دنیا کے بڑے جنازے؟

November 26, 2020

ہمارے سوشل میڈیا پر اِن دنوں بڑے بڑے جنازوں کے حوالے سے بحثیں چل رہی ہیں۔ امام احمد بن حنبلؒ کے حوالے سے بیان کیا جا رہا ہے کہ’’ ہمارے حق پر ہونے کے فیصلے ہمارے جنازے کریں گے‘‘۔

امام صاحب نے جن مخصوص حالات کے تناظر میں یہ بات کہی تھی ہم اُس کی بحث میں نہیں جانا چاہتے مگر تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ ضرور عرض کئے دیتے ہیں کہ چھوٹے یا بڑے جنازے کو معیارِ حق نہیں بنایا جا سکتا۔

یہاں بڑی بڑی عظیم الشان ہستیاں ہو گزری ہیں جن کے جنازوں میں شرکاء کی تعداد گنتی کے چند افراد سے زیادہ نہ تھی۔

اُن برگزیدہ ہستیوں کے نام گنوائے جائیں تو لوگوں کو یقین نہیں آئے گا جبکہ اُن کے برعکس ایسے افراد کی اَن گنت مثالیں موجود ہیں جنہوں نے سماج میں منافرتوں کے بیج بوئے اور جوڑ کے بجائے توڑ کا کام کیا یا شدت پسندی کو فروغ دیا مگر پیروکاروں کی تعداد کے حوالے سے وہ جس طرح زندگی میں چھائے رہے۔

اِس طرح مرنے کے بعد اُن کے جنازوں کے شرکابھی لاکھوں میں رہے۔ درویش کو یہ سچائی تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ہمارا سماج بنیادی طور پر جنگجو، بہادر، جارح اور جہادی نہ صرف صدیوں سے چلا آ رہا ہے بلکہ آج بھی اسی سوچ کے زیر اثر آگے بڑھ رہا ہے۔

تاریخی طور پر ہمارے ہیروز بھی بالعموم سائنسدان، فلسفی یا دانشور نہیں بلکہ عسکریت پسند، جہادی، جنگجو یا فاتحین ہی رہے ہیں اور آج بھی ہمارے روایتی مسلم سماج میں عمومی پذیرائی اُن لوگوں کو ملتی ہے جو عاجزی یا صلح جوئی کی بجائے کافروں کے سینوں پر مونگ دلنے کی سوچ کے حامل ہوتے ہیں جو اقوامِ غیر کے ساتھ صلح جوئی یا جوڑ کی بجائے منافرت اور توڑ بلکہ بٹوارے کی بات کرتے ہیں، جو دیوانے عشق و مستی میں گردنیں تن سے جدا کرتے ہیں یا جدا کرنے کے نعرے لگاتے ہیں۔

دیانتداری سے اگر حقائق کو تسلیم کیا جائے تو مملکت پاکستان کی سات دہائیوں پر محیط تاریخ میں سب سے بڑا ریکارڈ توڑ جنازہ ممتاز قادری کا تھا جس نے توہینِ مذہب کے نام پر ایک گورنر کو قتل کیا تھا اور آج اُس کا ریکارڈ ’’نگاہ عشق و مستی‘‘ رکھنے والے اسی فکر و سوچ کے حامل ایک ایسے مذہبی آدمی نے توڑا ہے۔

مولانا خادم رضوی کے مخالف جو مرضی کہیں پاکستان کے مذہبی لوگوں کی اکثریت نے مولانا کے حق میں لبیک کہا ہے۔

مملکت پاکستان میں اہل فکر و دانش کو تدبر کے ساتھ یہ غور ضرور کرنا چاہئے کہ یہاں وقت کے ساتھ عدم تحمل کو جو بڑھاوا ملا ہے، اُس کی وجوہ یا بنیادیں کیا ہیں؟ آج پوری مہذب دنیا میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ کسی کو محض اُس کے عقیدے کی وجہ سے مارا جا سکتا ہے نہ نفرت و حقارت سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایسا کوئی بھی نظریہ انسانیت کی مسلمہ بنیادی اقدار کے خلاف ہے جس کا نتیجہ سوائے انسانی سماج کی بربادی کے اور کچھ نہیں نکل سکتا۔

غضب خدا کا ایک پندرہ سال کا بچہ کسی اقلیتی فرقے والے کے گھر کی بیرونی گھنٹی بجاتا ہے اور دروازہ کھلنے پر سامنے نمودار ہونے والے 35سالہ ڈاکٹر کے سر میں گولی مار کر اُسے موقع پر قتل کر دیتا ہے، فائرنگ کی آواز سن کر مقتول کا باپ، چچا اور دیگر گھر والے بھاگ کر سامنے آتے ہیں اور اسی لڑکے کی گولیوں سے زخمی ہو کر گرتے ہیں۔

بعد ازاں پکڑے جانے پر وہ 15سالہ لڑکا یہ استدلال پیش کرتا ہے کہ اِس گھر والوں کا تعلق فلاں اقلیتی فرقے سے تھا جو گستاخ اور واجب القتل ہیں، اِس لئے میں نے تو اپنا مقدس فریضہ ادا کیا ہے۔

اب ہم ٹھنڈے دل و دماغ سے غو ر کریں کہ ایک نا پختہ ذہن میں ایسی زہریلی سوچ ابھارنے یا بھڑکانے کے عوامل کیا ہیں؟ ہماری اجتماعی قومی دانش، ہمارا ریاستی بیانیہ، ہمارا آزاد اور ذمہ دار میڈیا کہاں کھڑے ہیں؟ ہماری ہیومن رائٹس کی وزارت چلانے والی خاتون کو فرانسیسی بچوں کی کس قدر فکر ہے جس کیلئے وہ سفارتی ادب آداب یا حدود و قیود کو بھی پامال کر دینا چاہتی ہیں لیکن اپنے بچوں کا ذہنی استحصال وہ کس لیول پر پہنچا چکی ہیں۔ ان کی بلا سے ، اپنی نسلیں برباد ہو رہی ہیں تو ہو جائیں مگر سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۔

بات شروع ہوئی تھی بڑے بڑے جنازوں کی روداد سے، کس کس کا تذکرہ کریں، شاید سب سے بڑا جنازہ تو ہم نے اپنے اس پاک پاکیزہ یا مقدس ملک میں انسانیت اور اس سے جڑی اقدار، عقل شعور، حریت فکر یا آزادی اظہار کا نکال دیا ہے۔

جنازہ تو ’’مردِ مومن‘‘ کا خادمِ انسانیت عبدالستار ایدھی سے کہیں بڑا تھا۔ کہا جاتا ہے دنیا میں سب سےبڑا جنازہ مائیکل جیکسن کا تھا جس میں کوئی نصف کروڑ لوگوں نے شرکت کی۔ پرنسس ڈیانا کا جنازہ بھی بڑے عالمی جنازوں میں سے ایک تھا۔

مسلم دنیا میں اب تک کے بڑے جنازوں میں مصرکے ڈکٹیٹر جمال عبدالناصر کے جنازے کو سب سے بڑا قرار دیا جاتا رہا ہے لیکن ہمارے لاہور کے حالیہ جنازے سے لگتا ہے غیر مسلموں کے نہیں تو کم از کم اس نے مسلمانوں کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