لال شہباز انڈر پاس اور ڈرائیور

November 29, 2020

میں ڈی جی پی آر کے ایک دفتر میں داخل ہوا تو اندروزیر جیل خانہ جات اور کالونیزفیاض الحسن چوہان بیٹھے ہوئے تھے ۔وہ شاید کسی پریس کانفرنس کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے ۔

وہ پریس کانفرنس کرنے چلے گئے اور میں اسلم ڈوگر سے مل کر باہر آگیا۔دیکھا تو میری گاڑی کومنسٹر صاحب کی گاڑی نے بلاک کررکھا تھا۔گاڑی کیلئے وہاں کے عملے نے منسٹر کے ڈرائیو رکی تلاش شروع کردی مگرڈرائیور کا کچھ پتہ ہی نہیں چل رہا تھا ۔

کافی جستجو کے بعد پتہ چلا کہ پریس کانفرنس میں منسٹر کے پیچھے جو چند لوگ کھڑے ہیں ان میں ڈرائیور بھی کھڑا ہے۔ اس خبر پر دفتر کے کچھ افسران نے برا منہ بنایا مگر میں منسٹر اور اس کے ڈرائیور کے درمیان اس تعلق پر خوش ہوا۔ڈرائیور کے ساتھ وزیر کا یہ تعلق وزیر کے عوامی ہونے کی نشان دہی کرتا ہے۔

ڈرائیور اور صاحب کے درمیان اعتماد کا رشتہ بڑا ضروری ہوتا ہے۔عطاالحق قاسمی کا ایک ڈرائیور ہوا کرتا تھا ، بیچارہ فوت ہو گیا ہے ۔قاسمی صاحب اُس پر بہت اعتماد کرتے تھے۔اس کی ایک بری عادت تھی کہ وہ قاسمی صاحب کے قریبی دوست سے پیسے مانگ لیتا تھا۔قاسمی صاحب دوستوں کو منع کرتے تھے کہ اسے پیسے مت دیا کریں۔

مجھے یاد ہے میں ایک دن سپریم کورٹ جج کے ساتھ اس کی گاڑی میں گھر سے سپریم کورٹ کی عمارت تک گیا۔ جج صاحب گفتگو کرتے ہوئے گاڑی تک پہنچے مگر جیسے ہی گاڑی میں بیٹھے تو جج صاحب نے خود بھی خاموشی اختیار کرلی اور مجھے بھی چپ ہو جانے کےلئے کہا ۔ انہیں شاید شک تھا کہ یہ ڈرائیور ان کی باتیں کہیں پہنچاتا ہے۔

ڈرائیور اگر با اعتماد نہ ہو تو اچھی بھلی ازدواجی زندگی کا ستیا ناس ہو جاتا ہے ۔میرے ایک دوست جو اسلام آباد میں ایک بڑے عہدے پر فائز تھے۔

ایک دن مجھے کہنے لگے کہ یار سمجھ میں نہیں آرہا کہ میری بات کا علم بیگم صاحبہ کو کیسے ہوجاتا ہے ، میں نے پوچھا،یہ کام کتنے عرصہ سے ہونا شروع ہوا ہے تو حساب لگا کر بولا ،کوئی سات آٹھ ماہ سے ۔میں نے پوچھا کہ اس عرصہ میں کوئی ملازم آپ کے پاس آیا ہو ۔

تو کہنے لگا ،ہاں ڈرائیور نیا ہے مگر میں نے پوری تحقیق کی ہے ۔اس کا بیگم صاحبہ سے کوئی رابطہ نہیں ۔ میں نے پوچھا، کس نے اس ڈرائیور کی سفارش کی تھی وہ بولا ۔ہاں یہ میں نے اپنی سالی کے کہنے پر رکھا تھا ۔میں نے ہنس کر کہا ، آپ بھی کتنے سادہ ہیں ،پھر بھی یہی سمجھتے ہیں کہ بیگم صاحبہ اور ڈرائیور میں کوئی رابطہ نہیں ۔

