاش اور جستجو زمانہِ حال میں کی جاتی ہے، مگر اس کے ڈانڈے ماضی سے ملتے ہیں اور کسی مستقبل کا پتا بتاتے ہیں۔ سفر کا تعلق ہاتھوں سے نہیں، بلکہ پیروں سے ہے ۔ سخن وری کے بے تاج باشاہ، مرزا غالبؔ نے نئی دُنیاؤں کی دریافت کچھ اس پیرائے میں کی تھی؎’’ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یارب …ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا‘‘۔ یوں تو سفر میں بنیادی طور پر گفتگو بیرون کی ہوتی ہے۔ انسان جو مناظر بھی دیکھتا ہے، اُنہیں اپنے رنگِ تحریر میں بیان کر دیتا ہے۔ تاہم، کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو ظاہر سے زیادہ باطن اور بیرون سے زیادہ اندرون میں دِل چسپی رکھتے ہیں۔

کئی کتابوں کی مصنّفہ، موسیقی سے شغف رکھنے والی شاعرہ، پروین شیر نے زیرِنظر سفر نامے’’چند سیپیاں سمندروں سے‘‘ میں اپنے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ’’مَیں کیوں لکھتی ہوں؟‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا ہے،’’دُنیائے بیروں میرے لیے دُنیائے دروں تخلیق کرتی ہے۔‘‘جنوبی افریقا اور لاطینی امریکا کے سفر میں اُن کی چشمِ بینا نے صرف ظاہری مناظر ہی تک رسائی حاصل نہیں کی،بلکہ وہ وہاں بسنے والے افراد کی وساطت سے تاریخ،تہذیب، ادب اور سماج کی تصاویر بھی اتارتی رہیں۔

یہی نہیں،جب اُنہیں کسی منظر نامے نے بے چین کیا، تو اُن کے اندر کی تخلیق کارایک شاعرانہ تخلیق کے ذریعے اپنے احساس کو اظہار کا روپ بھی عطا کرتی نظر آئی اور شاید یہی اس سفر نامے کی انفرادیت بھی ہے۔ کتاب نفاست سے شایع ہونے کے ساتھ قیمت اتنی کم ہے کہ آسانی سے خریدی جا سکتی ہے۔