بحرانوں میں گھرا پاکستان اور تاویل کے پھندے!

May 09, 2013

اللہ تعالیٰ خان صاحب کو صحت دے اور وہ پھر سے اپنی مخصوص آب و تاب کے ساتھ میدان میں ہوں ۔ انتخابی مہم تو یوں بھی ختم ہوگئی۔ انہوں نے انقلاب اور تبدیلی کا جو پیغام دینا تھا، دیا جاچکا۔ اب گیارہ مئی کا سورج تاریخ کے افق سے لگا کھڑا ہے۔ 12مئی کو پاکستان کی تاریخ کا نوشتہ سامنے آجائے
گا۔ انتخابی مہم کی جولاں گاہ سے دور، فراغت کے ان لمحات میں خان صاحب کو ضرور سوچنا چاہئے کہ ہماری تہذیبی روایات اور اخلاقی اقدار کتنی اجلی ہیں جو ایسے مواقع پر انگڑائی لے کر پیدا ہوجاتی ہیں۔ ان کے افسوسناک حادثے پر کسی استثنیٰ کے بغیر تمام سیاسی حلقوں بالخصوص ”اوئے نوازشریف“ کا رد عمل خان صاحب کے لئے ضرور سامان فکر ہونا چاہئے۔ الحمدللہ کہ ہماری یہ دینی، تہذیبی اور اخلاقی اقدار کسی سونامی کی زد میں آ کر انقلاب اور تبدیلی کا لقمہ نہیں بنیں۔
فیصلہ کن معرکہ پنجاب میں لڑا جانا ہے۔ علامہ اقبال کی صرف تین اشعار پر مشتمل ایک مختصر سی نظم کا عنوان ہے ”پنجابی مسلمان“ اس نظم کا آخری شعر ہے
تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے
یہ شاخِ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد
بلاشبہ پنجاب کی سرزمین ظاہری اور حقیقی معنی و مفہوم سے ہٹ کر مرضی کے معانی کشید کرنے والے نعرہ بازوں اور کرتب کاروں کے لئے بڑی زرخیز رہی ہے۔ علامہ درست کہتے ہیں کہ اس نوع کی کرتب کاری کرنے والا شکاری جب بھی پھندا لگاتا ہے تو سادہ دل پنجابی شاخِ نشیمن سے اتر کر بصد خوشی دام میں آجاتا ہے۔ علامہ کو یہ بات کئے کوئی ایک صدی ہوچکی ہے۔ لگتا ہے کہ ماہ وسال کی گردش کے دوران اہل پنجاب نے بھی بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ شاید اب وہ اس قدر آسانی کے ساتھ کسی پھندے میں آنے پہ آمادہ نہ ہوں۔
پنجاب اور باقی ماندہ پاکستان کے عوام کو اگر احساس ہے کہ وطن عزیز کن گمبھیر مسائل سے دوچار ہے اوراگر وہ جانتے ہیں کہ ان مسائل کی حدت اور شدت پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لئے بڑا چیلنج بن چکی ہے تو وہ یقیناً سوچ سمجھ کر کسی فیصلے پر پہنچیں گے اور اگر اقبال کی بات آج بھی سچ نکلی اور تاویل کا کوئی پھندا اتنا کام دکھا گیا تو نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا۔
پاکستان کو درپیش مسائل کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ توانائی کا بحران آخری حدوں کو چھورہا ہے۔ بجلی ناپید، گیس ناپید، ہر سو اندھیرے اور چہار جانب مایوسی۔ توانائی کے اس بحران نے بڑے بڑے کارخانوں اور فیکٹریوں ہی کی رگ جاں نہیں دبوچ رکھی، چھوٹی چھوٹی دکانوں میں بیٹھے کاروباری لوگوں اور درزی، موچی، نائی کا کام کرنے والے افراد کو بھی نڈھال کر رکھا ہے۔ ہزاروں فیکٹریاں اور کارخانے بند ہوچکے ہیں اور لاکھوں محنت کش بے روزگار۔ جہاں جس کے سینگ سمائے، اپنا سرمایہ لے کر وہاں چلا گیا۔ باہر کے سرمایہ کاروں کے لئے پاکستان ڈراؤنا خواب بن گیا۔ معیشت کی شرح نمو (GDP) تین فی صد سے بھی نیچے گرچکی ہے۔ 2008ء میں قرضوں کا بوجھ6691/ارب روپے تھا۔ پیپلز پارٹی دور میں یہ دگنے سے بھی بڑھ گیا۔ آج یہ حجم 15000/ارب روپے ہو چکا ہے۔ کوئی بتانے کے لئے تیار نہیں کہ وفاقی حکومت نے آٹھ ہزار ارب روپے سے زائد یہ قرضے کہاں خرچ کئے؟ زرمبادلہ کے ذخائر صرف گیارہ ارب ڈالر تک آگئے ہیں۔ بھارت کے ذخائر تین سو ارب ڈالر ہیں۔ بنگلہ دیش بھی اپنی محفوظ تجوری میں 15/ارب ڈالر رکھتا ہے۔ قرضوں اور پیداوار کا تناسب 70فی صد کو چھونے لگا ہے۔ تمام عالمی ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں یہ شرح بہرحال 60 فیصد سے کم رہنی چاہئے۔ نئی حکومت کو اقتدار سنبھالتے ہی نہ صرف بجٹ دینا ہے بلکہ پہاڑ جیسے قرضوں کی قسطیں بھی ادا کرنی ہیں۔
بے روزگاری مہنگائی اور غربت کے عذاب اسی اقتصادی بحران سے جڑے ہیں پھر دہشت گردی کا ناسور ہے۔ کراچی کی قتل و غارت گری ہے، بلوچستان کا الاؤ ہے، رگ و پے میں دھنس جانے والا امریکی اثر و رسوخ ہے۔ نام نہاد وارآن ٹیرر کا وہ فیصلہ کن مرحلہ ہے جب امریکہ نے افغانستان سے جانا ہے۔ نئے صوبوں کے قیام کی وہ لہر ہے جسے پیپلزپارٹی کے سیاسی مقاصد کے لئے ہوا دی اور سب سے بڑھ کر وہ اذیت ناک عالمی تنہائی جس سے پاکستان دوچار ہے۔
ووٹ کی پرچی پر مہر لگانے سے پہلے سوچنا ہوگا کہ ہمارے سامنے کون سے آپشنز موجود ہیں۔ کیا انقلاب اور تبدیلی کا نعرہ لگانے والی تحریک انصاف؟ کیا پندرہ برس پاکستان پر حکمرانی کرنے والی پیپلزپارٹی؟ کیا اپنے نامہٴ اعمال کو سندِ افتخار بنانے والی پاکستان مسلم لیگ (ن)؟ جماعتیں اور بھی ہیں لیکن یا تو ان کا حلقہٴ اثر انتہائی محدود اور علاقائی نوعیت کا ہے یا پھر وہ قومی تشخص رکھنے اور چاروں صوبوں میں موجود ہونے کے باوجود قابل ذکر کامیابی کی سکت نہیں رکھتیں۔
ہوشمند پاکستانی کے طور پر ہمیں کچھ پیمانے وضع کرنا ہوں گے۔ پہلا یہ کہ مدتوں سے سیاسی میدان میں موجود دو جماعتوں، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا ریکارڈ کیا ہے؟ پی پی پی کے اقتدار کو پندرہ سال مکمل ہو گئے۔ اگر زرداری صاحب کی صدارت کو شمار کیا جائے تو یہ اس کے اقتدار کا سولہواں سال ہے۔ وہ پہلی جماعت ہے جسے کسی خلل اندازی کے بغیر پانچ سال کا عہد اقتدار پورا کرنے کا موقع ملا۔ آج کا پاکستان اس کے دست ہنر مند کی تصویر پیش کررہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو مجموعی طور پر (دو ادوار) میں پانچ سال کا اقتدار ملا۔ وہ اپنے کارناموں کی لمبی فہرست گنواتی ہے۔ ٹیلی کمیونی کیشن سسٹم میں انقلاب، فائبر آپٹک سسٹم، غازی بروتھا ڈیم کا سنگ بنیاد، چین کی مدد سے چشمہ پاور پلانٹ، جنوبی ایشیاء میں پہلی موٹروے، پشاور سے کراچی تک سڑک کو ڈبل ٹریک میں بدلنا، گوادر بندرگاہ منصوبہ، گوادر سے کراچی تک کوسٹل ہائی وے، کراچی اور لاہور میں جدید ہوائی اڈوں کی تعمیر، خسارے میں جاتے بینکوں کی شفاف نج کاری جو آج اربوں کا منافع دے رہے ہیں، 1991ء میں پانی کی تقسیم کا معاہدہ جس سے نصف صدی پر محیط تنازع کا خاتمہ ہوا، سترہ برس بعد این ایف سی ایوارڈ، تعلیم، صحت اور سماجی شعبوں کے بجٹ میں دو گنا اضافہ، ہاریوں میں زمینوں کی تقسیم،1997ء میں کسانوں کے لئے انقلابی زرعی پیکیج، آزاد معاشی پالیسی کے تحت فارن ایکسچینج کی نقل و حمل پر پابندی کا خاتمہ، بینکنگ سسٹم کی اصلاحات، آئی ٹی سیکٹر میں انقلاب، چونگی مافیا کا خاتمہ، ریڈیو لائسنس کا خاتمہ، نادرا کا قیام، بیواؤں کے قرضوں کی معافی، اٹھارہ سال بعد مردم شماری، یلو کیب اسکیم، اپنا گھر منصوبہ، ایٹمی دھماکے اور متعدد دوسرے اقدامات، اس کا انکار کوئی نہیں کرسکتا کہ گزشتہ پانچ برس میں صوبہ پنجاب کی کارکردگی، وفاق اور باقی تینوں صوبوں سے بدرجہا بہتر رہی ۔ شہباز شریف نے پانچ سال کے دوران ایک بھی نئی گاڑی نہ خریدی، صوابدیدی فنڈ سے ایک بھی پیسہ خرچ نہ کیا، تمام بیرونی دورے اپنی جیب سے ٹکٹ لے کر کئے۔ باہر کا قیام بھی اپنے خرچ پہ کیا، وہ دھڑلے سے کہتا ہے کہ کوئی ایک پائی کی کرپشن ثابت کردے تو ہر سزا کے لئے تیار ہوں۔ تعمیر و ترقی کے علاوہ ڈینگی کی موذی وبا کے خاتمے کے لئے اس کی کاوشوں کو عالمی ماہرین حیرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کہتی ہے کہ اس کے پاس ٹیم بھی ہے۔ مسائل کا ادراک بھی، تجربہ بھی اور عزم بھی۔
تیسرا متبادل عمران خان کی پی ٹی آئی ہے اگر خان صاحب کوئی مثبت تعمیری پُرعزم اور دوسروں سے ہٹ کر قابل عمل پروگرام پیش کرتے تو قوم کو خوشی ہوتی، دعوؤں اور نعروں سے ہٹ کر ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ دوسری جماعتوں کا اگلا ہوا خاصا خس و خاشاک ان کے پاس جمع ہے۔ وہ روایتی سیاست کی غلاضتوں میں گلے گلے تک دھنسے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی سمیت کسی جماعت کے ہاں ٹکٹوں کے ایسے نیلام گھر نہیں لگے جو پی ٹی آئی نے لگائے۔ کروڑوں میں ٹکٹ خریدنے والے کون سا انقلاب لائیں گے؟ ایک طرف قومی سلامتی کی فصیلوں کو ہلاتے بحران ہیں اور دوسری طرف ناپختہ کار طفلانہ نعرے، قرض نہیں لوں گا، ڈرون مار گراؤں گا، زرداری سے حلف نہیں لوں گا، 500 مگرمچھوں کی فہرست تیار ہے۔ ایک اہم پہلو یہ ہے کہ خان صاحب کے پاس سینیٹ میں ایک بھی رکن نہیں اور وہ ایک ادنیٰ سا قانون بنانے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔
عوام کے لئے فیصلہ مشکل نہیں ہونا چاہئے لیکن تاویل کے پھندوں والے صیاد بھی بڑے کرتب کار ہیں۔ پی ٹی آئی کا حکومت بنانا تو خارج از امکان ہے۔ کیا پیپلزپارٹی واقعی پی ٹی آئی کے ذریعے مسلم لیگ (ن) پر ضرب لگا کر پانچویں بار حکومت بنالے گی؟ کیا مسلم لیگ (ن) ٹھیک کہتی ہے کہ مہر سائیکل پر لگاؤ یا بلّے پر، یہ ووٹ زرداری صاحب کے حق میں ہی گنا جائے گا؟