پرانے زمانے میں ڈرائیور کی بڑی اہمیت تھی ۔ اسے راستوں کا پتہ ہوتا تھا۔ ستاروں سے سمتوں کا تعین کرنا بھی جانتا تھا ۔سو قافلوں کی رہنمائی اس کے حصے میں آتی تھی ۔میرِ کارواں کے لقب سے نوازا جاتا تھا۔پھر بحری جہازوں کا دورشروع ہوا توبحری جہاز کے ڈرائیور کو کپتان کا لقب ملا ۔ہوائی جہاز کے ڈرائیور یعنی پائلٹ کو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ٹرین کا ڈرائیور بھی ٹھیک ہے ۔

ٹرک اور بس کے ڈرائیور کا بھی گزارہ چل جاتا ہے مگر کار کا ڈرائیوربیچارہ سب سے مظلوم واقع ہوا ہے ۔ایک تو اس کی تنخواہ کم ہے ۔دوسرا گھر کے باقی کام بھی کرنے پڑتے ہیں ۔یعنی یہاں میر کارواں اپنی تذلیل کی آخری حد تک پہنچ چکا ہے ۔ اس میں ڈرائیور کی ذہنی سطح کا بھی بہت ہاتھ ہے۔

مثال کے طور پر کل مجھےایک ڈرائیور کہہ رہا تھا کہ شکرہے حکومت نے لاہور میں بھی کوئی کام کیا ۔فردوس مارکیٹ لعل شہباز قلندر انڈرپاس بنا دیا ہے وہاں ٹریفک کا بڑا مسئلہ تھا ۔

اب ڈیفنس جانے والوں کو کوئی پرابلم نہیں ہوگا ۔ اب ایک ڈرائیور کوتو وہی پروجیکٹ نظر آئے گا جس سے اس کا تعلق ہوگا ۔وہ کیا جانے کہ حکومت پنجاب نے لاہورمیں کتنی پناہ گاہیں بنائی ہیں ۔

جہاں وزیر اعلیٰ خود رہائش پذیر لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر دسترخوان پر کھانا کھاتے ہیں ۔اسی ہفتے میں وزیر اعلیٰ آفس میں ایک تقریب میںشریک ہواجس میں سیالکوٹ اور ساہیوال کے لئے ترقیاتی منصوبہ جات کے معاہدوں پر دستخط کئے گئے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے تعاون سے پنجاب حکومت نے صوبے کے 9شہروں میں ترقیاتی و فلاحی پروگرامز کا آغاز کیا ہے۔

اس پروگرام کے تحت صرف ساہیوال اور سیالکوٹ میں ہی 40ارب روپے کے ترقیاتی منصوبے مکمل کئے جائیں گے۔

ان میں ساڑھے 17ارب روپے سے دونوں شہروں میں واٹر سپلائی اور سینی ٹیشن کے منصوبے بنیں گے، 46 کروڑ روپے سے پارکوں کی تعمیر و بحالی کا کام مکمل کیا جائے گا جبکہ تقریبا 1ارب روپے کی لاگت سے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی مشینری کی خریداری کی جائے گی۔

8 ارب روپے کی لاگت سے صاف پانی کی فراہمی اور سیوریج کے 4بڑے منصوبوں پر کام کیا جائے گا اور جلد ہی ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تنصیب کے منصوبوں پر بھی کام کا آغاز کر دیا جائے گا تاکہ زیر زمین پانی کی سطح جو روز بروز نیچے جارہی ہے اس کو روکا جاسکے۔

پروجیکٹ ایسے ہونے چاہئیں جیسے ’’سی پیک ٹاور‘‘۔ یہ وہ میگا منصوبہ ہے جس سے عوام کیلئے روزگار کے مواقع پیدا ہونے میں مدد ملے گی۔ تاجروں اور صنعتکاروں کیلئے انفارمیشن ڈیسک قائم کئے جائیں گے۔

ایک ہی چھت تلے پاکستانی سرمایہ کاروں اور چائنیز سرمایہ کاروں کو تمام معلومات فراہم کی جاسکیں گی۔ پنجاب میں فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کے رجحان کو بہتر بنایا جاسکے گا۔

اس سے نہ صرف پاک چین تعلقات مستحکم ہونگے بلکہ دونوں ممالک کی بزنس کمیونٹیز بھی قریب آئیں گی۔ابھی چند دن پہلے چیئرمین سی پیک اتھارٹی عاصم سلیم باجوہ اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی ملاقات میں اس سی پیک ٹاور بنانے کے پروجیکٹ کو فائنل کیا گیا۔

دونوں صاحبان کو اس پر مبارک باد۔